لوگ جھوٹ کیوں بولتے ہیں ؟ اس لئے کہ جھوٹ میں بچت ہے ۔ طالبعلم استاد سے جھوٹ بولتا ہے۔ مجرم جج کے آگے جھوٹ بولتا ہے ، کمزور طاقتور کے سامنے جھوٹ بولتا ہے ۔ بیٹا باپ کے ساتھ جھوٹ بولتا ہے ۔ دکاندار گاہک سے جھوٹ بولتا ہے اور حکمران عوام سے جھوٹ بولتے ہیں۔ کیونکہ جھوٹ میں بچت ہے۔عمران خان اپنے اعصابی مہم کے دوران عوام کو یہ یقین دلاتے رہے کہ ملک کا مستقبل روشن کرونگا ۔ عوام کو ان کی توقعات کے برعکس ریلیف دونگا ، ملکی وسائل کو عوام کی بہتری پر خرچ کرونگا۔ ان اعلانات اور یقین دہانیوں میں عمران خان کا پہلامیگا جھوٹ تبدیلی آگئی ہے جس کا لوگ اپنے عوامی زبان میں سر عام مذاق اُڑارہے ہیں۔
دوسرا میگا جھوٹ ایک کروڑ بے روزگار افراد کو روزگار دونگا۔ تیسرا میگاجھوٹ ایک ارب درخت لگاکر گرین پاکستان بنائو نگا۔ چوتھا میگا جھوٹ نوازشریف اور زرداری کو نہیں چھوڑونگا، ان سے قوم کا لوٹا ہوا پیسہ واپس لائونگا ۔ پانچواں میگا جھوٹ خودکشی کرونگا مگر آئی ایم ایف سے قرض نہیں لوں گا۔ چھٹا میگا جھوٹ پچاس لاکھ بے گھر افراد کو گھر بنا دونگا۔ ساتواں میگا جھوٹ میں کسی کو این آر او نہیں دونگا۔ مہنگائی کاخاتمہ کرونگا۔ جھوٹ ، بجلی گیس کی نرخوں میں کمی لاکر عوام کو ریلیف دونگا۔ جھوٹ، احتساب کا منصفانہ نظام لائونگا ۔ جھوٹ۔ میڈیا آزاد ہوگاجھوٹ۔ گورنر ہائوسز کویونیورسٹی میں تبدیل کرونگا۔ جھوٹ ۔ کشمیریوں کا سفیر بنوں گاجھوٹ۔ پاکستان کو ریاست مدینہ بنائوں گا۔ جھوٹ ۔ سفید جھوٹ۔ مگر ایک اور حیران کردینے والا جھوٹ نیا پاکستان بنائوں گا۔
اس جھوٹ نے لوگوں کے ذہنوں میں ابہام پیدا کردئیے ، کراچی کی رہائشی ایک معمر خاتون نجی ٹی وی پر جارحانہ فریاد کر رہی تھی کہ انہیں نیا پاکستان نہیں پرانا پاکستان چاہئے جس میں میرا گھر تھا ، نئے پاکستان میں گھر مسمار کرکے مجھے بے گھر کر دیا۔ اس خاتون نے عمران خان کے نئے پاکستان کے تصویر کو بے نقاب کر دیا ہے۔
عمران خان کی حکومت میں شامل وزراء اور مشیران چوں چوں کا مربہ ہیں یا یوں سمجھ لیں کہ آدھے تیتر آدھے بٹیر ہیں ۔ ان میں آدھے وہ ہیں جواسٹیبلشمنٹ کی پیداوار او ر ابن الوقت ہیں جو ماضی میں مسلم لیگ ( ن ) ، پیپلزپارٹی اور جنرل پرویز مشرف کی حکومتوں میں شامل رہے ہیں۔
جن میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وفاقی وزراء فواد چوہدری ، وزیر داخلہ شیخ رشید ، بابر اعوان ،وفاقی وزیر زبیدہ جلال ، فیاض الحسن چوہان، صوبائی وزیر اطلاعات آپا فردوس عاشق اعوان، وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم اور وفاقی وزیر ریلوے اعظم سواتی شامل ہیں۔ جب یہ ( ن ) لیگ میںتھے تو نوازشریف کا مالا جپتے تھے۔جب پیپلزپارٹی میں تھے تو بھٹو زندہ ہے کے نعروں کی گونج میں زرداری کا ماتا چومتے تھے ۔ ان کی پالیسیوں کی تعریفیں کرتے تھے۔ جب جنرل پرویز مشرف کے کابینہ میں تھے تو جنرل مشرف کے جوتے صاف کرتے تھے۔ ان کی آمرانہ پالیسیوں کی تعریفوں کے پل باندھتے تھے۔
او راپنی چاپلوسیوں کے عیوض بھاری تنخواہیں اور مراعات حاصل کرتے تھے۔ اب یہ پی ٹی آئی کی حکومت میں بیٹھ کر عمران خان کے ہر جائز و ناجائز اقدامات کا دفاع کررہے ہیں او رعمران خان کے لئے واہ واہ کے ڈھونگ رچا رہے ہیں۔ عمران خان کے ساتھ ہم آواز ہوکرنوازشریف اور زرداری کو چور ، ڈاکو اور قومی مجرم قرار دے رہے ہیں۔ جب یہ ٹی وی چینلوں کے ٹاک شوز میں آتے ہیں تو بد تمیزی کا ایک طوفان کھڑا کردیتے ہیں۔ ٹی وی اینکرز او راپنے مخالف فریق کے ساتھ غیر سنجیدہ گفتگو کرتے ہیں جس سے ان کی اخلاقی پستی اور غیر سیاسی اپروچ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ صحافیوں کے سوالات کے جواب یہ تھپڑوں اور گالم گلوچ سے دیتے ہیں۔ خصوصاً خواتین اینکر کے ساتھ بد اخلاقی سے پیش آتے ہیں۔
کیونکہ ان کے پاس اپنے دفاع میں دینے کے لئے دلائل نہیں ہوتے، یہ اینکرز کے ساتھ الجھ جاتے ہیں اور مسلسل جھوٹ بولتے اور شور شرابہ کرکے پروگرام کا وقت ضائع کرتے ہیں۔ وفاقی وزیر شہباز گِل انتہائی غیر سنجیدہ انسان ہیں اپنے مخالفین کے ساتھ دوران گفتگو لڑنے پر اُتر آتے ہیں ۔ ایک ٹی وی چینل کا اینکر ہاتھ جوڑ کر ان سے کہہ رہا تھا کہ آپ لوگ اس طرح کی زبان استعمال کرکے عمران خان کو نقصان پہنچارہے ہیں لیکن شہباز گِل بولتے رہے ۔ شیخ رشید جیسا غیر سنجیدہ شخص کو پاکستان کا وزیر داخلہ بنا دیا گیا ہے جو کہ بقول ان کے وہ اپنے جیب میں پائو اور ڈیڑھ پائو کے ایٹم بم لئے پھرتا ہے۔
صوبائی وزیر اطلاعات آپا سہولت کار محترمہ فردوس عاشق اعوان جب ٹی وی پر آتی ہیں تو آپے سے باہر ہوجاتی ہیںفر فر بولتی ہیں او راگلے کی نہیں سنتیں، بس چلاتی رہتی ہیں اور جھوٹوں کے بڑے سرتاج کو خوش کرنے کے لئے جھوٹ پر جھوٹ بولتی جاتی ہیں ۔ وفاقی وزیر مراد سعید جارحانہ انداز میں گفتگو کرتے ہیں او راسمبلی کے فلورپر مخالف ممبران کے ساتھ بد تمیزی سے پیش آتے ہیں اور طرح طرح کے بھاشن دیتے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز فرماتے ہیں مریم نواز جان لیں کہ نئے پاکستان میں قانون اب ان کے گھر کی لونڈی نہیں بن سکتی۔ لفظ لونڈی کی جگہ وہ مناسب سیاسی لفظ کا چنائو کر سکتے تھے لیکن ا ن کو سلیبس دیا گیا ہے وہ اپنی نوکری پکی کرنے کے لیے اس پر من و عن عمل کر یں گے۔ اخلاقیات گئی بھاڑ میں۔
فیاض چوہان بھی اسی طرح کی زبان استعمال کرتے ہیں۔ ان کے خلاف ایکشن لینے والا کوئی نہیں ہے ۔ وفاقی وزیر علی محمد خان ٹاک شوز میں آکر سب سے پہلے اس لئے بسم اللہ الرحمن رحیم پڑھتے ہیں تاکہ عوام ان کے جھوٹ پر یقین کر یں،جب لیگی رہنما راجہ ثناء اللہ کی گاڑی سے 15کلو ہیروئن کی برآمد گی کا دعویٰ کیاگیا تو علی محمد خان جو ثناء اللہ کی گاڑی سے منشیات کی برآمدگی پر بطور گواہ چلا چلاکر قسمیں اٹھا رہے تھے لیکن آج تک وہ یہ ثابت نہیں کر سکے۔سائنس و ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر فواد چوہدری نے اپنے بیان میں سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز کو مشورہ دے رہے ہیں۔
کہ اگر آپ کو سیاست کرنی ہے تو آپ ،ووٹ سے سیٹ جیت کر دکھائیں ۔ سپریم کورٹ کے ایک حاضر سروس جج کے بارے میںسیاسی جملے کسنا ان کی اخلاقی پستی کو ظاہر کرتا ہے۔عمران خان کی آمرانہ طبیعت اور ان کی غیر سیاسی ٹیم پاکستان کی سیاست میں گالم گلوچ اور جھوٹ کے کلچر کو فروغ دے کر پاکستان کے عوام اور نئی نسل کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں ؟