ایک گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا، بہت ہی محنتی تھا، اس نے اپنی محنت سے اپنے ٹوٹے پْھوٹے گھر کو تیار کر کے ایسا سجایا کہ ہر جگہ اس کے چرچے ہونے لگے، گاؤں کا وڈیرا پوری زندگی جگت بازی میں پورا رہتا تھا، لہٰذا جہاں تھا، وہیں کا وہیں رہ گیا۔ اس کی حالت میں ایک پیسے کی ترقی یا جدت نہیں آئی ، بالآخر ایک دن وڈیرے کو غصہ آگیا، اور کہنے لگا کہ ہاری کا گھر اس (وڈیرے) کا ہے، لہٰذا کسان کو اپنا گھر جلد از جلد خالی کر دینا چاہئے ، اب وہ گھر “وڈیرے” کا مسکن ہے۔ اس کہانی میں کسان، “سندھ” اور “وڈیرہ” وفاق ہے۔
جیسا کہ موجودہ حکومت گذشتہ تین برسوں سے عوام کو کسی بھی قسم کا رلیف دینے میں ناکام ہو چکی ہے، اس لئے اس کی کوشش ہے کہ دوسروں کی محنت پر اپنے پرچم گاڑ دیئے جائیں اور اْن کی محنت کو اپنی محنت بتا کر عوام کی سیاسی تھو تھو سے بچا جا سکے۔ قارئین میں بہت ہی کم لوگوں کو معلوم ہوگا، 2015 سے پہلے،کراچی کے مشہور اور معروف دل کے خیراتی ہسپتال این آئی سی وی ڈی میں وینٹی لیٹر، مانیٹر اور دیگر جدید ساز و سامان نہ ہونے کے برابر تھا، آج این آئی سی وی ڈی ملک میں تو کیا، پوری دنیا کے منجھے ہوئے ہسپتالوں میں شمار ہوتا ہے۔ سندھ سرکار نے بیشک کوئی خاص کام نہیں کئے ہونگے۔
لیکن کراچی کے سول ہسپتال کے گڑدوں کا وارڈ سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ ( ایس آئی یو ٹی) ، جناح ہسپتال کا ایمرجنسی وارڈ، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف کارڈیووسکیولر ڈزیز ( این آئی سی وی ڈی)، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چلڈرین ہیلتھ ( این آئی سی ایچ) کو موجودہ کامیاب سطح پر لانے میں پیپلز پارٹی کا بہت کردار رہا ہے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی کی مہربانیوں سے این آئی سی وی ڈی کی پورے سندھ میں شاخیں کھلنا شروع ہو گئی ہیں، اس سے قبل این آئی سی وی ڈی کی بیس سے زائد شاخیں کھل چکی ہیں، اور مزید کھلنا ابھی باقی ہیں۔
2015 میں کسی نے یہ سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ایک دن این آئی سی وی ڈی جیسا خیراتی ادارہ اتنا بڑا Giant ادارہ بن جائے گا، کہ وفاق اس کو ہڑپنے کے لئے تمام آئینی حدود کو روند کر اپنے ہی صوبے کی مخالفت میں آ کر کھڑا ہو جائے گا۔ سندھی میں اک کہاوت ہے، “دوسروں کے مال پر ٹوپی سر پر تن کے چڑہائی جاتی ہے۔” ویسے ہی وفاقی حکومت گزشتہ تین برسوں میں اپنے ہی اداروں ریلوے، پی آئی اے، خواہ اسٹیل مل کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں ناکام ہو چکی ہے، اس کی نظریں اب صوبوں کے اداروں میں ہیں اور سندھ کے خود انحصار Self-Dependent ادارے خاص طور پر اس کے نشانے پر ہیں۔
تاکہ ان کو اپنی تحویل میں لے کر کوئی کام کئے بغیر اپنے لئے تعریفیں سمیٹی جا سکیں۔ یہ کوئی سازش ہے یا نہیں؟ لیکن سیدھا سوال یہ ہے کہ بہترین انداز میں چلنے والی یہ ہسپتالیں آخر وفا کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کیوں چبھ رہی ہیں؟ آخر اس قسم کے فیصلے کا مقصد کیا ہے؟ مسند اقتدار پر مزین مخلوق جو کرپشن مخالفت کی آہ و بکا کرتے نہیں تھکتی، اس کے پول تو اس دن ہی کھل گئے تھے ، جس دن کورونا چینی کے ذخیرہ اندوزوں اور کورونا کی ویکسین کی خریداری کے اسکینڈل سامنے آئے تھے،جس میں “شغل اعظم” کے “لاڈلے” بڑے پیمانے پر کرپشن کی، جو ویکسین انٹرنیشنل مارکیٹ میں فی ویکسین سات سے آٹھ سؤ میں فروخت ہو رہی تھی۔
اس کی وی ویکسین خریداری آٹھ سے نو ہزار روپوں میں دکھائی گئی۔ ٹھہرئے، بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ سندھ کے خود انحصار اداروں کو وفاق کی تحویل میں لینے کے معاملے سے بہت سے معاملے منسلک ہیں۔ پہلی بات یہ کہ تاریخ بتاتی ہے کہ وفاق کبھی بھی سندھ کا سجن نہیں رہا، خاص طور پر ان ادوار میں جب سندھ پر “جیڈلوں” (جی ڈی اے والوں) اور “لیگلوں” (مسلم لیگ والوں) جیسی اسٹبلشمنٹ نواز حلقوں کے بجائے پیپلز پارٹی کے نام پر براہ راست سندھیوں کی اپنی حکمرانی رہی ہو۔ ان ادوار میں وفاق نے سندھ کو تہس نہیں کر کے انتہا درجے کی بدتر ترین صورتحال سے دوچار کرنے کے لئے ہر قسم کا زور لگایا ہے۔
موجودہ وفاقی حکومت بھی پیپلز پارٹی کی مخالفت کے نام پر سندھ کے “انتہا پسند” دشمن کے طور پر سامنے آئی ہے۔ اداروں کو تباہ کرنا، ان کی نجکاری، ان کی تباہی کے نتیجے میں نجی اداروں کو فائدہ پہنچانے جیسے محرکات کسی سے بھی مخفی نہیں۔ وفاق کے پیٹ میں اصل درد تو یہ ہے کہ آخر یہ ادارے عوام الناس کو مہنگی سہولیات مفت میں فراہم کیوں کرتی ہیں، کیوں نہ فیس اور دیگر محصولات کے نام لوگوں کا پیٹ کاٹا جائے، تاکہ وفاق کی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ کیا جا سکے۔
سندھ کے جزائر پر قبضے معاملہ ہو یا پھر اداروں پر ، موجودہ وفاقی حکومت کا رویہ چھوٹے صوبوں، خاص طور پر سندھ کی جانب “انتہا پسند” دشمن جیسا محسوس کیا جا سکتا ہے۔ وفاق کے سندھ میں بیٹھے ہوئے گماشتے پیشگی بڑے پیمانے پر یہ باور کروانے اور سندھیوں کی ذہن سازی کے مختلف حربے استعمال کئے، خودانحصار اور این آئی سی وی ڈی جیسے خیراتی اداروں کے خلاف سازش کے طور پر حلیم عادل شیخ جیسے وفاق کے گماشتوں کے ذریعے نہ صرف پریس کانفرنسز کروائی گئی، بلکہ پیسوں کے بدلے اْن اداروں کے خلاف لکھنے والوں سے جھوٹے ناموں سے مضامین لکھوائے گئے۔
سوشل میڈیا پر منظم انداز میں ٹرولز متحرک کر دیئے گئے،”مال خور” صحافیوں کو مال چکھوا کر جھوٹی رپورٹنگ کروائی گئی اور آپ کو یہ جان کر بہت حیرت ہوگی کہ وہ تمام موصوف بھی ان ہی اداروں سے ایک ایک دھیلا خرچ کئے بغیر نہ صرف اپنا، اپنے اہل و عیال بلکہ دوستوں اور جان پہچان والے لوگوں کو علاج بلکل مفت کرواتے ہیں، کیونکہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ دیگر تمام ادارے اپنی جگہ پر لیکنان اداروں جیسا معیاری علاج ایک ٹکہ خرچ کئے بغیر کہیں بھی ممکن نہیں۔