|

وقتِ اشاعت :   April 20 – 2021

الیکٹرانک اور سوشل میڈیا دیکھ دیکھ کر جب خود کو خاطر خواہ پریشان کر لیا تو جی چاہا کہ تھوڑا افاقہ کرنا چاہیے…فارغ وقت میں اور کیا کیا جاسکتا تھا… ٹی وی بند ہوا تو سوچنے لگی کہ زندگی کیسے محدود ہو گئی ہے، سڑکیں ویران ہو گئی ہیں، سب اپنے اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں… ہمیں تو کورونا سے لڑنا تھا مگر ہم تو آپس میں ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔جانے کیوں ہمیں انصاف پانے کیلیے پہلے بے انصافی کرنا پڑتی ہے، انسانیت کو مجروح کرنا ہوتا ہے۔ ہمیں مسلمانوں کی ساکھ کو بچانا ہے ،ان کی ناموس کی حفاظت کرنی ہے. بیشک اس کو ہر صورت میں یقینی بنانا چاہئے۔

مگر کیسے غریب کا روزگار چھین کر ،اسے تباہ و برباد کر کے ، سڑکوں کو آگ لگا کر ، اپنے ہی بھائیوں پر ڈنڈے برسا کر ،اپنے ہی ملک کو تباہ و برباد کر کے۔ وہ مذہب جو مسجد میں لہسن اور پیاز کھا کر جانے سے منع کرتا ہے تا کہ اس کی بدبو سے دوسروں کی دل آزاری نہ ہو۔ وہ مذہب جو راستے میں پتھر رکھنے سے منع کرتا ہے کہ کہیں کسی مسافر کو تکلیف نہ ہو۔ وہ مذہب جو حقوق انسانیت کو سب سے بڑھ کر رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ اسی کے نام پر حاصل کیے گئے ملک میں اسی کے نام پر انسانیت کو روندا جاتا ہے۔ غریبوں کا جینا دوبھر کیا جاتا ہے۔ توڑ پھوڑ کی جاتی ہے، اپنے بھائیوں کو اذیت دی جاتی ہے۔

وہ مذہب جو پھل دار درختوں کو کاٹنے سے منع کرتا ہے وہاں اسی کے ماننے والے اسی کے نام پر اسی کے بندوں کی ساری زندگی کی محنت چھین لیتے ہیں۔ چلو مان بھی لیتے ہیں احتجاج ہونا چاہیے تھا لیکن اگر یہ پر امن طریقے سے ہوتا تو بہتر نا ہوتا ،اگر یہ توڑ پھوڑ کے بغیر ہوتا تو بہتر نا ہوتا ،اگر یہ غریب کا رزق چھینے بغیر ہوتا تو بہتر نا ہوتا ، اگر یہ غریب کا خیال رکھ کر کیا جاتا تو بہتر نا ہوتا ، اگر اپنے ملک کے حالات کا سوچ کر کیا جاتا تو بہتر نا ہوتا۔اگر یہ سیاست چمکائے بغیر ہوتا تو بہتر نا ہوتا ، اگر یہ قانونی تقاضے پورے کرتا ہوتا تو بہتر نا ہوتا۔

ان غریبوں کا کیا قصور تھا جنہوں نے ساری عمر لگا کر کوئی روزگار کا وسیلہ بنایا اور آپ نے ایک ہی پل میں اسے تباہ و برباد کر دیا ، اب اس کا نقصان کون پورا کرے گا۔ اس مزدور کا کیا قصور تھا جو روز دیہاڑی پر کام کرتا ہے اور اگر ایک دن کام نہ ملے تو اس کے گھر چولہا نہیں جلتا۔ اس ماں کا کیا قصور تھا جس کا بیٹا اس تشدد کا شکار ہو جاتا ہے ،اس ملک کا کیا قصور تھا جس نے ہمیں اپنی گود میں پناہ دی ہوئی ہے ،ان رکشوں، ان بسوں ،ان موٹرسائیکلوں ،ان ٹائروں کا کیا قصور تھا جنہیں نذر آتش کیا جاتا ہے۔کیا اب بھی ہم نہیں مانتے کہ ہم حد سے زیادہ انتہاپسند نہیں ہیں۔

کیا ہم میں سے کسی نے قانون کی بالادستی قائم رکھنے کی کوشش کی جس کا اسلام حکم دیتا ہے۔کیا ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کی کہ اللہ ہم سے کیا کہتا ہے اور اسے ماننے کی کوشش کی۔ کیا ہم نے کبھی تفرقات سے نکل کر اسلام کا اصل چہرہ دکھانے کی کوشش کی۔ دنیا کے ہر خطے میں مسئلے مسائل ہوتے ہیں اور ان کے خلاف آواز بھی اٹھائی جاتی ہے مگر اس کا کیا یہ مطلب ہے کوئی بھی مسئلہ ہو آپ نے باہر نکل کر ملک کو ہی تباہ کرنا ہے ،غریب کو ہی لوٹنا ہے ، اپنے بھائیوں کو اذیت دینا ہے۔ ہر جگہ مظاہرے ہوتے ہیں مگر ہم کیوں ہر بات پر مشتعل ہو جاتے ہیں۔

ہم کیوں ہر بات پر ایک دوسرے کو مارنا شروع کر دیتے ہیں، ہم کیوں دوسروں کو تکلیف دیئے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتے۔ ہم ایک غلط فیصلے کو صحیح کرنے کے لیے کئی غلط قدم اٹھاتے ہیں ،ہم کوئی بھی کام درست طریقے سے کیوں نہیں کر سکتے ، ہم کس سمت جا رہے ہیں ،ہم کس ڈگر پر چل پڑے ، کیا جن کو ماننے کے ہم دعوے کرتے ہیں ان کی مان بھی رہے ہیں یا بس زبان سے ہی دعوے کرتے ہیں ، کیا ہمیں اس پر تھوڑی دیر سوچنا نہیں چاہئے۔ ہمارے مذہبی لیڈر ہوں یا سیاسی لیڈر سب کے پاس ایک ہی طریقہ ہے بات منانے کا اور وہ ہے۔

توڑ پھوڑ کا اور اس میں نقصان صرف اور صرف غریب عوام کا ہوتا ہے یا ملک کا۔۔ ہمیں سوچنا ہوگا کیا تشدد کے علاوہ اور کوئی حل نہیں۔ بس اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔