ہمارے پیارے ملک میں سیاستدانوں احتساب کی انتہائی بھیانک تاریخ رہی ہے جس کی شروعات ایک آمر جنرل ایوب خان نے کی تھی ،انہوں نے ایبڈو کے ذریعے سیاستدانوں کو سیاست سے بیدخل کیا تھا ،اس کے بعد ایک اور جنرل ضیاء نے بھی احتساب کو ہتھیار بنایا جنرل ضیا کے عبرتناک انجام کے بعد ان کے لاڈلوں نے بھی احتساب کو مشغلہ بنایا اور احتساب کی آڑ میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو وحشیانہ انتقام کا نشانہ بنایا ،اس وحشیانہ احتساب کا نشانہ صدر آصف علی زرداری بار بار بنتے رہے ہیں انہوں نے اپنی زندگی کے بہترین دن قید میں گذارے۔
دوران قید صدر آصف علی زرداری کو قتل کرنے کی کوشش بھی کی گئی تھی ، ادی فریال بھی احتساب کی آڑ میں انتقام کا نشانہ بن چکی ہیں، ادی فریال کو پنڈی جیل میں قید رکھا گیا مگر وہ نہ قید سے ڈریں نہ جھوٹے مقدمات سے اس لیئے یہ کہنا درست ہوگا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے خلاف الزامات اور احتساب کی کہانی آج کی نہیں بہت پرانی ہے اور سید خورشید احمد شاہ کیلئے قید خانہ کوئی نئی جگہ نہیں ہے۔ سید خورشید احمد شاہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید سے وفا کرتے ہوئے ضیا آمریت میں بھی جیل گئے تھے ، اب وہ گز شتہ تقریباً دو سال سے قید ہیں۔
در اصل چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری سیوفاداری کی قیمت قید کی صورت میں چکا رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے اور حقیقت یہ ہے کہ سید خورشید احمد شاہ کو ضمانت پر رہائی کے حق سے محروم رکھا جا رہا ہے اس طرح سید خورشید احمد شاہ کو قید رکھ کر اس کے حلقے کے عوام کو پارلیمان میں نمائندگی کے حق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ کوئی شک نہیں ہے کہ سید خورشید احمد شاہ سکھر کے عوام کی خدمت کرتے رہے ہیں بلکہ اسلام آباد میں انکے گھر کے دروازے پورے ملک کے عوام کیلئے کھلے رہتے ہیں۔
وہ صدق دل سے عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔جہاں تک ان پر الزامات کی بات کا تعلق ہے تو صاف نظر آتا ہے کہ تمامالزامات سیاسی تعصب پر مبنی ہیں ۔ قومی احتساب بیورو بیورو ” نیب ” کی بات کی جائے تو یہ آمر پرویز مشرف کی تخلیق ہے جو سیاسی انجینئرنگ کیلئے بنائی گئی تھی ، نیب کیلئے سیاسی انجینئرنگ جیسے الفاظ سپریم کورٹ میں بھی گونجتے رہے ہیں نہ صرف یہ بلکہ اسے سیاسی بلیک میلنگ کا سیل بھی کہا جاتا رہا ہے۔ میری معلومات کے مطابق سندھ میں نیب کا نشانہ پیپلزپارٹی کے رہنما ہیں ۔
سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی سے لیکر شرجیل میمن ،ڈاکٹر عاصم حسین کو نیب کے ذریعے ڈرانے کی کوشش کی گئی مگر پیپلزپارٹی کے کے رہنما قید و بند کا بہادری اور ثابت قدمی سے سامنا کرتے رہے، سکھر کے عوام کو سید خورشید احمد شاہ پر فخر اور ناز ہے کیونکہ ان کے منتخب نمائندے نے جھوٹے الزامات اور قید سے ڈر کر نہ جھکے اور نہ بکے اور نہ ہی اپنے حلقے کے عوام کو شرمندہ کیا ، کوئی کیسے بھول سکتا ہے احتساب کے تھانیدار سیف الرحمان کو انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا لباس نیلام کرنے کی شیخی بگھاری تھی ۔
پھر ایسا بھی وقت آیا کہ سیف الرحمان عدالت میں صدر آصف علی زرداری کے قدموں میں بیٹھ کر ان سے معافی مانگ رہے تھے۔ مجے عمران نیازی کی فطرت پر ہرگز حیرت نہیں ہے حیرت ہے تو چیئرمین نیب کے کردار پر جو سابق جج ہوتے ہوئے بھی انصاف کی مٹی پلید کر رہے ہیں، سید خورشید احمد شاہ، آغا سراج درانی ، شرجیل میمن جب سلیکٹڈ حکومت کے اوچھے ہتھکنڈوں سے نہ گھبرائے تو ان کی خواتین کو احتساب کے نام پر ہراساں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے یہ بے شرمی کی انتہا ہے۔