آبادی کے اعتبار سے چین کے بعد بھارت دنیا کا دوسرا اور رقبے کے لحاظ سے ساتواں بڑا ملک ہے۔ کئی تاریخی اور ثقافتی مشترکات کے باوجود بنگلا دیش اور پاکستان کے بھارت سے اختلافات ہیں۔ سری لنکا اور نیپال کی صورت حال بھی لگ بھگ یہی ہے اور سری لنکا اور نیپال کا معاملہ بھی کسی حد تک ایسا ہی ہے۔ دوسری جانب خود بھارت میں پائی جانے والے اندرونی اختلاف کی کئی پرتیں ہیں۔ بھارت کے بالادستی کے رویے کے باعث جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔ بھارت خود کو سپر پاؤر سمجھتا ہے۔
اور اپنی اس دھن میں برصغیر اور اپنے ملک کے اندر کی کئی مشترکہ قدروں کو بھی نظر انداز کررہا ہے۔ بھارت کے اندر بھی بے چینی پائی جاتی ہے اور کئی حکومت مخالف تحریکیں چل رہی ہیں۔ جب بھارت کے داخلی مسائل قابو سے باہر ہونے لگتے ہیں تو وہ انہیں چھپانے کی کوشش کرتا ہے یا پھر زیادہ تر پاکستان پر ان کا الزام دھر دیتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال کشمیر ہے جہاں دہائیوں سے تسلط کے باوجود بھارت کشمیری عوام کو مطمئن کرنے میں ناکام ہے۔ گزشتہ کئی برسوں میں آزادی کے لیے چلنے والی کشمیریوں کی مختلف تحریکوں کو بے دردی سے کچلنے کے باوجود بھارت وہاں اپنے قدم جمانے میں ناکام ہے۔
خالصتان کی علیحدگی پسند تحریک نے 1920میں قائم ہونے والی سکھوں کی مذہبی سیاسی جماعت اکالی دَل سے جنم لیا ہے۔ خالصتان کی علیحدہ ریاست کے مطالبے نے 1946اور 47ء میں برصغیر کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔ 1980کی دہائی میں اس تحریک نے زور پکڑا لیکن بھارتی ریاست نے اس تحریک کے ساتھ سختی نمٹنے کے لیے 1984میں گولڈن ٹیمپل میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ محصور ہونے والے سکھ لیڈر بھنڈراں والا کے خلاف ’’آپریشن بلیو اسٹار‘‘ کیا اور بڑی سفاکی کے ساتھ اس تحریک کے لیے عسکری مزاحمت کرنے والوں کو کچل دیا۔
اس آپریشن کے بعد پورے بھارت میں فوج کی سکھ یونٹس میں بغاوت پھوٹ پڑی اور اندرا گاندھی کو بھی ان کے سکھ محافظوں نے قتل کردیا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد دہلی میں ہونے والے فسادات کے دوران ہونے والے قتل عام میں تین ہزار سکھوں کی جانیں گئیں اور بیس ہزار سکھ دہلی چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ سکھ عسکریت پسندوں کی ریل گاڑیوں کو پٹڑی سے اتارنے، بازاروں اور شہری علاقوں میں دھماکوں کی کارروائیوں سے بڑی تعداد میں شہری جان سے گئے۔ عسکریت پسندوں نے اختلاف رکھنے والے کئی معتدل سکھ رہنماؤں کو بھی قتل کیا۔
ہزاروں ہندوؤں کو پنجاب چھوڑنا پڑا۔ حال ہی میں بھارتی ریاست پنجاب کے کسانوں کے احتجاج میں خالصتان کا مطالبہ ایک بار پھر توجہ کا مرکز رہا۔ امریکا میں قائم گرپتونت سنگھ پنوں کی تنظیم ایس ایف جے سمیت کئی سکھ جماعتیں گولی کے بجائے ووٹ کے ذریعے علیحدہ ریاست کے قیام کی حامی ہیں۔ بھارت کی موجودہ حکومت ان پُر امن تحریکوں کو بھی طاقت سے دبانے کے درپے ہے۔ نکسلائٹ تحریک بھارتی ریاست کے خلاف چلنے والی سب سے پرانی تحریک ہے۔ یہ سخت گیر کمیونسٹ اور ماؤازم کے حامی ہیں۔
مغربی بنگال کے جس نکسل باڑی گاؤں سے 1967میں اس تحریک کا آغاز ہوا تھا، اسی کے نام پر اسے نکسل وادی یا نکسلائٹ تحریک کہاجاتا ہے۔ یہ تحریک رفتہ رفتہ جنوبی اور مشرقی بھارت کی پسماندہ ریاستوں چھتیس گڑھ، اُڑیسہ، آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں پھیل گئی۔ بھارت کی گیارہ ریاستوں کے 90اضلاع اس تحریک کے زیر اثرہیں۔ رواں ماہ 5اپریل کو چھتیس گڑھ کے علاقے بیجا پور میں 600نکسل وادیوں کے حملے میں بھارت کے 22سیکیورٹی اہل کار مارے گئے۔ بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کے ایک سروے کے مطابق آندھرا پردیش کے 58 فیصد عوام میں اس تحریک کا مثبت تاثر پایا جاتا ہے اور 19 فی صد اس کے خلاف ہیں۔
شمال مشرقی بھارت کی سات ریاستوں اروناچل پردیش، آسام، منی پور، میگھالیہ، مزورام، ناگالینڈ، تری پورا اور سکم میں بے چینی برقرار ہے۔ بھارت کے انتہائی مشرق میں واقع یہ ریاستیں بنیادی طور پر بھارتی ثقافت سے مختلف ہیں۔ یہ چین اور جنوب مشرقی ایشیا سے زیادہ قربت رکھتی ہیں اور ان کی آبادی زیادہ تر متعدد مختلف زبانیں بولنے والے قبائل پرمشتمل ہے۔ ان کی سماجی اقدار اور معاشرتی ڈھانچا بھی مختلف ہے۔ 1971 کی جنگ میں مزو لیڈر لال ڈینگا نے چٹاگانگ میں پاکستان کی مدد کی تھی اور ڈھاکہ سے دستبردار نہ ہونے کے لیے اصرار بھی کیا تھا۔
گزشتہ پچاس برسوں سے یہاں پائی جانے والی مسلح تحریکیں اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ بھارت کی مرکزی حکومت انہیں ’قومی دھارے‘ میں لانے کے لیے یہاں دیگر خطوں سے لوگ لا کر بسا رہی ہے۔ ان ریاستوں کے مقامی باشندوں کو خدشہ ہے کہ ان کا روایتی قبائل نظام، ثقافت ، کلچر اور ان کا سماجی ڈھانچا خطرے سے دوچار ہے۔ قراقرم اور ہمالیہ کے دشوار گزار پہاڑی سلسلوں کے باوجود جنوبی ایشیا کبھی بیرونی دنیا سے کٹ کر نہیں رہا۔ اس کے مقابلے میں کئی گنا چھوٹے خطے یورپ میں 28(اور اب 27) ممالک یورپی یونین کے رکن ہیں۔
یہ جنوبی ایشیا کے لیے ایک زندہ مثال ہے۔ 1947میں انڈین کانگریس نے کشمیر، بنگال اور خالصتان سمیت کئی آزاد ریاستوں کے قیام کی مخالفت کی۔ کانگریس اور نہرو ’اکھنڈ بھارت‘ پر حکمرانی کا خواب دیکھتے تھے اور خود کو ’برطانوی ہندوستان‘ کا وارث سمجھتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے پاکستان کے قیام کی مخالفت کی اور نئی ریاستیں قائم نہیں ہونے دیں۔ اگر اس وقت بہت سی ریاستیں قائم ہوجاتیں تو آج خطے کی صورت حال قدرے مختلف ہوتی۔آج مودی اور بی جے پی کیا چاہتے ہیں؟ جدید ٹیکنالوجی ، آلات اور ابلاغ کے تیز ترین ذرائع کے باعث ریاستوں کی تقسیم یا سرحدوں کو تبدیل کرنا محال ہوتا جارہا ہے۔
ایسی کسی کوشش کا لازمی نتیجہ جنگ کی صورت میں نکلے گا۔ ہمیں ثقافتی اور سیاسی خود مختاری کے مطالبوں پر سنجیدگی سے گفت و شنید کرنی چاہیے۔ حکومت کے خلاف دہائیوں سے مصروف تحریکیں مسلسل توانائی کا ضیاع کررہی ہیں جنھیں بہتر مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت بھارت کی سماجی و معاشی ترقی اس کی چند ریاستوں تک محدود ہے۔ بھارت میں چلنے والی کسان تحریک نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ بھارت کے ذات پات کے نظام میں برہمن اقلیت کس طرح برطانوی حکمرانوں کی جانشین بن چکی ہے۔
ششتی تھرور نے اپنی کتاب ’این ایرا آف ڈارکنیس‘ میں ماضی میں اس خطے کی معاشی خوشحالی کے اسباب پر دلائل کے ساتھ بات کی ہے۔ مختلف رنگ و نسل، زبان اور ثقافتوں کی حامل بھارت کی ساتوں شمال مشرقی ریاستیں اپنی شناخت بچانے کے لیے کوشاں ہیں۔ آسام سمیت ان سبھی ریاستوں میں مسلح تحریکیں فعال ہیں۔ بنگلا دیش سمیت ان سات ریاستوں کو ’ایسوسی ایشن آف ایسٹرن اسٹیٹ آف ساؤتھ ایشیا‘ (اے ای ایس ایس اے) کے تحت جمع کرنا بھی ایک آپشن ہے۔ اتفاق دیکھیے کہ قائد اعظم نے متحدہ بنگال کی صورت میں اے ای ایس ایس اے کے لیے فضل الحق اور سہروردی کو 1946میں مینڈیٹ دیا تھا ۔
لیکن کانگریس نے انگریزوں کی حمایت سے اس کی مخالفت کی اور اسے منظور نہیں ہونے دیا۔ خالصتان فطری طور پر ایک آزاد وجود رکھنے والی ریاست ہے۔ خالصتان اور اے ای ایس ایس اے 1947کا نامکمل ایجنڈا ہیں۔ یوپی ، بہار، ہریانہ، مہاراشٹریہ ، راجپوتانہ وغیرہ پر مشتمل ہندی بیلٹ اپنا الگ وجود رکھتا ہے۔ جنوبی بھارت نے ہمیشہ سیاست پر شمالی حصے کی بالادستی کو ناپسندیدی سے دیکھا ہے اور وہ اس حوالے علیحدہ ثقافتی شناخت کا بھی احساس رکھتے ہیں۔ جنوبی بھارت کی ریاستیں معاشی اعتبار سے بھی زیادہ مستحکم ہیں اس اعتبار سے جنوب اپنا علیحدہ وجود قائم کرسکتا ہے۔
برصغیر کے اس بڑے خطے پر برہمنوں کا تسلط ختم کرنے کے لیے کنفیڈیریٹ اسٹیٹس آف انڈیا(سی ایس آئی) کے تصور پر کام ہونا چاہیے۔ اسی کے نتیجے میں مختلف شناخت، مذہب اور ثقافت کی حامل اکائیوں کو برہمنوں کی طبقاتی اقلیت کے استحصال سے نجات حاصل ہوسکتی ہے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)