بلوچستان ملک کا خوش قسمت یا بدنصیب صوبہ ہے جہاں روز اول سے ہی چند خاندان ہمیشہ صاحب اقتدار بنتے چلے آ رہے ہیں اور وہی صوبے کے سیاہ وسفید کے مالک ہیں بلوچستان کی بدحالی اور احساس محرومی کا ذمہ دار اسی طرح کی سیاسی قیادت ہے جو ہر حکم بجا لاکر وزارت اور حکمرانی سے مستفید ہوتے آ رہے ہیں جو اپنی وزارت اعلیٰ اور وزارت کے لئے عوام اور صوبے کی تقدیر سے کھیل رہے ہیں۔
یہی سیاسی طبقہ ستر سالوں سے صوبے کے وزارتوں کے مزے لوٹتے چلے آ رہے ہیں اور وہی مراعات یافتہ یا یوں کہیں کہ چند منظور نظر سیاسی قیادت کی حکمرانی نے ہی حقیقی معنوں میں تبدیلی آسودگی، خوشحالی، عیش وعشرت کو بڑے قریب سے دیکھا ہے لیکن بلوچستان کی سوا کروڑ آبادی کی ستر سال گزرنے کے باوجود نہ تو تقدیر بدلی اور نہ ہی صوبے میں ترقی اور خوشحالی آئی اور نہ ہی عوام کی احساس محرومی اور عدم ترقی کا خاتمہ ہوا۔ بلوچستان کے عوام دنیا میں پسماندگی کا سب سے زیادہ شکار ہیں اسی وجہ سے صوبے میں خط غربت کی شرح خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے بلوچستان کے عوام جنہیں صاف پانی، سرکاری علاج، بہترین تعلیم وتربیت سمیت دیگر سہولیات جوکہ آئین پاکستان،انسانی حقوق کے چارٹرڈ کے تحت میسر ہونا چایئے لیکن عوام کو کوئی سہولت میسر نہیں اور بلوچستان کے سیاسی کلاس و اراکین اسمبلی اورحکمران طبقہ دبئی مسقط بحرین لندن ترکی ملائیشیاء سمیت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بزنس ٹائیکون اور عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں ان کے بچے نامور تعلیمی اداروں میں زیور تعلیم سے بہرہ مند ہو رہے ہیں۔ آپ ان سیاسی لیڈروں کے علاقوں کی ترقی اور خوشحالی کا اندازہ اس وقت لگا سکتے ہیں جب آپ ان کے حلقہ انتخاب کو آپنی آنکھوں سے دیکھیں ۔
آپ جام کمال خان عالیانی کا حلقہ انتخاب ہی کی حالت دیکھیں اس حلقے سے جام کمال خود، اس کے والد جام یوسف عالیانی اور ان کے دادا جام غلام قادر عالیانی صوبے کی وزارت اعلیٰ پر یعنی دادا ،باپ اور نواسہ اہم اور کلیدی عہدے پر فائز ہونے کے باوجود لسبیلہ اب بھی قرون اولیٰ کا منظر پیش کر رہا ہے۔
بلوچستان سے منتخب وزیر اعظم سمیت نگران وزیر اعظم چیئرمین سینٹ، ڈپٹی چیئرمین سینٹ ،وفاقی وزارت سمیت گورنرشپ، وزارت اعلیٰ اور ہر ضلع سے وزیر بن کر بھی بلوچستانی عوام اب تک ترقی کے ابجد یا سہولیات سے توروشناس ہی نہیں ہو سکے اور نہ ہی اکیسویں صدی کے جدید تر قی یافتہ دور سے واقفیت رکھتے ہیں۔ صوبے اور عوام کو ترقی اور خوشحالی کے ثمرات تو درکنار انہیں تعلیم ،بنیادی صحت کی سہولیات تک میسر نہیں۔ آپ سب کے علم میں ہوگا کہ بلوچستان دنیا کا امیر ترین خطہ ہے جہاں سیندک اور ریکوڈک جیسے پہاڑوں میں سونے کے وسیع و عریض ذخائر ہیں۔چاغی و یگر علاقوں میں سنگ مرمر و دیگر اہم معدنیات کے علاوہ کوہلو ،بارکھان ،ڈیرہ بگٹی، خضدار،جھل مگسی سمیت دیگر علاقوں میں تیل و گیس کے وسیع ذخائر موجود ہونے کے باوجود نہ تو وفاق ان کو قابل استعمال لا رہا ہے اور نہ ہی ہمارے ایماندار لائق فائق اور صوبے کے عوام کے ہمدرد سیاستدان ان ذخائر کو قابل استعمال لا کر بلوچستان کی تقدیر بدلنا چاہتے ہیں۔
صوبے میں کرپشن، کمیشن ،رشوت ،اقرباء پروری، سیاسی مداخلت، عدم میرٹ، جہاں ٹریفک سارجنٹ ہو پولیس محرر پٹواری اور کلرک کے ٹرانسفر وپوسٹنگ وزیر اور اراکین اسمبلی کی سفارش پر ہو۔ جہاں آفیسران کے تبادلے کو اراکین اسمبلی اپنی مرضی و منشاء کے خلاف اور اپنا توہین سمجھتے ہوں۔ کیا وہاں آفیسران انصاف، میرٹ اور مساوات قائم کر سکیں گے۔ مجھے بیورو کریسی کے کلیدی عہدوں پرفائز آفیسران کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے کہ اراکین اسمبلی کے ننانوے ناجائز کام کرنے کے باوجود ایک کام جائز کرنے پر ضلع بدر ہونا پڑتا ہے۔ جام کمال خان کے بیانات اور اعلانات بھی عوام کیلئے مصیبت سے کم نہیں، جتنے اقدامات وہ صوبے کی ترقی کیلئے گنواتے ہیں یا اعلانات کرتے ہیں اگر ان پر تیس فیصد عملی کام ہو تو بلوچستان پاکستان کا جنت نظیر اور سوئزرلینڈ بن جائے۔جام کمال خان صاحب بلوچستان کے پہلے وزیر اعلیٰ ہیں جو عوام اور صوبے کے ساتھ بہت خوبصورت انداز میں ترقی، خوشحالی اور نئے بلوچستان بنانے کے نام پر مذاق کرکے عوام کے زخموں پر نمک پاشی کر رہے ہیں۔
پورے صوبے کے بتیس اضلاع میں اسپتالوں کی حالت زار قابل رحم ہے۔ آپ اندورن صوبہ کے ہسپتالوں کو چھوڑیئے کوئٹہ شہر کے سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار دیکھ کر حیران رہ جائیں گے جہاں سالانہ ان ہسپتالوں کو کروڑوں کا بجٹ ملنے کے بعد بھی ان کی قابل رحم حالت ہمارے ارباب اختیار اور ان کے سرپرستوں کیلئے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ بلوچستان میں امن و امان تعلیم اور صحت کیلئے اربوں کا بجٹ ہونے کے باوجود نہ تو امن و امان کی صورت حال تسلی بخش ہے نہ تو صوبے میں تعلیم کا اعلیٰ معیار ہے۔ بلوچستان کی تعلیمی شرح پندرہ فیصد سے زائد ہونے پر ہم خوشی سے نہال ہو رہے ہیں، لاکھوں بچے سکول سے دور ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارا تعلیمی نظام سالانہ اربوں روپے ڈکار لیتا ہے بلکہ تعلیمی نظام انتہائی پستی کے درجے پر فائز ہے۔ آپ صحت کا بجٹ دیکھ کر اندازہ لگائیں کہ صوبے کے تین درجن سے زائد ہسپتالوں میں ڈاکٹر تک موجود نہیں جہاں کے اسپتالوں میں بینڈیج ،ادویات میسر ہی نہ ہوں جہاں کے مریض کنولا اور سرنج تک باہر سے لیتے ہوں تو آپ اس امر سے بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے علاج معالجے کا معیار کتنا بہتر اور اعلیٰ ہے۔ صوبے کے ان ہسپتالوں میں سالانہ کی بنیاد پر اربوں روپے کا صحت بجٹ کہاں جا رہا ہے اور کہاں خرچ ہو رہا ہے، جام کمال کی امامت اور رہبری میں بلوچستان کے شفاہ خانے دراصل اب مقتل گاہ بن چکے ہیں، اب حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ کوئی بھی صحت مند مریض خود اپنے پائوں پر چل کر علاج کیلئے ان سرکاری ہسپتالوں میں جاتا ہے تو پھر چند دن بعد ہی اس مریض کی میت اس کے ورثا واپس گھر لے جاتے ہیں۔
بلوچستان کے حکمران بھی عوام کی طرح اب کورونا وائرس کو بیوقوف بنانا شروع کر دیا ہے ، بلوچستان کے سادہ لوح عوام ان حکمرانوں کے نعروں ،وعدوں، نماز و تبلیغ اور امامت کی بناء پر ان کے ہر اعلان کو حقیقت سمجھتے ہیں لیکن یہ کورونا بڑی ظالم چیز ہے یہ بلوچستان نہیں بلکہ امریکی چینی اور یورپین وائرس ہے یہ عذاب الٰہی ہے یہ عذاب ہمارے ناانصافی عدم میرٹ اور بداعمالیوں کی سزا ہے یہی عذاب ان حکمرانوں کیلئے وبال جان بن چکا ہے لیکن حکمران اپنی موت کے ڈر اور بداعمالیوں کی سزا عوام کو دینا چاہتے ہیں ۔
آپ بلوچستان میں جہاں جائیں عوام کا جم غفیر ملے گا بلوچستان کے عوام واحد پاکستانی ہیں جو ستر سالوں سے اللہ تعالیٰ پرکامل ایمان اور توکل پر جی رہے ہیں بلوچستان میں روڈ حادثات میں ماہانہ سینکڑوں لوگ لقمہ اجل بن رہے ہیں اور اکثر مریض بروقت علاج نہ ملنے کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔بلوچستان کی قومی شاہراہوں پر کوئی امرجنسی ہیلتھ یونٹ نہیں۔ جام کمال خان صاحب ایک کام یہ بھی کریں بلوچستان جیسے صوبے کے ان تمام سرکاری ہسپتالوں میں علاج کی عدم سہولیات سے جان بحق ہونے والوں ،روڈ حادثات میں روزانہ ہلاک ہونے والوں ،بے روزگاری بھوک و افلاس سے مرنے والوں کا بھی آپ خود اور آپ کے اراکین اسمبلی جنازہ پڑھائیں تو شاید پھر کچھ اثر دکھائی دے۔
یہ فیصلہ بلوچستان کے سوا کروڑ بدحال عوام ہی کریں گے اب دیکھنا ہوگا کہ عوام کب غلامی کی زنجیریں توڑ کر اپنی حالت اور صوبے کی تقدیر بدلنے کا فیصلہ کرینگے۔