بلوچ آبادی کے اعتبار سے سب سے زیادہ کراچی اور گردنواح میں آباد ہیں کہا جاسکتا ہے کہ کراچی بلوچوں کا سب سے بڑا شہر ہے۔ بلوچ بنیادی طور پر بندرعباس سے لیکر انڈس ریور تک اس خطے کا وارث اور مالک ہے مگر گزشتہ کئی دھائیوں سے بلوچ کی سرزمین اور بلوچ کے ساحل اور وسائل پر بالادست قوتوں کا قبضہ ہے۔ بلوچ اپنی سرزمین پر غلاموں کی زندگی گْزارنے پر مجبور ہیں بلوچ کی نااتفاقی انتشار آپس میں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونا اور بے علمی بلوچ کی بدحالی اور غلامی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ بلوچ اپنی قومی بقا و تشخص اور اپنی سرزمین کی دفاع میں مزاحمت بھی کرتا ہے مگر اپنی مزاحمت اور قومی جدوجہد کو اس جدید دَور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کر پاتا ۔
بلوچ مذہبی طور پر بے شک لبرل معتدل اور ماڈرن ہے مگر سیاسی جدوجہد میں بلوچ اپنی طبیعت میں انتہاپسندی کے عنصر کو نہیں نکال سکا ۔دُنیا میں طبقاتی یا قومی جدوجہد کے لیے گزشتہ ادوار کی تحاریک کچھ اصول و قواعد طے کرچکے ہیں مگر بلوچ اپنی قومی نفسیات کے مطابق آج بھی قومی جدوجہد میں اپنے اندر یکجہتی اور اتفاق پیدا نہیں کرسکا۔ آج کراچی میں بھی بلوچ ایک چھوٹے مگر انتہائی بالادست طبقے کے سامنے اپنے سرزمین کی دفاع میں منظم طور پر یکجہتی کا مظاہرہ نہیں کر پارہا۔
کراچی میں بحریہ ٹاؤن اور ملک ریاض ایک عرصے سے بلوچوںکی قومی زمینوں پر قبضہ کرکے یہاں دنیا کی جدید ترین رہائشی کالونی بنارہا ہے بلکہ بنا چکا ہے اس جدید اور با وسائل دْنیا کو، ناکو فیضو گبول سمیت دیگر بد نصیب بلوچوں کو اپنی آبائی زمینوں سے بے دخل کرکے بنایا جارہا ہے، ملک ریاض کے ساتھ ریاست اور طاقتور ترین ریاستی ادارے بھی شامل ہیں مگر مزاحمت اورہمت کی نشانی، ناکو فیضو گبول بھی ان طاقتور لوگوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر تن تنہا کھڑا رہا اپنے آخری سانس تک ،ناکو فیضو نے بلوچ سرزمین کی دفاع جوان مردی اور ہمت سے کیا مگر آج ،ناکو فیضو اس دنیا میں مزاحمت کیلیے موجود نہیں مگر ان کے بیٹے اور خاندان کے باقی لوگ آج بھی کھڑے ہیں وہ اگر چاہیں تو ملک ریاض سے اربوں روپے لے کر اپنی زندگیوں کو بڑی آرام کے ساتھ گْزار سکتے ہیں مگر یہ بہادر بلوچ اربوں کی آفر ٹھکرا کر اپنی آنے والی نسلوں کے لیے تاریخ میں زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ مگر پچیس لاکھ اور تیس لاکھ کی کراچی کی باقی بلوچ آبادی کیا کررہی ہے ہم سب صرف گبول خاندان کی اس دفاعی مزاحمت کو سوشل میڈیا میں فخر کے ساتھ شیئر کریں ہماری ذمہ داری میں صرف پریس کلب کے سامنے چند گھنٹوں کی نعرہ بازی آئی ہے کیا ہم کراچی کے پچیس لاکھ بلوچوں کا فرض نہیں بنتا کہ ہم ناکو فیضو کے خاندان کے ساتھ اگر سارے بلوچ نہیں تو ایک لاکھ بلوچ جمع ہوکر اگر بھڑیا ٹائون کے گیٹ کے سامنے پہنچ جاہیں تو یہ پیداگیر، یہ قبضہ گیر ملک چھوڑ کر بھاگ جائے گا ۔کراچی بلوچ سرزمین کی دفاع ساحل اور وساہل کی دفاع کے لیے کئی تنظیمیں کام کررہی ہیں یہ تنظیمیں بلوچ اتفاق اور یکجہتی کی بھی بات کرتی ہیں مگر کیوں نہ آج بلوچ متحدہ محاذ، بلوچ یکجہتی کمیٹی ، بلوچ ایڈیجینیس سمیت باقی بلوچ تنظیمیں اپنے گروہی مفادات اور ذاتی رنجشوں کو بالائے طاق رکھ کر کراچی کے بلوچوں کو آواز دیں کہ نکلو باہر اپنی بھرپور طاقت کا مظاہرہ کرو ۔بھڑیا ٹاؤن اور ملک ریاض کے بلڈوزروں کے سامنے دیوار بن ناکو فیضو مرحوم کے خاندان کے ساتھ کھڑے رہو پھر نظارہ دیکھو کہ ملک ریاض کہاں بھاگ جائے گا۔ سوشل میڈیا میں وڈیو شیئر کرنے اور پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کرنے کا وقت گْزر گیا ہے اب عملی قوت اور یکجہتی دکھانے کا وقت ہے آج اگر ملک ریاض ،ناکو فیضو اور گبول خاندان کی زمینوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا اور ہم کراچی کے پچیس لاکھ بلوچ تماشتہ دیکھتے رہے تو اگلا ٹارگٹ ملیر اور لیاری کے بلوچ علاقے ہونگے۔ ہمت کرو اپنی سرزمین کی دفاع اور اپنی جدی پشتی زمین کی بقا کے لیے آج ناکو فیضو کے بچوں کے ساتھ کھڑے رہو ورنہ کل تمھاری باری ہے ۔بلوچ متحدہ محاذ، بلوچ یکجہتی کمیٹی آج آپ لوگوں کی آزمائش ہے بلوچ کو بلوچ کی سرزمین کی دفاع کے لیے باہر نکالو اور قبضہ گیر طاقتور طبقات کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جاؤ اور تاریخ میں اپنی آنے والی نسلوں کے سامنے سرخرو رہو ورنہ تاریخ اپنا راستہ خود بنائے گی۔