بلوچستان کے گوناگوں مسائل اپنی جگہ،شو مئی قسمت ،صوبہ بد عنوانی میں بھی کسی طور پیچھے نہیں ہے۔ سرکاری محکموں میں تو یہ ناسور موجود ہے ہی ، لیکن حکومتیں اور حکمرانوں نے بھی کبھی اپنا دامن اس داغ سے صاف نہیں رکھا نہ ہی کبھی کوشش کی ہے۔ بلا شبہ نیک نامی اور دیانت کی مثالیں بھی موجود ہیں جو آٹے میں نمک کے برابر ہیں ۔ البتہ اکثریت کے لباس پر یہ دھبے مختلف رنگ میں موجود چلے آرہے ہیں۔ پانچ مارچ 2015کو بلوچستان میں ہارس ٹریڈنگ کے تدارک کیلئے سیاسی جماعتیں کوشاں رہیں۔ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے درمیان اراکین کی خرید و فروخت روکنے کا بدنما دھندا ختم کرنے پر اتفاق بھی ہوا ۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی ،نیشنل پارٹی، مسلم لیگ نواز اور ان کی اتحادی جماعت مسلم لیگ قائداعظم اور جے یو آئی کے پارلیمانی رہنماؤں کے درمیان بارہا ملاقاتیں ہوئیں۔ یہ تگ و دو نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی ۔کئی ارکان اسمبلی نے اپنا ضمیر فروخت کر ہی دیا ۔ گویا بلوچستان اسمبلی کے اندر ’’منڈی اسپاں‘‘سج گئی۔ اراکین نے جنرل نشست پر ایک آزاد امیدوار محمد یوسف بادینی کو کامیاب کرایا ،یہ شخص سرمایہ دار ہے جس نے اپنی جیت کے لئے پیسہ پانی کی طرح بہایا ۔ حالانکہ بلوچستان اسمبلی میں فقط ایک رکن طارق مگسی آزاد حیثیت سے موجود ہیں باقی64اراکین سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہیں ۔ سینیٹ انتخابات میں پانچ امیدوار آزاد حیثیت سے مقابلے میں شریک تھے ۔ مجموعی طور پر ان آزاد امیدواروں کو16 ووٹ پڑے۔ ظاہر ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اراکین نے ہی جماعتی آئین اور اصول و ضوابط کو پامال کرکے ووٹ دیا۔ بد عنوانی کے اس حمام میں مسلم لیگ نواز ، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور مسلم لیگ قائداعظم کے چند اراکین ننگے ہوئے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو مسلم لیگ ن کے تین کی بجائے پانچ سینیٹرز کامیاب ہوتے ۔ یقیناً اسپیکر اسمبلی جان محمد جمالی خفا تھے اورانہوں نے اپنی بیٹی ثناء جمالی کو آزاد حیثیت سے الیکشن لڑایا۔ تاہم اسپیکر نے کوئی بد عنوانی یاضمیر فروشی نہیں کی۔جان جمالی اپنی جماعت سے دلبرداشتہ تھے کہ کیوں ان کی بیٹی نظر انداز کی گئی ۔ جان جمالی نے بر ملا کہہ دیا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کے علاوہ بھی اپنا ووٹ ضمیر کے مطابق استعمال کریں گے ۔ جان جمالی نے جنرل نشست پر بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) کے ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی کو ووٹ دیا یعنی بی این پی سے بھر پور تعاون کیا اور ببانگ دہل کیا ۔کمال ہے کہ جان جمالی نے اپنی شخصیت کے بل بوتے پر بیٹی کیلئے 15ووٹ حاصل کرلئے اور یہ بہت بڑی بات ہے ۔ بہر حال جان جمالی کی اب شاید مسلم لیگ ن میں گنجائش نہیں رہی ، ممکن ہے کہ ان کے خلاف اسمبلی میں تحریک عد م اعتماد لائی جائے۔اس ذیل میں ماتم تو جمعیت علمائے اسلام کی دیانتداری اور نظم و ضبط پر کیا جانا چاہیے ،وہ یوں کہ ایک آزاد رکن احمد خان کو جے یو آئی کی حمایت حاصل تھی۔ اس شخص کے پاس دولت کی فراوانی ہے ، ملک کی ایک بڑی تعمیراتی کمپنی کے مالک ہیں۔ ان کے کاغذات نامزدگی میں تائید و تجویز کنندہ حزب اختلاف کے قائد مولانا عبدالواسع اور جے یو آئی کے گل محمد دمڑ تھے۔ جے یو آئی نے جان اچکزئی جو اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمان کے ارد گرد دکھائی دیتے ہیں کو بھی ٹیکنوکریٹ کی نشست پر ٹکٹ دیا تھا ۔ ٹکٹ پر مولانا فضل الرحمان کے دستخط تھے۔ ق لیگ کے کریم نوشیروانی ان کے تائید یا شاید تجویز کنندہ تھے، البتہ جے یو آئی کا ایک رکن تائید یا تجویز کیلئے نہیں آیا اس طرح جان اچکزئی کے کاغذات مسترد ہوئے۔ سینیٹ الیکشن کے اس پورے عمل میں بلوچستان کے امیر مولانافیض محمد گو یا نظر انداز تھے ،وہ کہیں دکھائی ہی نہیں دے رہے تھے ۔ سب کچھ یا تو مولانا عبدالواسع یا صوبائی سیکریٹری جنرل سکندر ایڈووکیٹ اور مولانا عبدالغفور حیدری کے ہاتھ میں تھا ۔ مولانا عبدالغفور حیدری کو جنرل نشست پر فقط اپنی کامیابی کی پڑی تھی۔ اگر جمعیت کے اندر یکسوئی ،حکمت اور ایک مربوط منصوبہ بندی ہوتی تو ان کو ایک نشست ٹیکنوکریٹ کی بھی مل جاتی۔ جنرل نشست پر حافظ حسین احمد کو ٹکٹ دیا جانا چاہیے تھا کیونکہ مولانا عبدالغفور حیدری سینیٹر رہ چکے ہیں ۔ دوئم جے یو آئی کے اندر یہ طے ہے کہ جو عام انتخابات میں کامیاب نہ ہوسکا ہو اسے سینیٹ ٹکٹ نہیں دیا جاتا ۔ یہاں ضابطوں کی دھجیاں اڑتی دکھائی دیں۔ اگر حافظ حسین احمد کو ٹیکنوکریٹ ہی کی نشست پر ٹکٹ دیا جاتا تو وہ اپنی سیاسی و قبائلی شخصیت کی بناء پر کامیاب ہوجاتے۔دوسری جماعتوں کے بعض اراکین اسمبلی نے ان سے اس امر کا اظہار بھی کیا تھا۔ لیکن ایک مرتبہ پھر حافظ حسین احمد کے ساتھ بغض کا رویہ رکھا گیا۔ جے یو آئی کے اندر مولانا شیرانی گروپ اور اینٹی شیرانی گروپ کا آپس میں تناؤ ہے اور حافظ حسین احمد کو یہ دونوں گروپ رگیدنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ اس رویے کا یقیناً جے یو آئی کو نقصان ہوگا۔مولانا عبدالغفور حیدری کو سینیٹ الیکشن میں پارٹی کی بجائے اپنی جیت کا غم کھائے جارہا تھا۔ بلوچستان میں گھوڑوں کی خرید و فروخت تو ہوئی ،لیکن اس تناظر میں بلوچستان میں ایک خوبصورت سیاسی روایت بھی متوازی طور پر نمایاں ہوئی ،جو بی این پی کے امیدوار ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی کی کامیابی کی صورت میں نظر آئی۔ ڈاکٹر جمالدینی جاگیردار اور سرمایہ دار نہیں بلکہ ایک نظریاتی سیاسی کارکن ہے۔ ان کے پاس بلوچستان اسمبلی میں بی این پی کے دو اراکین اسمبلی سردار اختر مینگل اور حمل کلمتی کے سواء کچھ نہیں تھا۔ لیکن کاغذات جمع کرائے ۔ عوامی نیشنل پارٹی کے انجینئر زمرک خان اچکزئی نے حمایت کرکے تاریخی و سیاسی قدم اٹھایا۔ پھر میر اسرار زہری نے بھی اپنی جماعت کا ایک ووٹ دینے کا قابل ستائش فیصلہ کیا ،یوں چند دیگر اراکین اسمبلی نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے احترام میں ووٹ دے کر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی کو کامیاب کرایا۔ بدلے میں ووٹ دینے والے ارکان نے عزت کمائی اور صوبے کی لاج رکھی۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی نے اچھے اتحادی ہونے کا ثبوت دیا ان دو جماعتوں نے اچھے ماحول میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرلی اور اپنے تین تین امیدواروں کو کامیاب کرایا ۔ دونوں جماعتوں کے اراکین اسمبلی نے پارٹی نظم و ضبط کا کمال کی حد تک مظاہرہ کیا ،البتہ نیشنل پارٹی کے ایک رکن فتح بلیدی نے ووٹ اپنی جماعت کو نہیں دیا۔ ایسا انہوں نے ووٹ کی خرید و فروخت کی بجائے پارٹی سے ٹکٹ پر اختلاف کی بناء پر کیا اور جو کیا علی الاعلان کیا۔ سینیٹ کے اس انتخاب میں اگر ن لیگ کے ووٹ ٹھیک ٹھیک پڑتے تو سردار یعقوب جیسا سینئر لیگی رہنما ء ضرور کامیاب ہو تا ۔کاش بلوچستان اسمبلی منڈی اسپاں نہ بنتی! ۔
سینیٹ الیکشن اور منڈی اسپاں
وقتِ اشاعت : March 11 – 2015