|

وقتِ اشاعت :   May 6 – 2021

سال2013کے انتخابات کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر نواب ثناء اللہ زہری نے حکومت سازی کیلئے رابطے شروع کیے اور مسلم لیگ (ق) کے صوبائی صدر جعفر خان مندوخیل نے ایک وزرات کے عیوض نواب ثناء اللہ زہری کی حمایت کا اعلان کیا اور جمعیت علماء اسلام سے بھی رابطے جاری تھے کہ اچانک نیشنل پارٹی کے رہنماء ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے رہنماء عبدالرحیم زیارتوال بھی نواب ثناء اللہ زہری کے پاس پہنچے اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا حصہ بننے کا اعلان ایک پریس کانفرنس کے ذریعے کیا اور مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر نواب ثناء اللہ زہری نے خود کو بلوچستان کا وزیر اعلیٰ نامزد کیا۔نیشنل پارٹی کے سربراہ مرحوم حاصل خان بزنجو اور پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی اسلام آباد میں بیٹھے میاں نواز شریف کو منانے میں مصروف تھے انھیں حکومت سازی کی اطلاع ملی درحقیقت وہ بھی اس کھیل میں شامل تھے اور انھوں نے میاں نواز شریف کو اس بات پر قائل کیا کہ بلوچستان کو ایک مری معاہدے کی ضرورت ہے اور معاہدہ کرکے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو اڑھائی سالہ وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائر کیا گیا جبکہ محمد خان اچکزئی گورنر بلوچستان تعینات ہوئے، اڑھائی سال کے دوران مسلم لیگی رہنماؤں کی اپنے اتحادیوں (نیشنل پارٹی اور پشتونخواء ملی عوامی پارٹی) سے سرد جنگ جاری رہی جبکہ مسلم لیگ (ق) اپنی ایک وزرات لیکر خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی، اڑھائی سال بعد مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر نواب ثناء اللہ زہری وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے تو و ہی خاموش اتحادی نواب ثناء اللہ زہری کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے رہے کیونکہ میر عبدالقدوس بزنجو بضد تھے کہ انھیں صوبائی کابینہ میں شامل کیا جائے جس سے وزیر اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری انکار کرکے انھیں قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ جعفر مندوخیل سے وزارت لیکر ہی انھیں دیا جاسکتا ہے اس دوران حکومت کے اہم اتحادی نیشنل پارٹی اور پشتونخواء ملی عوامی پارٹی خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے رہے۔
میر عبدالقدوس بزنجو کی بے حد تگ و دو کے باوجود انھیں کابینہ میں شامل نہیں کیا گیا اور سینٹ کے انتخابات کے دوران لاوا پھٹا اور نواب ثناء اللہ زہری حکومت کا خاتمہ ہوا۔
سابق حکومت کے خاتمے اور بلوچستان عوام پارٹی کے قیام میں جام کمال خان عالیانی کا بھی اہم کردار رہا جبکہ پس پشت موجودہ چیئرمین سینیٹ میر صادق سنجرانی کا بھی اہم رول تھا۔سال 2018کے انتخابات کے بعد حکومت سازی کا موقع آیا تو ماضی کی طرح بلوچستان میں حکومت سازی کیلئے رابطے شروع ہوئے۔ وفاق میں اکثریت حاصل کرنیوالی جماعت تحریک انصاف کی برتری کو دیکھتے ہوئے نہ صرف آزاد امیدواروں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی بلکہ سیاسی جماعتوں نے تحریک انصاف کے صوبائی صدر سردار یار محمد رند کی حکومت سازی میں حمایت کا اعلان کیا، کوئٹہ میں سردار یار محمد رند 65میں سے34 اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل کرچکے تھے اور وہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو خوشخبری سنانا چاہتے تھے کہ اچانک وائس چیئرمین تحریک انصاف جہانگیر ترین نے انھیں فون کرکے بتایا کہ تحریک انصاف اور بلوچستان عوامی پارٹی اب اتحادی بن چکے ہیں،وفاق میں بلوچستان عوامی پارٹی ہماری حمایت کریگی جبکہ بلوچستان میں ہم انھیں مکمل سپورٹ کرینگے جبکہ وزارتوں کی تقسیم کا فارمولہ بھی طے پاچکا ہے جس طرح 2013کے انتخابات کے بعد میاں نواز شریف کے فون پر نواب ثناء اللہ زہری کو دھچکا لگا اسی طرح2018کے انتخابات کے بعد جہانگیر ترین کا فون سردار یار محمد رند پر بجلی بن کر گری۔
تین سال گزر گئے موجودہ حکومت وزیر اعلیٰ جام کمال خان کی قیادت میں چل رہی ہے لیکن ان اڑھائی سالوں کے دوران کہیں مواقعوں پر وزیر اعلیٰ جام کمال خان اور اسپیکر میر عبدالقدوس بزنجو کے درمیان اختلافات میڈیا کی زینت بنیں لیکن دیگر جام کمال خان اوراراکین کے درمیان اختلافات تاحال جاری ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی پی ڈی ایم سے علیحدگی کے بعد حکومت مخالف تحریک کمزور پڑ گئی لیکن بلوچستان کی اتحادی جماعتوں کے درمیان پائے جانیوالی اختلافات کسی بھی حکومت مخالف تحریک سے کم نہیں۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اور تحریک انصاف کے صوبائی صدر سردار یار محمد رند کے درمیان اختلافا ت شروع ہی دن سے چلے آرہے ہیں اور تحریک انصاف کے پارلیمانی اراکین نے وزیر اعلیٰ کے خلاف شکایتوں سے بنفس نفیس وزیر اعظم عمران خان کو آگاہ کرچکے ہیں لیکن وفاقی سطح پر وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خلاف کسی بھی شکایت پر عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آرہا۔
وزیر اعظم عمران خان کے دورہ کوئٹہ کے موقع پر تحریک انصاف کے پارلیمانی اراکین نے وزیر اعظم کے تقریبات میں شرکت کرنے سے معذرت کی تو وزیر اعظم کے پہنچتے ہی خالد ایئر بیس پر سردار یار محمد رند اور پارٹی کے دیگر پارلیمانی اراکین کی ملاقات ہوئی، تحفظات سے آگاہ کیا گیا جس کے بعد پارلیمانی اراکین نے وزیر اعظم کیلئے منعقد ہونیوالے تقریبات میں شرکت کی۔
ماضی میں وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز شخص کے خلاف سازشیں ہوتی تھیں لیکن موجودہ حکومت میں صورتحال اس کے برعکس ہے، وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ سے ہی جام کمال خان کے خلاف سازشوں کا سلسلہ جاری ہے، اسپیکر میر عبدالقدوس بزنجو کے حلقہ انتخاب میں تیسری مرتبہ آڈٹ کیلئے وزیر اعلیٰ انسپکشن ٹیم کو روانہ کیا گیا جبکہ جاری سرد جنگ کو ہوا دینے کیلئے صوبائی وزیر سردار صالح بھوتانی سے وزارت کا قلمدان واپس لے لیا گیا، صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی نے بھی سرکاری رہائش گاہ خالی کرکے اسپیکر بلوچستان اسمبلی سے ایم پی اے ہاسٹل میں ایک کمرہ حاصل کرنے کیلئے درخواست دی ہے۔ تحریک انصاف کی طرح بلوچستان عوامی پارٹی میں بیشتر اراکین وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان سے نالاں ہیں لیکن “بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے” اسی کا انتظار کیا جارہا ہے کیونکہ حکومت کے خلاف کسی بھی رکن کے سامنے آنے پر اپوزیشن اراکین کی مکمل حمایت حاصل رہے گی۔
حکومت سازوں کا خیال ہے کہ سابقہ دوکی طرح حکومتوں کے خاتمے کا آغاز بلوچستان سے نہ ہو یہی وجہ ہے کہ جام کمال خان عالیانی آج بھی بلوچستان کے وزارت اعلیٰ کے منصب پر براجمان ہیں۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی واپسی کا فیصلہ عید الفطر کے بعد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حکومت مخالف تحریک کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جائیگا کیونکہ وفاقی حکومت بہ یک وقت دو محاذوں پر لڑنے کی سکت نہیں رکھتی۔اگر پی ڈی ایم حکومت مخالف تحریک کمزور رہی تو حکومت ساز بلوچستان میں ان ہاوس تبدیلی کا فیصلہ کرینگے اور وزیراعلیٰ بلوچستان کیلئے بلوچستان عوامی پارٹی کے ایک سینئر سیاستدان کا نام سامنے لائیں گے جس کا چناؤ حالیہ سینیٹ انتخابات کے فوراً بعد کیا گیا تھا۔