بحریہ ٹاؤن کراچی کے زیر قبضہ زمین پر برسوں سے آباد لوگوں کے لیے پیغام واضح ہے: زمین چھوڑو یا مرجاؤ۔2019ء کے اواخر میں اسلام آباد میں جاری کابینہ اجلاس کے دوران معمول سے کچھ ہٹ کر ہوا۔ وزیرِاعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کو ‘ایجنڈا سے ہٹ کر’ ایک معاملہ پیش کرنے کی اجازت دی گئی۔ ان کے پاس ایک بند لفافہ تھا، انہوں نے بتایا کہ اس لفافے میں ایک غیر اعلانیہ معاہدہ موجود ہے۔یہ معاہدہ کروڑوں پاؤنڈ کے تصفیے کے بارے میں تھا جو برطانوی ادارے نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے حال ہی میں ملک ریاض کے ساتھ کیا تھا۔ اجلاس میں موجود ایک ذریعے کے مطابق، ”(انسانی حقوق کی وزیر) شیریں مزاری نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ، ‘جب ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ اس میں کیا لکھا ہے تو آخر ہم کس بات کی منظوری دے رہے ہیں؟’ ہمیں بتایا گیا تھا کہ اگر اسے کھولا گیا تو اس کے قومی سلامتی پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور برطانوی حکومت بھی تحفظات رکھتی ہے”۔
این سی اے کا کام منی لانڈرنگ اور برطانیہ و بیرونِ ملک ہونے والی مجرمانہ سرگرمی سے حاصل ہونے والے غیر قانونی رقوم کی تحقیقات کرنا ہے، موخرالذکر صورتحال میں چوری شدہ پیسہ متاثرہ ریاستوں کو لوٹا دیا جاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ‘کالے دھن’ کے حوالے سے جاری تحقیقات کے دوران ملک ریاض کچھ عرصے کے لیے ادارے کے زیرِ تفتیش رہے تھے۔ 3 دسمبر 2019ء کو ادارے نے اعلان کیا کہ ملک ریاض کے ساتھ عدالت کے باہر 19 کروڑ پاؤنڈ (اب تک کا سب سے بڑا) کا تصفیہ کیا گیا ہے اور مزید یہ بھی بتایا گیا کہ اس ‘تصفیے میں جرم تسلیم کرنے کا پہلو نہیں نکلتا‘۔
اس ملک میں غیر اعلانیہ معاہدے کی آڑ میں اکثر معاملات کو دبا دیا جاتا ہے۔ کرپٹ کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور بیرونِ ملک پاکستانیوں کے غیر قانونی پیسے کو واپس لانے کے اپنے دعوؤں کے باوجود تعجب ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت اثاثہ ضبطگی سے متعلق اس ڈیل پر خاموش رہی ہے۔ایک برس سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن اس پورے معاملے کی رازداری برقرار رہی ہے۔ برطانوی تحقیقاتی صحافت کے پروجیکٹ فنانس ان کوَرڈ سے حاصل ہونے والی دستاویزات کی مدد سے ڈان نے معاملے کی مکمل تصویر جوڑی ہے۔
این سی اے سے ہونے والی ڈیل کا پاکستانی شہریوں کے ساتھ خاص تعلق اس وقت قائم ہوگیا جب ملک ریاض نے ٹوئیٹ میں بتایا کہ، ‘میں نے سپریم کورٹ کو کراچی بحریہ ٹاؤن مقدمے میں 19 کروڑ پاؤنڈ کے مساوی رقم دینے کے لیے برطانیہ میں قانونی طور پر حاصل کی گئی ظاہر شدہ جائیداد کو فروخت کیا’۔
یہاں اس بات کو بھی یاد کیا جاسکتا ہے کہ جب یہ ثابت ہوگیا تھا کہ ان کے ریئل اسٹیٹ ادارے بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ نے کراچی کے ضلع ملیر کے مضافات میں ہزاروں ایکڑوں پر محیط زمین پر غیر قانونی قبضہ کیا ہے تو چند ماہ قبل مارچ 2019ء میں ملک ریاض کی جانب سے سپریم کورٹ کو 460 ارب روپے بطور جرمانہ دینے کی پیش کش کی گئی، جسے قبول کرلیا گیا۔یہ رقم تقریباً 3 ارب ڈالر کے برابر بنتی ہے، جو تاریخی حجم رکھتی تھی۔ مگر اسی سال آگے چل کر این سی اے کے ساتھ ہونے والا تصفیہ تو ایک مذاق ثابت ہوا کیونکہ پاکستانی حکومت کی مہربانی سے ملک ریاض کو حیران کن سزا سے چْھوٹ مل گئی۔
صمدانی اینڈ قریشی کے وکیل فرخ قریشی نے اس تصفیے کو یوں بیان کیا: ‘یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کسی جرم کے ذریعے حاصل کی گئی رقم کے ساتھ پکڑا گیا ہو اور ایسی رقوم کو متاثرہ شخص کو دینے کے بجائے انہیں ایک دوسرے جرم کی تلافی کے طور پر استعمال کیا جائے۔ ری کور کی گئی رقم کو دوبارہ ملک ریاض کی جیب میں ڈالنے کے بجائے سیدھے پاکستان آنا چاہیے تھا’۔
یقیناً برطانیہ کے قانون نافذ کرنے والے ادارے نے اس معاملے پر پاکستان کے طاقتور بروکرز کی سازبازی کا شکار بننے کے لیے خود ہی گنجائش پیدا کی ہوگی۔’شہنشاہِ احتساب’ اکبر صاحب سے ڈان کے سوالوں کے جواب دینے کی بار بار درخواست کی گئی لیکن ان کی جانب سے کوئی ردعمل نہیں آیا۔
اس تفصیے میں 1 ہائیڈ پارک پلیس شامل ہے جو 5 کروڑ پاؤنڈ مالیت کی جائیداد ہے۔ لندن کے مہنگے ترین علاقوں میں سے ایک میں واقع اس رہائشی عمارت کو 2007ء میں سابق وزیرِاعظم نواز شریف کے بیٹے حسن نواز نے خریدا تھا۔ اگلے 4 برسوں کے دوران متعدد بڑی بڑی فرمز، بشمول انٹیریئر ڈیزائنرز کے ادارے ٹیسوٹو نے ایک دفتری عمارت اور فلیٹوں کو واحد رہائشی عمارت میں بدلنے کے لیے زبردست تبدیلیاں کی تھیں۔ ان تبدیلیوں میں بیسمنٹ میں کھدائی اور سوئمنگ پول کی تعمیر بھی شامل ہے۔21 مارچ 2016ء کو یہ جائیداد نواز شریف کے بیٹے حسن نواز نے 4 کروڑ 25 لاکھ پاؤنڈ کے عوض برٹش ورجن آئی لینڈز کی الٹیمیٹ ہولڈنگز منیجمنٹ لمیٹڈ نامی ایک کمپنی کو بیچ دی تھی۔ الٹیمیٹ ہولڈنگز کی جانب سے ملک ریاض کے بیٹے علی ریاض ملک نے دستخط کیے۔ ان کی نمائندگی Reya de Mischonنامی قانونی فرم نے کی تھی۔ حسن نواز نے اپنی طرف سے خود دستخط کیے اور ان کے وکیل جیریمی فری مین گواہ بنے۔ (چند ہفتے قبل انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس کی جانب سے شریف خاندان کی اْن آف شور کمپنیوں کے بارے میں سوالات پوچھنے کے لیے حسن نواز سے رابطہ کیا تھا، جو پاناما پیپرز کے ذریعے زیرِ توجہ آئی تھیں)
حسن نواز کی جانب سے الٹیمیٹ ہولڈنگز کو فروخت کیے گئے1 ہائیڈ پارک پیلس کے انتقالی دستاویز
دلچسپ بات یہ ہے کہ یو کے لینڈ رجسٹری میں جمع کی جانے والی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جائیداد عین فروخت کے وقت ہی زیرِ الزام آئی تھی: حسن نواز کو الٹیمیٹ ہولڈنگز کے قرض دہندہ کے طور پر ظاہر کیا گیا ہے۔ قرضے کی شرائط ’21 مارچ 2016ء کو ہونے والے فریقین کے مابین معاہدے کے مطابق’ طے کی گئی تھیں۔ تاہم زمین کی رجسٹری کے ساتھ یہ معاہدہ شامل ہی نہیں کیا گیا تھا۔ فروخت اور الٹیمیٹ ہولڈنگز کو دیے گئے قرضے کے وقت سے اندازہ ہوتا ہے کہ حسن نواز خود کو برطانیہ میں شریف خاندان کی اس مہنگی ترین جائداد سے الگ کردینا چاہتے تھے۔ 19 ستمبر 2016ء کو حسن نواز کا دیا ہوا قرض ڈسچارج یا خارج کردیا گیا۔یہ فروخت اس باہمی مفاد کے تعلقات کو ظاہر کرتی ہے جو پاکستان کی نایاب اشرافیہ میں پایا جاتا ہے۔ان دستاویز سے ثابت ہوتا ہے کہ حسن نواز نے الٹیمیٹ ہولڈنگز کو قرضہ دیا تھا
پاکستانی ریاست کی مداخت
2019ء میں ملک ریاض کا برطانیہ میں 19 کروڑ پاؤنڈ کا تصفیہ اکاؤنٹ فریزنگ یا کھاتہ منجمد آرڈرز (اے ایف اوز) نامی نئے سول اختیارات کے استعمال سے ممکن ہوپایا تھا۔ ان اختیارات کے تحت قانون نافذ کرنے والا ادارہ مشتبہ طور پر جرم سے حاصل کردہ رقم پر کارروائی کے لیے فوجداری کے بجائے سول طریقہ کار استعمال کرسکتا ہے۔ اب چونکہ یہ ایک سول کیس تھا اس لیے این سی اے ضبطگی آرڈر حاصل کرنے کے لیے عدالت جانے کے بجائے ملک ریاض سے نجی طور پر معاملہ حل کرسکی تھی۔
اگست 2019ء میں ملک ریاض کے خلاف ہونے والی تحقیقات سے متعلق 8 اے ایف اوز لندن کی ویسٹمنسٹر مجسٹریٹ کورٹ سے حاصل کیے گئے تھے۔ اے ایف اوز پر عمل کرتے ہوئے 10 کروڑ پاؤنڈ سے زائد کی رقم 12 اگست کو منجمد کی گئی تھی (گارجیئن اخبار کے مطابق این سی اے کو شک تھا کہ یہ رقم رشوت اور بیرون ملک ہونے والی کرپشن کے ذریعے حاصل کی گئی تھی)۔ اس سے پہلے دسمبر 2018ء میں ملک ریاض کے خاندان سے جڑے 2 کروڑ پاؤنڈ کو منجمد کیا گیا تھا۔ ملک ریاض کی اہلیہ بینا ریاض، بیٹی ثنا سلمان، بیٹے علی ریاض، بہو مبشریٰ علی اور فورچون ایونٹز اور الٹیمیٹ ہولڈنگز سمیت کئی مختلف کمپنیوں کے اکاؤنٹس کے خلاف اے ایف اوز جاری کیے گئے تھے۔
مانا جاتا ہے کہ ستمبر 2019ء کے دوران شہزاد اکبر کی ملک ریاض سے ڈورچیسٹر ہوٹل اور بعدازاں ملک ریاض کی بیٹی کی شادی کے موقعے پر متعدد بار ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ وسیع پیمانے پر گردش کرنے والی ویڈیو میں شہزاد اکبر کو پراپرٹی ٹائیکون سے ان کی بیٹی کے پیڈنگٹن فلیٹ کے باہر ملاقات کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔
برطانوی سیاسی اسٹیبلشمنٹ اور برطانیہ کی انسدادِ بدعنوانی پر کام کرنے والی تنظیموں سے گہرا رابطہ رکھنے والے لندن میں مقیم ایک پاکستانی ذریعے کے مطابق، ‘شہزاد اکبر نے این سی اے کو یہ تجویز دی تھی کہ وہ ان (ملک ریاض) کے ساتھ سمجھوتہ کرلیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ، بصورتِ دیگر ملک ریاض (اپنے طاقتور وکلا کے ذریعے عدالتی کارروائیوں کو اتنا کھینچیں گے کہ) ان کے استغاثہ کا بجٹ ختم ہوجائے گا’۔
شہزاد اکبر نے واضح طور پر یہ معاملہ برطانوی حکومت میں اعلیٰ سطح تک پہنچا دیا تھا۔ معلومات کے حصول کی آزادی ایکٹ (ایف او آئی اے) کے تحت کیس سے متعلق معلومات کی فراہمی کی درخواست کرنے کے باوجود ان کی ہوم آفس کی جانب سے معلومات کی فراہمی سے انکار کو اور کس طرح کوئی بیان کرسکتا ہے؟
ہوم آفس کی کرمنل فنانس ٹیم کو شہزاد اکبر کی ملک ریاض سے ہونے والی ملاقاتوں سے متعلق تفصیلات جاننے کے لیے ایک ای میل بھیجی گئی تھی، جس کا جواب یکم فروری کو آیا۔ اس جواب میں انہوں نے ‘مکمل ردِعمل’ کے لیے زیادہ وقت مانگنے کی درخواست بھی کی۔ ان کے جواب کا نچوڑ یہ تھا کہ، ‘جو معلومات آپ کو مطلوب ہیں، وہ ہم رکھتے ہیں یا نہیں اس کی ہم نہ تو تصدیق کرسکتے ہیں نہ ہی اس سے انکار کرسکتے ہیں ‘۔ یہ جواب ایف او آئی اے کی ان چند شقوں کی بنیاد پر دیا گیا تھا جو ایسی کسی راز افشائی کی چھوٹ دیتی ہیں جس کی وجہ سے دوسری ریاست کے ساتھ تعلقات میں خرابی یا بدگمانی پیدا ہونے کا خدشہ ہو یا پھر جرم کو روکنے یا پتا لگانے کا عمل متاثر ہوتا ہو۔
(این سی اے کا ادارہ ایف او آئی اے سے مستثنیٰ ہے اور اس کی کارروائیوں پر صرف عدالت عدالتی نظرثانی کی کارروائیوں کے ذریعے سوال کھڑا کرسکتی ہے۔ تاہم تفتیشی نتائج کے ذریعے نتیجے پر پہنچنے کے بجائے جس انداز میں فیصلہ کیا گیا ہے، اس پر عدالتی نظرثانی کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگی۔)
شہزاد اکبر نے چاہے جو بھی طریقہ اختیار کیا ہو، ایسا لگتا ہے کہ وہ طریقہ کام کرگیا اور این سی اے دسمبر 2019ء کی ابتدا میں ملک ریاض کے ساتھ سول نوعیت کے سمجھوتے پر راضی ہوگئی۔ این سی اے نے اپنی سالانہ رپورٹ میں اس معاملے کی تفصیلات درج کرتے ہوئے ملک ریاض کا نام شامل نہیں کیا بلکہ انہیں ایک ایسے پاکستانی شہری کے طور پر بیان کیا ہے جس کا کاروبار پاکستان میں سب سے بڑے نجی شعبے کے آجرین employers میں شمار ہوتا ہے۔
یہاں پر بات تھوڑی گھوم جاتی ہے: بحریہ ٹاؤن جیسے بڑے منصوبے نے یقیناً بڑے پیمانے پر روزگار فراہم کیا ہے، تاہم 4 مئی 2018ء کو سپریم کورٹ کے علیحدہ اہم فیصلوں کے مطابق بحریہ ٹاؤن نے اپنے 3 رہائشی منصوبوں کے لیے سرکاری اور جنگل کی زمین کے حصول کی خاطر بڑے پیمانے پر بے قاعدگیاں کیں اور یوں فیصلے میں ان تمام منصوبوں کو کالعدم قرار دیا گیا۔
سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی (جو غیر سرکاری اندازے کے مطابق 30 ہزار ایکڑ پر محیط جنوبی ایشیا میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا منصوبہ ہے) سے متعلق اپنے فیصلے میں کہا کہ ‘ہم ماضی میں چھوٹے پیمانے پر ایسی مدموم سرگرمیاں دیکھتے چلے آئے ہیں لیکن اس قدر بڑے، وسیع و عریض سطح پر اس طرح کی سرگرمیوں کا تو ہم نے خواب بھی نہیں سوچا تھا۔ اگر سرکاری جائیداد کی نگرانی کرنے والے محض ہڈی یا گوشت کے ٹکڑے کی خاطر قبضہ خوروں کو اس پر قبضہ کرنے کی اجازت دینے لگیں تو ایکشن نہ لینا ریاست کے لیے تباہ کن اور شدید المناک ثابت ہوگا’۔ (جاری ہے)
ملک ریاض اور ڈیلنگ کا فن (1)
وقتِ اشاعت : May 6 – 2021