اپنے اشتعال انگیزمذہب مخالف مواد کی وجہ سے بدنام فرانسیسی میگزین ’شارلی ہیبڈو‘ پر 2015میں توہین آمیز خاکے شائع کرنے کے بعد حملہ ہوا۔ گزشتہ برس ستمبر میں اس میگزین نے پھر انہی خاکوں کی دوبارہ اشاعت کی۔ اکتوبر میں فرانس کے صدر میکخواں نے اس میگزین کے حق میں بیان دیا جس پر پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کا ردعمل سامنے آیا۔ لاکھوں ہزاروں افراد پر مشتمل مظاہرے کیے گئے اور فرانس کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی بھی مہم چلائی گئی۔ فرانس میں ریاستی سیکیولرزم یا ’لاسیت‘ کا تصور کو اس کی قومی شناخت میں مرکزیت حاصل ہے۔ تعلیمی اداروں اور عوامی مقامات پر آزادی اظہار کو وہ اس تصور کا حصہ سمجھتے ہیں۔ کسی خاص مذہب کے جذبات کا خیال رکھنے کو وہ اپنی اس قومی شناخت کے منافی تصور کرتے ہیں۔ فرانسیسی سیکیولرزم تمام مذاہب کو مسترد کرتا ہے۔ اس میں اسلام بھی شامل ہے تاہم یہ رویہ صرف اسلام تک محدود نہیں۔
سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے ممتاز قادریکی سزائے موت پر 2016 میں عمل درآمد کے بعد احتجاج کرنے پر تحریک لبیک پاکستان کو شہرت ملی۔ تحریک لبیک ملک میں شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرتی ہے۔ ختم نبوت اور اسلامی نظام انصاف پر سبھی مسلمان ایمان رکھتے ہیں۔ اس تحریک کا تعلق بنیادی طور پر بریلوی مکتب فکر سے ہے اور پاکستان کی کل مسلم آبادی کا ایک تہائی حصہ بھی اسی طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ صوفی ازم سے تعلق کی وجہ سے بریلوی مکتب فکر کو پُرامن تصور کیا جاتا ہے تاہم عالمگیریت کے اثرات اور مغرب میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرنے کی جستجو میں گزشتہ دہائی میں اس مکتب فکر میں بھی بعض حلقے تشدد کی جانب راغب ہوئے ہیں۔ فرانس میں خاکوں کی اشاعت پر تحریک لبیک کی جانب سے چھ ماہ بعد کیوں احتجاج کیا گیا اس کی کوئی وجہ سامنے نہیں آسکی ہے۔ تاہم حالیہ دھرنوں اور احتجاج میں پولیس اور مظاہرین کے مابین پُر تشدد تصادم سامنے آیا ہے۔ احتجاج کو روکنے کے لیے پارلیمنٹ نے 20اپریل کو قرارداد منظور کی جس میں فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں یقینی طور پر یورپ کے دیگر 27ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات متاثر ہونا تھے۔
اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام آباد یا کراچی کی سڑکوں پرنکلنے والا جتھا اب پاکستان کی خارجہ پالیسی کا تعین کرے گا۔ فرانس سے تعلقات ختم کرنے سے نہ صرف افغانستان سے متعلق ہمارے کردار کو حاصل ہونے والی اہمیت متاثر ہوگی بلکہ یورپ اور مغرب کے ساتھ ہمارے معاشی تعلقات کو بھی اس سے زد پہنچے گی۔ جب ہمیں 1965کے بعد اور 1990کی دہائی میں ہم پر پابندیاں عائد کی گئیں اور ہمیں بھارت کے خلاف عسکری طاقت درکار تھی تو امریکا اور مغرب کے دباؤ کے باوجودچین کے علاوہ فرانس ہی تھا جس نے ہمیں جنگی طیاروں، میزائل، آبدوز سمیت اہم فوجی سازوسامان فراہم کیا۔ عمران خان خبردار کرچکے ہیں کہ پاکستان کی نصف برآمدات یورپ جاتی ہیں اور اس حوالے سے کیے گئے فیصلوں کے سیاسی و معاشی دونوں اثرات بہت گہرے ہوسکتے ہیں۔ خاص طور پر وبا کے جاری حالات میں تو ہمیں اس پر خصوصی نظر رکھنی چاہیے۔ پاکستان سے عناد رکھنے والوں نے اس موقعے کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین کے مبینہ غلط استعمال، صحافیوں پر آن لائن اور عام زندگی میں بڑھتے ہوئے حملوں اور سول سوسائٹی کو درپیش خطرات کی بنیاد پر یورپی یونین نے بھاری اکثریت سے پاکستان کو یورپ میں حاصل جی ایس پی پلس درجہ بندی واپس لینے کی قرارداد منظور کرلی۔
اس کے علاوہ قرار داد میں پاکستان میں فرانس مخالف جذبات بڑھنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ قرار داد میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستانی وزیر اعظم توہین مذہب کے قانون کا بلا جواز شکار بننے والوں کے شہری حقوق کی طرف داری کے بجائے ہولوکاسٹ اور اسلام پر تنقید کا موازنہ کرتے ہیں۔ حالاں کہ 1860میں انگریزوں نے یہ قانون جنوبی ایشیاء میں متعارف کروایا۔ ہولوکاسٹ سے انکار کو جرم قرار دینے کا یورپ کو حق ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے قوانین بھی بنائے ہیں۔ اسی طرح مسلمان بھی یہ حق رکھتے ہیں کہ ان کی مقدسات کی توہین کو جرم قرار دیا جائے۔ اگرچہ ان دونوں کا آپس میں کوئی موازنہ نہیں لیکن اس سے یہ اصول واضح کرنا مقصودہے کہ ہر ملک اپنی ضروریات کے مطابق قانون سازی کا حق رکھتا ہے۔ پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کے سوئے استعمال اور نفاذ میں پائے جانے والے سقم سے متعلق تحفظات پائے جاتے ہیں اور ان کی اصلاح بھی ہونی چاہیے۔ اپنے کالموں میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ توہین مذہب کے قانون کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرنے والوں اور جھوٹے الزام لگانے والوں پر اسی قانون کے تحت مقدمہ درج ہونا چاہیے۔
اس کے نتیجے میں اس قانون کے غلط استعمال کی روک تھام ممکن ہوسکے گی۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ حکومت نے جی ایس پی پلس اور توہین مذہب سے متعلق قوانین کے بارے میں یورپی یونین سے مکالمے کا آغاز کیا ہے۔ پاکستان کو نہ تو ٹی ایل پی کے سامنے گھٹنے ٹیکنے چاہییں اور نہ ہی مغرب کے سامنے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا چاہیے۔ تحریک طالبان پاکستان کے خلاف افواج پاکستان کی کامیابیوں کے باوجود سابق سماج میں عسکریت کی بیخ کنی کے لیے مطلوبہ اقدامات نہیں کیے جاسکے ہیں۔ اسی طرح ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ریاست کو عسکریت پسند افراد اور تنظیموں کو گرفت میں لانا ہوگا۔ سیاسی اختلاف سب کا حق ہے لیکن تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں۔ جذبات کی آگ بھڑکانے والے ایک مرتبہ قدم جمالیں تو بار بار دھونس جمانے سے باز نہیں آتے۔ یہی وجہ تو ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے فوری کالعدم ٹی ایل پی کی حمایت کا اعلان کیا۔ فرانسیسی سفارت خانے نے اپنے شہریوں کو پاکستان چھوڑنے کا مشورہ دیا ہے۔ یہ پاکستانی ریاست پرعدم اعتماد کا واضح اظہار ہے۔ اس موقعے پر حکومت کو درست سمت میں اقدامات کرنا ہوں گے۔
9اپریل 1948کو پاکستان میں فرانس کے پہلے سفیر لیون مارکل نے قائد اعظم کو اپنی سفارتی اسناد پیش کی تھیں۔ اس موقعے پر قائد اعظم نے کہا تھا کہ فرانس کی تاریخی کامیابیوں سے دنیا واقف ہے۔ دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی فرانسیسی ریاست کے پانچ بنیادی جمہوری اصولوں کی قدر کرتا ہے۔ آزادی، اخوت اور مساوات کے اصول فرانسیسی انقلاب کی جدوجہد کی بنیاد تھے جنھیں بعد میں قائم ہونے والی جمہوریہ کے اصول بنا لیا گیا اور پوری دنیا کو اس سے امید ملی۔ قائد اعظم نے یہ بھی کہا تھا کہ فرانس ہمارے برادر اسلامی ممالک کے بارے میں بہت علم رکھتا ہے اس لیے امید کی جاتی ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات کی صورت میں ایک نئے عہد کا آغاز ہوگا۔ 1948میں کراچی چیمبر آف کامرس سے خطاب میں قائد اعظم نے دنیا سے روابط بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
واضح رہے کہ فرانس پاکستان میں سول ایوی ایشن کے قیام میں مدد کرنے والے چند اولین ممالک میں شامل ہے۔آج دونوں ممالک افراط و تفریط کی وجہ سے ایک دوسرے کے حریف بن چکے ہیں۔ سوچنا چاہیے کہ فرانسیسی صدر کا نامناسب بیان فرانسیسی آبادی کی اکثریت کی ترجمانی نہیں اور اس آبادی میں بڑھتی تعداد میں مسلمان بھی شامل ہے۔ ایسی صورت میں فرانس کے سفیر کی ملک بدری سے کیا حاصل کیا جاسکتا ہے؟
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار، کراچی کونسل آن فارن ریلیشنز کے نائب چیئرمین اور قائد اعظم ہاؤس میوزیم کے چیرمین بورڈ آف مینجمنٹ ہیں۔)