|

وقتِ اشاعت :   May 12 – 2021

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ جامعات معاشرے کی تعلیمی ،تحقیقی، سماجی معاشرتی، جمہوری ترقی کیلئے بنیادی کردار ادا کرتی ہیں اور عملی زندگی کیلئے نوجوانوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرکے ہر شعبہ زندگی کیلئے بہترین لیڈر شپ مہیا کرتی ہیں یہ سب تب ہی ممکن ہے جب جامعات مکمل طور پر خودمختار اور خود کفی ل ھو اور ان میں تعلیم وتحقیق کی ترقی کیلئے فیصلے ومنصوبہ بندی آزادانہ وجمہوری انداز سے تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ہو،ا سی مقصد کیلئے منتخب اسمبلیوں یعنی صوبائی وقومی اسمبلی سے ان کو چلانے کے لئے ایکٹس پاس کی جاتی ہیں تاکہ جامعات کے پالیسی سازاداروں یعنی سینٹ ،سینڈیکیٹ ،اکیڈمک کونسل، فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی ، بورڈ فار ایڈوانس سٹڈیز اینڈ ریسرچ اور سلیکشن بورڈ میں اساتذہ ،طلباء وطالبات ممبران ،صوبائی اسمبلی وسول سوسائٹی خصوصاً عدالت عالیہ و پبلک سروس کمیشن کی منتخب نمائندگی ہوتا۔

کہ آزادانہ وجمہوری طریقے سے ان تمام پالیسی ساز اداروں میں فیصلے ہوسکے، دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز ہی اسی میں ہیں کہ انہوں نیاپنی جامعات کو خودمختار اور خود کفیل بنایا اور تعلیم پر اپنے ملک کی پوری آمدن یعنی GDPکا بیشتر حصہ خرچ کیا ہے۔جبکہ UNOکے زیلی ادارے یونیسکو نے واضح کیا ہے کہ تمام ممالک اپنے GDPکی کم ازکم 7فیصد تعلیم پر خرچ کریں اور جن ممالک نے تعلیم پر اپنی GDPکا 7فیصد یا اس سے زیادہ خرچ کیا ہے آج وہ ہر شعبہ زندگی میں نہ صرف آگے ہے بلکہ دوسروں کی بھی مدد کررہے ہیں خصوصاً کورونا کی اس وبا میں ہم دیکھتے ہیں کہ لاک ڈاون سے لیکر ویکسین کی پیدوار تک وہ ممالک سرفہرست ہیں جنہوں نے اپنے تعلیم خصوصاً اعلیٰ تعلیمی اداروں پر نہ صرف خرچ کیا بلکہ ان کو آزدانہ وجمہوری فیصلے کرنے دیئے ہیں۔

پاکستان چونکہ بدقسمتی سے ان ممالک میں شامل ہے جو صدیوں سے برطانوی سامراج کے زیر تسلط رہا برطانوی تسلط میں برصغیر پاک و ہند 1767ء سے لیکر 1947ء تک رہا اس تمام عرصے میں پورے برصضیر یعنی موجودہ پاکستان، بنگلادیش اور ہندوستان میں یونیورسٹیوں کی تعداد 10 سے زیادہ نہ رہی جبکہ برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ہندوستان میں اب تک جامعات کی تعداد 1000 ،پاکستان میں 170 اور بنگلادیش میں 60 سے زائد ہیں۔حالانکہ ہمارا ملک آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی اب تک مکمل طور پر جمہوری ریاست اور نہ فلاحی ریاست بن سکا جس کی وجہ سے آج تک گوناگوں مسائل سے دوچارہے جب اگست 1947 میں برطانوی سامراج کو برصضیر سے نکلنے پر مجبور کیا تو تقسیم کے نتیجے میں پاکستان اور ہندوستان معرض وجود میں آے تو اس وقت پاکستان میں صرف دو یونیورسٹیاں تھی ۔

یعنی پنجاب یونیورسٹی جو1882ء لاہور اور ڈھاکہ یونیورسٹی جو1921ء میں بنی تھی اور پشاور یونیورسٹی1950ء ،سندھ یونیورسٹی 1951ء میں بنائی گئی تاہم انہیں حیدرآباد شفٹ کردیاگیاجبکہ یونیورسٹی آف کراچی 1951میں بنائی گئی،یونورسٹی آف اسلام آباد جو اب قائداعظم یونورسٹی کے نام سے ہے 1967 اورمشرقی پاکستان میں یونورسٹی آف راج شاہی 1953،یونورسٹی آف چٹاگانگ 1966،مشرقی پاکستان زرعی یونیورسٹی 1961اور مشرقی پاکستان اینجنئیرنگ یونورسٹی 1962 میں بنائی گئی ، تاریخ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ ملک کے پہلے 23سالوں میں پاکستان کو ایک وفاقی جمہوری ریاست بننے نہیں دیا گیا آئین ساز اسمبلی کوجمہوری بنیاد وں پر آئین ساز ی نہیں کرنے دیا گیا اور1956کا آئین جو گیارہ سال کے بعد بنایا گیا کو صرف اٹھارہ مہینوں کے اندر بلاجواز معطل کرکے فوجی مارشلاء نافذ کرکے جنرل ایوب خان نے صدارتی آئین 1962ء میں نافذ کیا ۔

اور اس پورے دور میں نئی جامعات کی تعداد میں کء گناء اضافہ ہوسکتا تھا لیکن معاملات اتنے بگاڑدیے گئے۔کہ1971میں 16دسمبر کو ملک دولخت ہوا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کے نام سے ایک آزاد ملک کے طور پر دنیا کے نقشے میں نمودار ہوا آج بنگلہ دیش ہم سے ہر شعبہ ہائے زندگی میں آگے ہیں البتہ جب بسیار خرابیوں کے بعد با امر مجبوری ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار دی گء تو ان کے دور میں جمہوری حکومت نے انتہائی مشکل حالت کے باوجود 1972سے لیکر 1977تک ملک میں نصف درجن سے ذائد نئی یونیورسٹیاں بنائی جن میں ، گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور بہائوالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان، شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیرپور اور یونیورسٹی آف بلوچستان کوئٹہ و دیگر شامل ہیں۔

اور ان یونیورسٹیوں کیلئے متعلقہ صوبائی اسمبلیوں سے ایسے تعلیم وتحقیق دوست ایکٹس پاس کئے جن کے پالیسی ساز اداروں میں اساتذہ،،طلباء وطالبات،ممبران اسمبلی ،ججز،سول سوسائٹی کے ماہرین کی منتخب نمائندگی دی گئی جو مشاورت کے بعد بہترین فیصلے کرتے اور جامعات کے وائس چانسلرزاور دیگر انتظامی افیسران کواحتساب کے عمل میں شامل کرتے ان جامعات کی پالیسی ساز اداروں میں اساتذہ ،طلباء وطالبات کی منتخب نمائندگی کو خاص اہمیت اس لیے دی گ۔کہ جامعات میں وہ بنیادی سٹیک ہولڈرز ہیں جن کی جامعات کی پالیسی سازی میں بنیادی کردار ہوتیہیں ان میں خاص کر طلباء یونین کا قیام اہمیت کا حامل ہے جن کا بنیادی مقصد مستقبل میں ریاست کیلئے ہر شعبہ زندگی خصوصاً سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ کیلئے لیڈر شپ کو پیدا کرنا تھا جو جمہور کی آوازبن کر ملک کو ترقی کے راہ پر گامزن کرکے دنیا میں ترقی یافتہ ممالک کے صف میں ملک کو شامل کرانا تھا۔

لیکن بدقسمتی سے اس جمہوری عمل کو ملک میں زیادہ عرصہ چلنے نہیں دیا گیا اور ملک میں1977کے عام انتخابات کے پہلے مرحلے یعنی قومی اسمبلی کے نتائج پر اپوزیشن جماعتوں کا شدید ردعمل اور پاکستان نیشنل الائنس کے پلیٹ فارم سے 9جماعتوں کے اتحاد نے ملک بھر میں تحریک چلا کر فوج کے لئے راہ ہموار کی جس کے نتیجے میں آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے مارشلاء نافذ کیا اور ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتارکرکے ان کو ایک مشکوک مقدمے میں جیل میں پھانسی دی ان کی شہادت سے یقینا ملک کو شدید نقصان پہنچا اور ملک کو 11سال تک نہ صرف جمہوری طرز حکومت سے دور رکھا بلکہ اس طویل عرصے میں کوئی بھی نئی یونیورسٹی ماسوائے 1980ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد، نہ بن سکی جبکہ تمام جامعات کے اسمبلیوں سے پاس شدہ ایکٹس کو معطل کرکے اساتذہ وطلبا وطالبات ودیگر کی منتخب نمائندگی ختم کرکے پالیسی ساز اداروں میں سلیکشن کے ذریعے لوگوں کو چنا اور طلباء یونین پر پابندی عائد کرکے تجربہ کار اور بے لوث لیڈر شپ کوابھرنے سے روک دیا گیا۔

اس تمام عرصے میں جامعات کے وائس چانسلر کی تعیناتی فوجی وسول آفیسران سے کی گئی جبکہ ماہرین تعلیم کو یکسر نظرانداز کرکے جامعات اور ملک میں آمرانہ طرز سیاست اور لیڈر شپ کو فروغ دیا گیا یہاں تک کہ 1985کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد بننے والی مرکزی حکومت سے بھی فوجی آمر جنرل ضیاء الحق مطمئن نہ رہے۔ جنرل ضیاء الحق کے گیارہ سالہ دور میں خصوصا بلوچستان میں کوئی بھی نئی یونیورسٹی نہیں بنائی گئی اور ملک کی زیادہ ترموجود جامعات میں شدت پسندی کو فروغ دیا گیا جس سے جامعات کے اندر اظہاراے پر پاپندی لگی اور جامعات میں تعلیمی وتحقیقی ترویج کے بجائے شدت پسندی کا فروغ ہوا اور ہمسایہ ممالک میں دراندازی پر توجہ دی گئی جس کے منفی اثرات سے آج تک ہم نہیں نکل سکے گوکہ ظاہراً 1998سے لیکر 12اکتوبر 1999تک ملک میں جمہوریت بحال کی گئی۔

لیکن 11سالہ دور میں کوئی بھی منتخب حکومت اپنی آئینی طور پر طے شدہ دور مکمل نہیں کرسکی اور ہر دوڈھائی سال کے اندرمنتخب حکومت کو آٹھویں ترمیم کے شق 58-2 بی کے تحت ختم کی جاتی ،1973 کے آئین میں یہ ترمیم جنرل ضیاء الحق نے منتخب حکومت کو ختم کرانے کیلئے کی تھی اس مخدوش صورت حال اور نیم جمہوری دور میں بھی ملک میں کئی نئی جامعات بنائی گئیں اس دور میں بھی جامعات کے ایکٹس جو صوبائی اسمبلیوں سے پاس کئے گئے ان کے پالیسی ساز اداروں میں اساتذہ کی منتخب نمائندگی رکھی گئی اور طلباء یونین پر پابندی کے باوجود ان کی نمائندگی جامعات کے پالیسی ساز دارے سینٹ میں رکھی گئی خاص کر سینڈیکیٹ اور سلیکشن بورڈ میں چیف جسٹس ہائی کورٹ چیئرمین پبلک سروس کمیشن اور ممبران اسمبلی کو رکھا گیا۔

جس کا بنیادی مقصد ان پالیسی ساز اداروں میں شفافیت برقرار رکھنا اور جامعہ کے وائس چانسلر اور دیگر انتظامی افسران پر چیک رکھنا تھا اور ساتھ ساتھ پالیسی ساز اداروں میں تعلیمی تحقیقی اور انتظامی مسائل پر کھل کر بحث کرنا اور اپنی ماہرانہ رائے سے جامعات کی بہتری کیلئے فیصلے کرانا تھا جس کے مثبت اثرات یقینا سماج پر پڑتے۔ بین الااقوامی سطح پر 9/11کینیو یارک کے ٹوئن ٹاور اور پینٹا گون پر خود کش جہاز کے حملے نے پوری دنیا کی سیاست تبدیل کردی جس کے براہ راست اثرات پاکستان اور افغانستان پر پڑے ،پاکستان سعودی عرب اور عرب امارات وہ تین ممالک تھے جنہوں نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا لیکن امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان نیظاہرا ً طالبان حکومت سے ناطہ توڑ کر افغانستان کے حوالے سے اقوامتحدہ کے جنرل اسمبلی کے قرار داد کی حمایت کی اور جنرل مشرف کی فوجی حکومت نے نئی عالمی پالیسی کے تحت ملک کے اندرونی وبیرونی پالیساں مرتب کرنا شروع کی جس میں خصوصاً ملک میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی جگہ 2002ء میں ایچ ای سی کو قائم کیا اور ملک میں نئی جامعات قائم کی گئی ۔

لیکن صوبائی اسمبلیوں سے باقاعدہ ایکٹس پاس کرنے کی بجائے ماڈل یونیورسٹی آرڈیننس کے ذریعے نئی قائم شدہ جامعات کو چلانے لگے جس کے تحت تمام پالیسی ساز داروں سے اساتذہ وطلبا وطالبات کی منتخب نمائندگی ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ممبران صوبائی اسمبلی اور چیف جسٹس ہائی کورٹ اور پبلک سروس کمیشن کی نمائندگی بھی ختم کی اور تمام جامعات کے وائس چانسلرز کی تعیناتی یا براہ راست گورنر کے زریعے کی گئی یا ایسی سرچ کمیٹیوں کے ذریعے کی گئی ۔جو ماہرین تعلیم کے بجائے فوجی اور سول افسر شاہی پر مشتمل تھی جنہوں نے جامعات کے وائس چانسلر کے لئے پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈرز پروفیسرز کے بجائے ریٹائر فوجی وسول افسرشاہی کو ترجیح دی جو دس دس سال تک جامعات میں بطور وائس چانسلر مسلط رہے اور مخصوص ایجنڈے کے تحت جامعات میں اظہار رائے بحث ومباحثہ وسوال وجواب پر پابندی لگائی اور جامعات کیایسے وائس چانسلر ز کو بے شمار اختیارات حاصل رہے جس کی جامعات کی کسی بھی پالیسی ساز اداروں سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں رہی۔

اور احتسابی عمل کا خاتمہ ہوا نتیجے میں جامعات کے اساتذہ طلباء وطالبات پر خوف کا سماں مسلط رہا جو آزادانہ طریقے سے اپنی رائے کا اظہار نہ کرسکے اور اس خوف زدہ ماحول میں جامعات میں طلبا وطالبات کی سوچ انتہائی محدود رہی جو ملک کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ نہیں کرسکے جبکہ حد درجہ کوشش کی گئی کہ پرانے جامعات کے ایکٹس کو معطل کرکے ماڈل یونیورسٹی آرڈیننس نافذ کیا جائے تاکہ جہاں تھوڑی بہت اساتذہ وطلباء وطالبات کومنتخب نمائندگی حاصل ہے وہاں سے بھی خاتمہ کرکے اظہار رائے اور جمہوری آواز پر پابندی لگائے لیکن جامعات کے اساتذہ طلباء وطالبات اور سیاسی پارٹیوں و سول سوسائٹی کی مدد سے ایسی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا گیالیکن اس کے باوجود بھی خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے گزشتہ سال صوبے کی تمام جامعات کیلئے ایک ایسا ایکٹ پاس کیا ۔

جس میں اساتذہ و دیگر کو انکی منتخب نمائندگی ان کے تناسب کی مناسبت سے نہیں دی گئی اور گورنر اور وائس چانسلر ز کی طرف سے سلیکٹیڈ لوگوں کی تعداد زیادہ کردی گئی جو فیصلہ سازی میں اثرانداز ہورہے ہیں ۔البتہ سندھ کی پیپلز پارٹی کی حکومت نے گزشتہ سالوں سندھ کی تمام سرکاری جامعات کیلئے نسبتاً بہتر مشترکہ ایکٹ پاس کیا جس میں جامعات کی پالیسی ساز داروں میں اساتذہ وطلبا وطالبات و آفیسران وممبران صوبائی اسمبلی وعدالت عالیہ کے ججز کی منتخب نمائندگی نسبتا بہتر ر کھی گئی اور اہم بات یہ کہ گورنر سندھ سے وائس چانسلر اور دیگر اعلیٰ عہدیداران کی تعیناتی کا اختیار لیکر منتخب وزیراعلیٰ سندھ کے سپرد کی گئی البتہ سندھ کی جامعات کے ایکٹس میں مذید بہتری لانے کی گنجائش موجود ہے۔بلوچستان جسے بدقسمتی سے ہر شعبہ زندگی میں پیچھے اور محروم رکھا گیا ہے ۔

وہاں جامعات کے گورننس کے حوالے سے بھی بلوچستان کو ایک تجربہ گاہ بنایا گیا ہے 2002میں جب ایچ ای سی کا قیام عمل میں لایا گیا تو ماڈل یونیورسٹی آرڈیننس کو جامعہ بلوچستان پر مسلط کرکیبلوچستاں صوبائی اسمبلی سے پاس شدہ 1996ء کے ایکٹ کو معطل کرکے جامعہ کے پالیسی ساز اداروں سے اساتذہ طلباء وطالبات وممبران صوبائی اسمبلی پبلک سروس کمیشن وعدالت عالیہ کے ججز کی منتخب نمائندگی ختم کرکے آمرانہ طرز تعلیم دشمن طریقہ کار اپنایا گیا جس کی وجہ سے صوبے بھر کی جامعات کے وائس چانسلرز اور دیگر اعلیٰ عہدیداران فوجی وسول بیوروکریسی سے لئے گئے اور وہ سالوں سال اس اہم عہدے پر براجمان رہے جس کی واضح مثال بلوچستان یونورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی و منیجمنٹ سائنس (بیوٹمز)کے وائس چانسلر کی ہے جو پچھلے 16سال سے وائس چانسلر کے عہدے پر مسلط ہے۔

لیکن ان تمام منفی ہتھکنڈوں کے باوجود صوبے کے اساتذہ ،طلباء وطالبات سیاسی پارٹیوں سول سوسائٹی خصوصاً ممبران صوبائی اسمبلی نے ماڈل یونیورسٹی آرڈیننس کو جامعہ بلوچستان اور خضدار انجینئرنگ یونیورسٹی پر مستقلاً نافذ ہونے نہیں دیا البتہ دیگر نئی جامعات میں ماڈل یونیورسٹی آرڈیننس کے طرز پر قانونی سازی کرکے صوبائی اسمبلی سے پاس کرایا گیا مضحکہ خیز اور افسوسناک امریہ ہے کہ ممبران صوبائی اسمبلی نے اپنی ہی نمائندگی جامعات کے پالیسی ساز اداروں سے ختم کرکے چانسلر اور وائس چانسلر ز کو مطلق االعنان بنانے میں اپناکر کردار ادا کرکے صوبے کے جامعات میں اظہار رائے اور جمہوری کلچر پر پابندی لگائی جو یقینا تعلیم وصوبہ دوستی کی مخالف اقدام ہے۔ابھی حال میں موجودہ صوبائی حکومت نے اپنی صوبائی کابینہ کے اجلاس میں صوبے کے تمام سرکاری جامعات کیلئے ایک بل پیش کیا جس کے مندرجہ جات مشرف دور کے آمرانہ اور تعلیم دشمن ماڈل یونیورسٹی آرڈیننس کی بنیاد پر رکھا گیا ہے۔

بلکہ کئی حوالوں سے اس سے بھی کئی قدم آگے ہے، حیران کن اور تشویشناک امریہ ہے کہ صوبائی وزراء نے سمجھے اور پڑھے بغیر صوبے کی تمام جامعات بشمول جامعہ بلوچستان جو غالباً ان کا ٹارگٹ ہیکہ تمام پالیسی ساز اداروں یعنی سینٹ سنڈیکیٹ،سلیکشن بورڈ اکیڈمک کونسل وفنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی اور خاص کر جامعات کے وائس چانسلرزاور پر و وائس چانسلرز کی تعیناتی کیلئے مجوزہ سرچ کمیٹی سے اپنی ہی ممبران صوبائی اسمبلی کی نمائندگی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ عدالت عالیہ کے ججز ،چیئرمین پبلک سروس کمیشن اساتذہ وطلبا وطالبات جامعہ کے ملازمین اور افسران کی منتخب نمائندنگی ختم کرکے گورنر اور وائس چانسلر ز کو من پسند افراد کو سلیکٹ کرنے کا اختیار دیا جس کے نتیجے میں جامعات مکمل طور پر غیر منتخب لوگوں کے ہاتھ میں ہونگی جس سے جامعات میں اظہار رائے، اکیڈمک فریڈم یعنی تعلیمی آزادی اور جمہوری روایات پر پابندی ہوگی اور پالیسی ساز اداروں میں فیصلہ سازی کا اختیارغیر منتخب لوگوں کے ہاتھ میں ہوگا ۔

اور جامعات کے اہم سٹیک ہولڈرز یعنی اساتذہ ،طلباء وطالبات ملازمین اور آفیسران کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔ صوبائی حکومت کے اس مجوزہ بل میں وائس چانسلر وپرووائس چانسلر کی تعیناتی کیلئے تجویز کی گئی سرچ کمیٹی کی سربراہی ایک اعلیٰ سول بیوروکریٹ کو دی گئی جس میں پبلک سروس کمیشن اور عدالت عالیہ کے ججز وماہرین تعلیم کو نظرانداز کیا گیا ہے اور وائس چانسلرز اور پروووائس چانسلرز کی تعیناتی کیلئے پی ایچ ڈی اور پروفیسر کی شرط ختم کی ہے جو دراصل جامعات کو ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں دینا ہیں جنکا مقصد تعلیمی تحقیقی بہتری نہیں بلکہ جامعات میں گھٹن اور خوف وہراس کا ماحول پیدا کرکے جامعات میں بحت ومباحثہ اور سوالات پر پابندی عائد کراناہے ایسے حالات میں جہاں ملک بے شمار مسائل کا شکار ہیں ۔

اور ان مسائل سے ملک کونکالنے کیلئے باشعور تعلیم یافتہ لوگوں کی ضرورت ہے وہ تب ہی ممکن ہے جب ملک کے نوجوانوں کو جوآبادی کے 60فیصد سے زیادہ پر مشتمل ہیں ان کیلئے ایسے تعلیمی ادارے خصوصاً جامعات بنائے جائیں جن کو کسی بھی صورت مالی بحران پیش نہ ہو اور جہاں کے اساتذہ اورطلباء و طالبات بے خوف وخطر اپنی رائے اور جمہوری آزادی کا اظہار کرسکے۔ معاشرے کے ہر فرد خصوصاًممبران اسمبلی ،سیاسی جماعتوں، طلبا تنظیموں وکلاء و صحافی برادری اور عدلیہ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جامعات کو چلانے کیلئے تعلیمی وتحقیق دوست ایکٹس ترتیب دینے میں ممبران اسمبلی خصوصاً وزراء کو قائل کرے اور مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو تعلیم خصوصاً جامعات کیلئے اقوام متحدہ کے فیصلوں کے مطابق اپنےGDPکم از کم 7فیصد بجٹ مختص کریں تاکہ ہمارا ملک عالمی سطح پر باوقار مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے۔

One Response to “سرکاری جامعات میں انتظامی و مالی مشکلات”

  1. Fazal Ashna

    پروفېسر کليم الله بړيڅ کا بہت شکریہ کہ علمی مراکز کے بارے میں زغیم معلومات شئیر کئے،

Comments are closed.