|

وقتِ اشاعت :   May 18 – 2021

دہشت گرد صیہونی اسرائیلی ریاست کی جانب سے ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ اب تک غزہ کی پٹی پر اسرائیلی بمباری سے دو سو سے زائد فلسطینی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جن میں پچاس سے زیادہ چھوٹے بچے بھی شامل ہیں جبکہ سینکڑوں زخمی ہیں۔ اسرائیلی بمبار طیاروں نے حماس کی قیادت کو نشانے بنانے کی آڑ میں کئی رہائشی عمارتوں پر بمباری کر کے انہیں زمین بوس کردیا جس سے ہلاکتوں کی موجودہ تعداد کہیں زیادہ بڑھنے کے امکانات ہیں۔ اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اعلان کیا ہے کہ موجودہ کاروائیاں اتنی جلدی ختم نہیں ہوں گی اور ’اسلامی جہاد‘ اور حماس کو اپنی جارحیت کی قیمت چکانا ہوگی۔ بظاہر حالیہ بحران کا آغاز اس وقت ہوا جب 2مئی کو مشرقی یروشلم کے علاقے شیخ جراح میں آباد چھ فلسطینی خاندانوں کو اسرائیلی حکام کی طرف سے اپنے گھروں کو خالی کرنے کے احکامات دیئے گئے جبکہ 28 دیگر خاندانوں کو اسرائیلی عدالت سے بے دخلی کے احکامات 9 مئی کو ملنے والے تھے۔ شیخ جراح اور دیگر عرب اکثریتی علاقوں میں بے دخلی کے شکار فلسطینی خاندانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے مظاہرے شروع ہوئے۔ پولیس، فلسطینی مظاہرین اور اسرائیلی آباد کاروں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوا تو غزہ کی پٹی سے حماس نے بھی مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی پولیس کی جانب سے شیلنگ اور فائرنگ کے ردعمل میں قریبی اسرائیلی شہروں پر راکٹ داغنے شروع کیے جس کے جواب میں غزہ کے محکوم فلسطینیوں پر صیہونی ریاست نے اندھا دھند بمباری کا سلسلہ شروع کیا۔ بنیامین نیتن یاہو کی موجودہ بحران زدہ حکومت (جس کے فارغ ہونے کے امکانات بھی موجود ہیں) کی حالیہ کیفیت کو دیکھتے ہوئے یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ اسرائیلی وزیر اعظم کلازوٹز کے اس آزمودہ فارمولے پر چل رہے ہوں کہ اندرونی بحرانات کو ٹالنے کے لیے بیرونی جنگ شروع کی جائے۔
شیخ جراح کے علاقے میں آباد فلسطینی خاندانو ں کو یہ رہائشی مکانات دراصل 1956ء میں اردن(اس وقت تک مشرقی یروشلم اردن کے قبضے میں تھا) اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے فلسطینی مہاجرین کے درمیان ایک معاہدے کے نتیجے میں الاٹ ہوئے تھے۔ انہیں اس شرط پر یہ مکانات دیئے گئے تھے کہ وہ اپنے مہاجر ہونے کے اسٹیٹس سے دستبردار ہوں گے۔ لیکن 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد ان علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ ہوگیا۔ 1972ء میں یہ علاقہ یہودی ٹرسٹ کے نام کیا گیا جس نے رہائشیوں سے کرایے وصولنا شروع کر دئیے۔ بعد میں یہودی ٹرسٹ نے یہ مکانات یہودی آبادکاروں کی تنظیم کو بیچ دئیے جس نے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کی بارہا کوشش کی۔ اسرائیلی قوانین کے مطابق یہودیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مشرقی یروشلم میں ان مکانات یا علاقوں پر ملکیت کا دعویٰ کرسکتے ہیں جہاں وہ 1948ء سے پہلے آباد تھے لیکن فلسطینیوں کے لیے ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے جس کے تحت وہ مغربی یروشلم میں اپنی زمینوں پر ملکیت کا دعویٰ کرسکیں جہاں سے انہیں 1948ء میں بے دخل کیا گیا تھا۔ یہودی آباد کاروں کی تنظیم کا دعویٰ ہے کہ شیخ جراح کی یہ زمین انہوں نے 1870ء میں ایک عرب زمین دار سے خریدی تھی جبکہ ایک فلسطینی نقشہ نگار خلیل توفکجی نے 2010ء میں انقرہ کا سفر کرکے سلطنت عثمانیہ کے دور کی ایک ایسی دستاویز کا سراغ لگایا جو یہودی آبادکاروں کے دعوئوں کی نفی کرتی تھی۔ لیکن اسرائیلی عدالت نے اس دستاویز کو مسترد کر دیا۔ متوقع بے دخلی کے فیصلے کو عدالت نے موجودہ حالات کے تناظر میں ایک مہینے کے لیے مؤخر کر دیا ہے۔
اگرچہ تاریخی فلسطین ( Palestine Historical )میں یہودی پہلے سے آباد تھے لیکن 1880ء تک وہ کل آبادی کا تین فیصد تھے جن میں ایک نئی یہودی ریاست کے حوالے سے کوئی سوچ بھی موجود نہیں تھی۔ لیکن انیسویں صدی کے آخر میں یورپی سامراجیوں کی سرپرستی میں صیہونی تحریک کی داغ بیل ڈالی گئی جس کا مقصد فلسطین میں ایک یہودی ریاست کا قیام تھا۔ صیہونی تحریک کا دعویٰ ہے کہ خدا نے عبرانی بائبل میں اسی جگہ یہودیوں کے لیے الگ ملک کا وعدہ کیا ہے۔ اس کے بعد ہی یورپ اور دیگر علاقوں سے یہودیوں کی فلسطین میں آباد کاری کا آغاز کیا گیا اور علاقے کی ڈیموگرافی کی تبدیلی کے ذریعے مستقبل کی صیہونی ریاست کے لیے راستہ ہموار کرنے کا عمل شروع کیا گیا۔
پہلی جنگ عظیم میں عثمانی سلطنت کی شکست اور حصے بخرے ہونے کے بعد فلسطین کا علاقہ برطانیہ کے کنٹرول میں آگیاجس نے 1917ء میں باضابطہ طور پر ’اعلان بالفور‘ کے ذریعے فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک الگ ریاست کے قیام کا بیانیہ جاری کیا جس کے بعد زمینداروں ( landlords Absentee) سے زمینیں خرید کر یہودیوں کی آبادکاری کا عمل مزید تیز کیا گیا۔ یورپ میں بڑھتی ہوئی سام دشمنی اور فاشسٹ حکومتوں کی جانب سے یہودیوں کے قتل عام نے یہودیوں کی فلسطین میں ہجرت کو اور تیز کر دیا۔ یوں 1948ء میں اقوام متحدہ کے فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کے اعلان سے پہلے یہودیوں کی آبادی 27 فیصد تک پہنچ چکی تھی۔
اقوام متحدہ کی فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کے تحت فلسطین کے رقبے کا 55 فیصد یہودیوں کو دیا گیا جن میں عرب اکثریتی شہر بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ تمام اہم زرعی زمینیں اور ساحلی شہر حائفہ اور جفہ بھی ان کے حوالے کیے گئے۔ تقسیم کے اعلان کے بعد ہی پہلی عرب اسرائیل جنگ کا آغاز ہوا۔ ایک طرف صیہونی فوج اور نیم فوجی دستوں نے اپنے جدید اسلحے اور سامراجی پشت پناہی سے فلسطینیوں کا بے رحمی سے قتل عام کیا اور انہیں علاقہ بدر کیا تو دوسری طرف آس پاس کی عرب بادشاہتیں فلسطین کی آزادی سے زیادہ باقی ماندہ فلسطین کے علاقے ہڑپ کرنے کے درپے تھیں۔ 1949ء کے اواخر میں صیہونی ریاست نے تاریخی فلسطین کے 78 فیصد حصے پر قبضہ کر لیا تھا جبکہ مغربی کنارے پر اردن اور غزہ کی پٹی پر مصر نے قبضہ کر لیا تھا۔ 1967ء کی تیسری عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے مغربی کنارے، غزہ کی پٹی اور شامی علاقے گولان کی پہاڑیوں پر بھی قبضہ کر لیا جس کے بعد ان علاقوں میں یہودیوں کی آبادکاری کا ایک اور سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔
پچھلی پانچ دہائیوں میں اسرائیلی ریاست نے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں فلسطینی آبادیوں کے بیچ درجنوں کالونیاں بنا کر ان میں یہودیوں کو آباد کیا ہے۔ یہ آباد کار پورے ملک کے لمپن عناصر اور یہودی انتہا پسندوں پر مشتمل ہوتے ہیں جو بھاری اسلحوں سے لیس ہوتے ہیں۔ یہ اکثر فلسطینیوں پر تشدد اور دیگر جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں اور ان کی سکیورٹی پر مامور اسرائیلی فوج کے اہلکار اس تشدد کا تماشہ دیکھتے ہیں۔ بیشتر اوقات یہ فلسطینیوں کی پراپرٹی اور ان کے زیتون کے باغات کو جلاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں یہودی آبادکاروں کی تعداد اس وقت آٹھ لاکھ کے لگ بھگ ہے جو 160’’قانونی‘‘ اور 120 ’’غیرقانونی‘‘ سیٹلمنٹس میں رہتے ہیں۔ یہ تمام تر سیٹلمنٹس فلسطینیوں کو دھونس اور زبردستی کے ذریعے بے دخل کر کے قائم کی گئی ہیں۔ ان آباد کاریوں کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ فلسطینی علاقوں کی ڈیموگرافی کو تبدیل کرکے مستقبل کی ’’آزاد فلسطینی ریاست‘‘ کے قیام کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند کیا جائے۔ اگرچہ یہ دو ریاستی منصوبہ اپنے آغاز سے ہی ایک ناکام و نامراد منصوبہ تھا اور ہے۔ امریکی سامراج کی پراکسی، طاقتور اور جابر صیہونی ریاست کی موجودگی میں آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ایک احمقانہ خواب ہے۔
حالیہ اسرائیلی جارحیت کے دوران سامراجی ممالک اور ان کے گماشتہ میڈیا کا کردار ہمیشہ کی طرح انتہائی مکروہ ہے۔ چند دن پہلے امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان کی بریفنگ کے دوران غزہ کی پٹی پر اسرائیلی بمباری کے حوالے سے ایک صحافی کے سوالات پر امریکی سامراج کی منافقت کھل کر سامنے آئی جب دفتر خارجہ کا ترجمان حماس کی جانب سے داغے گئے دیسی ساختہ راکٹوں(جن کی اکثریت کو اسرائیلی دفاعی نظام فضا میں ہی تباہ کر دیتا ہے)سے اسرائیل میں ہونے والے نقصانات پر کھل کر بات کر رہا تھا جبکہ غزہ میں اسرائیلی بمباری سے درجنوں ہلاکتوں پر اس بنیاد پر بات کرنے سے انکاری تھا کہ ابھی تک یہ رپورٹس ’’مصدقہ‘‘ نہیں ہیں۔ دوسری طرف کارپوریٹ میڈیا انتہائی منافقت سے اسرائیل کی بمباری اور جارحیت کو ’’لڑائی‘‘ (Hostilities)کا نام دے رہا ہے جبکہ نہتے فلسطینیوں اور دیوہیکل اسرائیلی فوج کا کوئی موازنہ ہی نہیں ہے۔
حالیہ واقعات ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی حکومت اپنے بارہ سال کے اقتدار کے بدترین بحران سے گزر رہی ہے۔ نیتن یاہو خود بدعنوانی، رشوت خوری اور دھوکہ دہی کے الزامات میں گھرا ہوا ہے اور اس کے خلاف متعدد بڑے بڑے مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔ سیاسی بحران کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلے دو سالوں میں چار انتخابات ہوچکے ہیں لیکن نیتن یاہو کی جماعت لکوڈ بڑی اکثریت لینے میں ناکام رہی ہے۔ اس سال مارچ میں ہونے والے انتخابات میں اس کی جماعت پارلیمنٹ کی 30 نشستیں جیت سکی جبکہ حکومت بنانے کے لیے 61 نشستوں کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف صدر کی جانب سے 4 مئی تک حکومت بنانے کی ڈیڈ لائن بھی گزر گئی اور وہ اتحادی حکومت تشکیل نہیں دے سکا۔ فلسطینیوں پر حالیہ تشدد اور غزہ پر جارحیت کا مقصد بیرونی جنگ کے ذریعے اندرونی بحران پر قابو پانے کی واردات بھی ہوسکتی ہے تا کہ اسرائیل کی دائیں بازو کی رجعتی پارٹیوں کی حمایت حاصل کر کے کسی طریقے سے حکومت قائم کر کے اپنے اقتدار کو دوام دیا جاسکے یا دوبارہ الیکشن کی صورت میں صیہونی دائیں بازو کے ووٹ بینک کو اپنی جماعت کی طرف کھینچا جا سکے۔
آج سے کئی دہائیاں قبل لیون ٹراٹسکی نے کہا تھا، ’’یہودیوں کے مسئلے کو انہیں فلسطین میں ہجرت کروا کر حل کرنے کی کوشش یہودیوں کے ساتھ ایک المناک مذاق ہے… مستقبل کے عسکری واقعات فلسطین کو یہودیوں کے لیے ایک خونی پھندے میں بدل دیں گے۔یہودیوں کی نجات سرمایہ دارانہ نظام کے اکھاڑ پھینکنے سے جڑی ہوئی ہے۔‘‘ پچھلی سات دہائیوں میں ہونے والے واقعات اس بات کی دلالت کرتے ہیں کہ اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد مشرق وسطیٰ مسلسل عدم استحکام، تنازعات اور جنگ کی کیفیت میں رہا ہے۔ حتیٰ کہ اسرائیل میں آباد یہودی محنت کشوں کو بھی مسلسل خوف اور جنگی کیفیت میں زندگی گزارنا پڑتا ہے اور ہر کسی پر فوجی تربیت لازمی ہے۔ صیہونی ریاست کی تمام تر عرب دشمنی اور مذہبی نفرت انگیزی کے باوجود عرب اور یہودی محنت کشوں میں ایک طبقاتی جڑت بھی موجود ہے جو ہر عوامی تحریک میں بار بار اپنا اظہار کرتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال عرب بہار کی انقلابی تحریکیں ہیں جب اسرائیلی محنت کش اپنے عرب بھائیوں اور بہنوں کی طبقاتی تحریک کی حدت سے متاثر ہو کر ان سے اظہار یکجہتی کرنے اور اپنی صیہونی حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکلے تھے۔ اس طبقاتی جڑت کو مٹایا نہیں جاسکتا۔ جس طرح آج تمام عرب بادشاہتیں، جو فلسطین کی آزادی کی تحریک کی حمایت کا ڈھونگ رچاتی رہی ہیں، اپنے طبقاتی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام تر مذہبی، لسانی اور نسلی تفریق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسرائیل سے تعلقات استوار کر رہی ہیں اسی طرح اسرائیل، مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں آباد تمام عرب اور یہودی محنت کشوں کی جابر صیہونی ریاست اور ان کے گماشتوں کے خلاف ایک مشترکہ انقلابی لڑائی بنتی ہے۔ فلسطینی اپنے تئیں جابر اسرائیلی ریاست کو کبھی بھی شکست نہیں دے سکتے۔ اس لیے اس جنگ میں انہیں اپنے فطری اتحادی اسرائیل کے محنت کشوں سے جڑت پیدا کرنی ہوگی جو خود اسرائیلی ریاست کے جبر کا شکار ہیں۔ اس مشترکہ انقلابی لڑائی کے ذریعے سرمایہ دارانہ صیہونی ریاست اور مغربی کنارے اور غزہ میں ان کے گماشتوں کو اکھاڑ کر عربوں اور یہودیوں کی ایک رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کا قیام ہی اس مسئلے کا واحد حل ہے۔