اس کتاب کے مصنف بلوچ دانشور، بلوچستان کی جانی پہچانی شخصیت، علمی و ادبی حلقوں میں معتبر و معروف نام، سابق بیوروکریٹ، صحافی، مصنف، شاعر، محقق، استاد، سابق چیئرمین بلوچی اکیڈمی کوئٹہ فخر مکران واجہ جان محمد دشتی ہیں۔ جان محمد دشتی کیچ مکران کے مردم خیز خطے دشت کنچتی میں پیدا ہوئے۔ زیرِ تبصرہ کتاب انگریزی میں ہے اور دیباچہ، تعارف سمیت پانچ ابواب اور اختتامیہ پر مشتمل ہے۔ کتاب 259 صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ کتاب کا تعارف بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو نے تحریر کیا ہے۔
کتاب کا انتساب ’’بلوچ نوجوان‘‘ کے نام پر ہے۔ کتاب کا پہلا ایڈیشن 1982ء میں آیا تھا جبکہ موجودہ (دوسرا) ایڈیشن 2019ء میں لایا گیا ہے۔ کتاب کے پبلشر بلوچی اکیڈمی، کوئٹہ ہے۔ یہ کتاب مجھے جناب عارف بلوچ نے ازراہ محبت اور خلوص عنایت کی۔ عارف بلوچ صاحب کہنہ مشق اور سینئر صحافی ہیں۔ پچھلے تیس برسوں سے وہ صحافت کے دشت کی سیاحی کررہے ہیں۔ آپ کراچی پریس کلب کے رکن اور بلوچستان ایکسپریس کے مینیجنگ ایڈیٹر ہیں۔
کونسل آف پاکستان نیوزپیپرز ایڈیٹرز بلوچستان چیپٹر کے موجودہ جوائنٹ سیکریٹری ہیں جبکہ اس سے قبل آپ بحیثیت نائب صدر کونسل میں فعا ل کردار ادا کرچکے ہیں۔ میں جناب عارف بلوچ کا ممنون و مشکور ہوں کہ انہوں نے بلوچ اور بلوچستان کے حوالے سے ایک گرانقدر تحقیقی کتاب سے مجھے مستفید ہونے کا موقع فراہم کیا۔ چونکہ تاریخی تحقیق میں کتابیں، رسائل، حوالہ جات، دستاویزات، شخصیات، تہذیب و اقدار اور دیگر عوامل کا بغور مطالعہ کیا جاتا ہے، انہیں مدنظر رکھا جاتا ہے اور باقاعدہ Collection Data کی جاتی ہے۔
زیرِ تبصرہ کتاب میں بھی فاضل مصنف نے انگریز، عرب، بلوچ، ایرانی، روسی، ہندوستانی اور مغربی محققین اور مؤرخین کی کتابوں، تحقیقی مقالوں اور تحریروں کے مستند حوالہ جات پیش کیے ہیں جو کتاب کی علمی و تحقیقی حیثیت کو نمایاں کرتے ہیں۔ فاضل مصنف نے صرف مذکورہ کتابوں کو پڑھ کر ان کے حوالہ نہیں دئیے ہیں بلکہ اپنے علمی و فکری استعداد اور تنقیدی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے ان کی جانچ و تخمین بھی کی ہے۔ فاضل مصنف کتاب کے دیباچہ میں رقمطراز ہیں کہ کوئی بھی ثقافت تسلسل کے بغیر اپنی پیوستگی اور استواری برقرار نہیں رکھ سکتی۔ تسلسل جوکہ جغرافیائی بھی ہوسکتا ہے اور مذہبی بھی، اس وقت تک ثقافتی یکسانیت حاصل نہیں کرسکتا جب تک لوگ بنیادی اقدار سے متاثر ہو کر زندگی کا قرینہ یا سلیقہ حاصل نہ کرلیں۔
باب اول میں فاضل مصنف نے کتاب کا تعارف پیش کرتے ہوئے کتاب کا اجمالی خاکہ، ابواب کا مختصر جائزہ اور ترتیب و ساخت بیان کی ہے۔ اس باب میں ثقافت کی رسمی تعریفات بیان کی گئی ہیں اور قومی شناخت کے حوالہ سے اظہار خیال کیا گیا ہے۔ مذکورہ باب میں ثقافت اور قومی شناخت کے بنیادی مباحث کی وضاحت کی گئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ حقیقی طور پر بلوچ قومی شناخت کی صورت گری قرونِ وسطیٰ کے ابتدائی دور میں اس وقت ہوئی جب ایرانی سطح مرتفع (موجودہ ایران، افغانستان، پاکستان) میں سماجی اور سیاسی ہنگامہ خیزی عروج پر تھی۔
وہ لکھتے ہیں کہ پوری تاریخ میں ثقافتی ورثہ ہی بلوچ کے لیے بقاء کی بنیاد ہے۔ باب دوم میں مصنف نے بلوچوں کے نسلیاتی ماخذ کے حوالہ سے مختلف نظریات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ تاریخی اور انتھروپولوجیکل دستاویزات کی کمی یا عدم دستیابی کے باعث بلوچ بحیثیت ایک نسلی گروہ قیاس آرائیوں کا موضوع رہا ہے۔ بلوچ بحیثیت موجودہ بلوچستان کے مقامی باشندے، بلوچ بحیثیت سامی النسل، بلوچ بحیثیت وسطی ایشیائی قبیلہ جنہوں نے تین ہزار سال قبل ہجرت کی اور ایرانی سطح مرتفع میں آباد ہوئے۔
ہمیشہ سے یہ موضوعات اور نکات علمی مباحث کا مرکز رہے ہیں۔ مصنف اس بارے میں اعتراف کرتے ہیں کہ بلوچوں کے نسلیاتی ماخذ کے حوالے سے مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ مختلف اسکالرز کی طرف سے انہیں سامی،آریا، ترک، ایرانی اور آشوری کہا گیا ہے لیکن فاضل مصنف بلوچوں کے سامی النسل ہونے کے نظریے اور دعویٰ کو رد کرتے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ بلوچ آریا نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا اصل علاقہ یا گھر بحرہ قزوین /بحرہ خزر ( Sea Caspian) کا خطہ ہے۔ (واضح رہے کہ مذکورہ خطہ ایران، آذر بائیجان، ترکمانستان اور روس وغیرہ پر مشتمل ہے جوکہ وسطی ایشیائی ممالک ہیں)۔ مصنف لکھتے ہیں کہ بلوچوں کو اپنا سیاسی، سماجی اور مذہبی نظام اپنے آریائی آباد و اجداد سے ورثہ میں ملا ہے۔ آریاؤں کی طرح بلوچ سماج کی بنیادیں بھی قبائلیت پر تھیں۔ فاضل مصنف بلوچی زبان کو آریائی زبان قرار دیتے ہیں اور بلوچی زبان کی آریائی شناخت پر اصرار کرتے ہیں۔
ان کا استدلال ہے کہ لسانی، ثقافتی اور جغرافیائی عوامل اس بات کا پختہ ثبوت ہیں کہ بلوچ ان مہاجر قبائل کا حصہ تھے جو انڈو۔یورپین (آریائی) زبان بولتے تھے۔ مصنف نے بلوچی اور سنسکرت زبانوں کے باہمی تعلق اور رشتے کو بیان کرنے کے لیے دونوں زبانوں کے ایسے درجنوں الفاظ کی فہرست (انگریزی ترجمے کے ساتھ) بطور ثبوت کتاب میں شامل کی ہے جو یکساں تلفظ کے ساتھ ہم معنی ہیں۔ مذکورہ باب میں بلوچ کون ہے؟ اور بلوچ ہونے سے کیا مراد ہے؟ جیسے سوالات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس باب میں مصنف نسل اور قوم کی مختلف تعریفوں کے ساتھ ان کے فرق کو بھی بیان کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ لفظ ’’بلوچ‘‘ کی وجہ تسمیہ اور معنی و مفاہیم کے حوالے سے بھی مختلف تعریفات اور نظریات بیان کیے گئے ہیں۔
فاضل مصنف لفظ بلوچ کو سنسکرت زبان کے الفاظ ”بل” (Bal) اور ”اوچ” (Och) سے اخذ شدہ سمجھتے ہیں۔ بل کے معنی طاقت اور توانائی جبکہ اوچ کے معنی بلند یا طاقتور کے ہیں۔ آگے چل کر مصنف دیگر حوالوں سے لفظ بلوچ کے معنی ”مرغ کی کلغی” بیان کرتے ہیں۔ بہرحال تحقیق میں کوئی بھی چیز حرفِ آخر نہیں ہوتی۔ کوئی بھی ازخود فاضل مصنف کے دلائل کی صحت یا عدم صحت کی تاریخی حوالوں سے کھوج کرسکتا ہے اور ان کی تحقیق سے اختلاف کرسکتا ہے۔ علمی دنیا میں تاریخی حوالوں سے یہ اختلافی مباحث چلتے رہتے ہیں۔ میری دانست میں ”خالص نسل ” اور ”خالص خون ” جیسے نظریات جدید اور سائنسی تحقیق کی روشنی میں اپنی اہمیت کھوتے جا رہے ہیں۔ جدید دنیا میں نسلی اور قومی برتری کے سماجی اور تہذیبی پہلوؤں کو مثبت انداز میں نہیں دیکھا جاتا۔ باب سوم میں مصنف کہتے ہیں کہ ثقافت خود کو تاریخ، فلسفہ، زبان اور ادب میں ظاہر کرتی ہے۔
اس کی جڑیں رسم و رواج، اقدار، روایات، طرزِ عمل، طریقہ کار، ادارہ جات، عقائد و رسومات، پسندیدگی اور ناپسندیدگی میں پیوست ہیں۔ مصنف اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ثقافتی وجود کے بغیر سیاسی وجود اور قومی شناخت ناقابل تصور ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ثقافتی شخصیت اور اس کا تاریخی وجود یا جوہر ہی ہوتا ہے جو عوام کے سیاسی خیالات کو جنم دیتے ہیں۔ فاضل مصنف اپنی کتاب میں مختلف حوالہ جات سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ بلوچ ثقافت و اقدار کے متعلق ایک مقصد کے تحت ان لوگوں کی جانب سے بددیانتی پر مبنی تجزیہ کیا جاتا رہا ہے جوبلوچوں کے ساتھ تنازعات میں ملوث تھے۔ مصنف کے بقول ان (بلوچوں) کے سماجی۔سیاسی ادارے جن کی بنیاد زیادہ تر قبائلیت پر تھی بہت سے لوگوں کی طرح اپنے سماجی۔
معاشی ترقی کے عبوری دور میں تھے مخالفین کا ہدف تھے۔ بلوچوں کے ماضی کے سیاسی نظام کو ایک مستقل لعنت کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ ریاست قلات کے بلوچ اتحاد کی تاریخ کو سازشوں، جھگڑوں اور قبائلی رقابتوں کی تاریخ قرار دیا گیا ہے۔ اس پورے دورِ حکومت کو انارکیت اور میکاویلین طرزِ حکومت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ بلوچ سماج کے ایک بہت بڑے حصے یعنی براہوئی بولنے والوں کو دراوڑ کہہ کران کی ثقافت کو دیگر بلوچوں کے مقابلے میں کمتر ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ قلات پر خان کی حکمرانی کو بلوچوں پر براہوئی حکمرانی سے تشبیہہ دی گئی اور یہ بھی کہا گیا کہ خان کی حکومت میں براہوئی دیگر بلوچوں کے مقابلے میں زیادہ مراعات حاصل کررہے تھے۔
مصنف کہتے ہیں کہ بلوچ تاریخ و ثقافت کے حوالے سے یہ تمام باتیں غلط بیانی پر مشتمل تھیں۔ ان کا مقصد بلوچ قوم کی توہین کرکے ان کے کردار کو گھٹانا اور مختلف قبائل کے درمیان اختلاف کے بیج بونا تھا۔ مصنف سے جزوی اتفاق کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یقینا مختلف عناصر کی طرف سے اس طرح کی باتیں کی جاتی رہی ہونگی لیکن بلوچستان میں قبائلی جھگڑوں اور جنگوں کو سرے سے رد نہیں کیا جاسکتا۔ نیز قلات کے حکمرانوں کو بھی کلین چٹ نہیں دی جاسکتی۔ میر چاکرو گہرام کی تیس سالہ طویل جنگ جس نے بلوچ سماج کے تاروپود بکھیر دئیے اس بات سے ہر بلوچ واقف ہے۔ خان قلات میر نصیر خان نوری کی جانب سے مذہبی پردے کی آڑ میں ریاست مکران پر حملہ اور حاکم مکران ملک دینار خان گچکی اور ہزاروں ذکری بلوچوں کا قتل عام قلات کی خانیت پر ایک سیاہ داغ ہے۔
مکران کو فتح کرنے اور ذکریوں کے قتل عام کا کوئی مذہبی جواز نہیں تھا بلکہ مقصد صرف یہ تھا کہ خان کے اختیارات اور حکمرانی کو وسیع کیا جاسکے۔ خلیج فارس میں خان کے معاشی، تجارتی اور عسکری مفادات کا تحفظ کیا جاسکے۔ مکران پر قبضہ کرنے کے بعد ریاست قلات کی زیادہ تر آمدنی مکران سے ہی حاصل ہوتی تھی۔ حیرت کی بات ہے کہ خان قلات کے خاندان کے کسی فرد نے جو خود کو اب تک بلوچوں کا سربراہ سمجھتے ہیں ذکریوں کے قتل عام پر عوامی سطح پر آج تک معافی ( Apology Public) نہیں مانگی۔ مذکورہ باب میں مصنف بلوچوں کے اخلاقی فلسفہ کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بلوچ اچھائی اور برائی کو اپنے سماجی اقدار کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ ایک بلوچ سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ انفرادی اور اجتماعی زندگی قبائلی ضابطہ اخلاق کے تحت گزارے گا۔ کوئی بھی رسم و رواج کی معقولیت اور ضرورت کو چیلنج نہیں کرے گا۔
اس باب میں بلوچی رسم و رواج، زیورات، موسیقی، سپت، نازینک، زہیرک، سانگ بندی، لب، بلوچی حال، مستاگی،بجاری، ذات پات کا نظام، غلامی، ڈومب / لوڑی، خواتین کی حیثیت اور ذمہ داریاں، شادی، طلاق، وراثت، مہمان نوازی، لج ومعیار، عہد و پیماں اور باہوٹ کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔ باب کے آخر میں جنگی ہیروز کی عظمت، بلوچ سماج میں ان کی عزت و تکریم، جنگی اخلاقیات اور مشہور بلوچ جنگجوؤں کے قصے بیان کیے گئے ہیں۔ باب چہارم میں مصنف بلوچ سماج میں مذہب و عقائد کے سلسلے آغاز و ارتقاء اور مذہبی نظریات کی تشکیل و بنیاد کا جائزہ لیتے ہیں۔ وہ اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ بدھ مت اور ہندومت کے اثرات کی موجودگی بلوچستان میں واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ چھٹی صدی عیسوی میں جب لسبیلہ سندھ کا حصہ تھا تب ایک بدھ مذہبی پیشوا لسبیلہ کا حاکم تھا۔
اس طرح انہوں نے بلوچستان میں آریائی، یونانی اور زرتشتی اثرات کا بھی جائزہ لیا ہے کہ کس طرح مذکورہ عقائد و نظریات بلوچوں کی خاندانی، سماجی، قبائلی اور تہذیبی زندگی میں شامل تھے۔ اس باب میں بلوچ سماج میں جنوں، پریوں، جادوٹونہ، بدروحوں اور توہم پرستی کے حوالے سے خیالات کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ باب پنجم میں مصنف بلوچ سیاسی نظام کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بلوچ سیاسی نظام کی بنیاد قبائلیت پر تھی۔ اس کے سیاسی نظام کی نوعیت کس بھی حوالے سے مذہبی نہ تھی۔ تمام آبادی قبائلی سردار کے ماتحت ایک مرکزی سیاسی اکائی کی صورت میں تھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ ابتدائی بلوچوں کا سیاسی، معاشی اور سماجی مرکز قبیلہ ہی تھا۔
اس باب میں مصنف نے قبائلی یونین، قبائل کی تنظیم، سردار اور سرداری بحیثیت ادارہ، قبائلی کونسل،قبائل کا معاشی نظام، فوجی نظام اور عدالتی نظام پر روشنی ڈالی ہے۔ غرض کہ اس کتاب میں بلوچوں کی جسمانی ساخت اور حیاتیاتی نمو سے لے کر لسانی، ادبی، فنی، مذہبی، ثقافتی، جغرافیائی، سماجی، نفسیاتی، دیومالائی، تاریخی، قبائلی اور نسلیاتی لحاظ سے ہر پہلو کو بہت ہی جامع اور مستند انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ کتاب کا اردو میں ترجمہ کیا جائے تو قارئین کی ایک بہت بڑی تعداد کتاب سے فیضیاب ہوسکتی ہے۔