|

وقتِ اشاعت :   March 16 – 2015

یورپی یونین کے سفیر نے حال ہی میں کوئٹہ کا دو روزہ دورہ کیا اور بلوچستان سے متعلق تازہ ترین صورت حال سے آگاہی حاصل کی۔ اس دوران زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ملاقاتیں کیں، ان میں سیاستدان ‘ سرکاری افسران اور سینئر صحافی بھی شامل تھے ۔ ان کی ملاقات سردار اختر مینگل بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر کے علاوہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ بلوچستان سے بھی ہوئی ’ وزیراعلیٰ سے ملاقات میں اعلیٰ ترین سرکاری افسران موجود تھے ۔ بات چیت کے دوران وزیراعلیٰ نے یورپی سفیر سے بلوچستان میں ڈیمز تعمیر کرنے کیلئے یورپی یونین کی مدد کی درخواست کی ۔ اس سے قبل سفیر نے وزیراعلیٰ اور دوسرے لوگوں کو بتایا کہ یورپین یونین تعلیم کے شعبے خصوصاً سرکاری اسکولوں کی بہتری اور ترقی میں دل چسپی رکھتی ہے ۔ اس کے لئے ایک خطیر رقم یونین نے پہلے ہی مختص کی ہے ۔جو صرف اور صرف سرکاری اسکولوں میں تعلیم و تربیت کو بہتر بنانے میں استعمال ہوگی ۔ اس سے قبل دنیا بھر کے لوگ بلوچستان میں تعلیم کی سہولیات نہ ہونے پر حیران رہ گئے تھے جن میں یورپی یونین کے سفارت کار بھی شامل تھے ۔ اس سے قبل یورپی یونین نے دیہی ترقی پر ایک خطیر رقم خرچ کر چکی ہے اور یونین نے بی آر ایس پی کے دیہی ترقیاتی اسکیموں پر سرمایہ کاری کی ہے جس کو عوام الناس نے بے حد سراہا ہے ۔ اس بار یونین سرکاری اسکولوں میں معیار تعلیم کو بلند کرنے اور بہتر تعلیم و تربیت پر کئی ملین یورو خرچ کرے گی جس کا مقصد سرکاری اسکولوں میں معیار تعلیم کو بلند کرنا ہے ۔ ادھر وزیراعلیٰ مالک بلوچ کا خیال ہے کہ زرعی ترقی زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ بھوک ‘ افلاس ‘ بے روزگاری قحط سالی کا مقابلہ کر سکتی ہے لہذا زرعی ترقی کو بلوچستان میں اولیت دی جارہی ہے ۔ سرکاری اور غیر سرکاری اطلاعات کے مطابق بلوچستان میں دو کروڑ ایکڑ اعلیٰ اور زرخیز زمین صرف پانی نہ ہونے کی وجہ سے بے کار اور بنجر پڑی ہوئی ہے ۔ اس کو زیر کاشت لایا جا سکتا ہے ۔ اگر اتنی بڑی اور زرخیز زمین کو بلوچستان میں زیر کاشت لایا گیا تو اس سے پورے خطے میں ایک زرعی انقلاب آسکتا ہے ۔ پانی کے ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہ ہونے اور ڈیمز کی غیر موجودگی میں ایک کروڑ مکعب فٹ سیلابی پانی ساحل بلوچ میں بغیر کسی رکاوٹ کے ضائع ہوجاتا ہے ۔ بلوچستان میں ہزاروں کی تعداد میں موسمی دریا ‘ ندی نالے موجود ہیں جو سیلابی پانی کو سمندر میں لے جاتے ہیں ۔ ان پر چھوٹے بڑے اور درمیانے سائے کے ڈیمز اور بندات تعمیر کیے جا سکتے ہیں ۔ ایک کروڑ مکعب فٹ سیلابی پانی سے زمینوں کو زیر کاشت لایا جا سکتا ہے ۔ یہ زمین بلوچستان کے پانچ موسمی علاقوں میں موجود ہیں جو انتہائی زرخیز زمین ہیں جہاں دو سے تین فصلوں سے ڈیمز پر اخراجات اور پانی کے چینل کے اخراجات واپس حاصل کیے جا سکتے ہیں دو کروڑ ایکڑ زمین سے ہر طرح کی فصلیں اور پھل حاصل کیے جا سکتے ہیں اس سے پورے خطے کی خوراک کی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں بلوچستان پورے خطے کا Food and Fruit Basket بن جائے گا۔ اس سے ایران ‘ افغانستان اور بعض وسطی ایشیائی ممالک کی خوراک اور پھلوں کی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں ۔ بلکہ پورا گلف بلوچستان کا محتاج رہے گا۔ اس کے ساتھ گلہ بانی کوبھی فروغ ملے گا۔ یعنی تازہ اور حلال گوشت گلف اور ایران کو سپلائی کیا جا سکتا ہے ۔بلوچستان میں اگر یورپی یونین کی دلچسپی مسلسل طورپر بر قرار رہی تو کوئی وجہ نہیں کہ دو کروڑ ایکڑزرخیز زمین کو زیر کاشت نہ لایا جایا جاسکے۔ یورپی یونین کی سرمایہ کاری کی واپسی صرف اور صرف تین سالوں میں مکمل ہوسکتی ہے ۔ پنجاب پاکستان کا واحد صوبہ ہے جس کے وزیراعلیٰ کے پاس یہ اختیارات ہیں کہ وہ کسی بھی ملک سے تجارتی اور معاشی معاہدے کر سکتاہے ۔ حالیہ سالوں میں انہوں نے چین ‘ ترکی اور دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ معاہدے کیے اور پنجاب کی 33فیصد رقم بیرونی ممالک کی سرمایہ کاری یا قرضہ ہے جبکہ وفاق اور صوبائی حکومت پنجاب کے ترقی پر سالانہ ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ سالانہ خرچ کرتے ہیں جبکہ بلوچستان کی صوبائی حکومت صرف چالیس ارب روپے اور وفاق اوسطاً 120ارب روپے خرچ کرتی ہے اسی طرح ملتان ائیر پورٹ کا منصوبہ گزشتہ حکومت نے شروع کیا تھا اور موجودہ حکومت نے مکمل کر لیا ۔ اس پر وزیراعظم نے اپنی ہی حکومت کی تعریف کی کیونکہ یہ پنجاب کا منصوبہ تھا جو مکمل کیا گیا ۔ اس کے برعکس درجنوں بڑے بڑے منصوبے ہیں جو دہائیوں سے بلوچستان میں مکمل نہ ہوئے ان میں سے ایک کچھی کینال اور گوادر پورٹ اور ائیر پورٹ کے منصوبے شامل ہیں ۔ 1991کے پانی کے بین الصوبائی معاہدے میں بلوچستان کو دس ہزار کیوسک اضافی پانی دیا گیا چونکہ کچھی کینال ابھی تک زیر تعمیر ہے گزشتہ پچیس سالوں سے بلوچستان کو دس ہزار کیوسک کا اضافی پانی نہیں ملا یہ سندھ اورپنجاب نے آپس میں تقسیم کردیا ۔ ابھی بھی کچھی کینال کے اگلے دس سالوں میں مکمل ہونے کے آثار نظر نہیں آتے۔ وجہ یہ لاوارث صوبے کا منصوبہ ہے دس حکومتوں کے بعد بھی یہ مکمل نہیں ہوا ۔