|

وقتِ اشاعت :   June 12 – 2021

بلوچستان کا نام سنتے ہی قدرتی ذخائر، بے شمار پہاڑی سلسلے، چشمہ و کاریزات اور دیگر انعاماتِ خداوندی کا تصور ذہن میں گونجنے لگتی ہے کہ یہ سرزمین خدا کی خاص خصوصی نظر کرم اور مہربانیوں کا گہوارہ ہے۔ جہاں یہ سرزمین زیر زمین ہزاروں ذخائرِ معدنیات و قیمتی اشیاء سے مالامال ہے تو دوسری طرف محل و وقوع کے اعتبار سے تین ملکوں سے ملنے والی ایک ایسا خطہ بھی ہے جہاں ملک کے سمندری حدود اور آبی بندرگاہیں وقوع پذیر ہے۔

یہی نہیں بلکہ یہاں پہ بسنے والے لوگوں کا اس دھرتی سے لگاؤ کا ایک بہت بڑی وجہ یہاں موجود سیاحتی و تاریخی مقامات بھی ہے کہ اگر بلوچستان میں سیر و سیاحت کی بات کی جائے تو ناجانے کیوں بہت ہی کم لوگوں کی نظر اس سر زمین پر بسنے والے لوگوں اور جگہوں پر آ ٹھرتی ہیں مگر زمین پر جنت کی مثل ڈھونڈنا چاہو تو بلوچستان سے بڑھ کر شاید ہی کہی مل جائے مگر لوگوں کو متوجہ کرنے کیلئے حکومتی تعمیراتی کام کی حد درجہ کمی اور ان تاریخی و سیاحتی مقامات کو دنیا کے سامنے عیاں کرنے کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہیں۔ اسی کام کا آغاز کرنے کا تہیہ شاید میں مختلف اقساط میں کرچکا ہوں تاکہ بلوچستان میں پائے جانے والے پہاڑی سلسلے، میدانی علاقے، صحرا و بیابان جو اپنے سینے پہ تنہا چلنے والے مسافروں کو صدیوں کے داستان سنارہے ہوتے ہیں جن پر سفر کر کے اکتاہٹ نہیں بلکہ تاریخی دریچوں میں گھوم کر انسانی ذہن پر ع کے نئے دروازے کھلنا شروع یوجائینگے۔

انکے علاوہ سمندر و دریاؤں کے ساتھ ساتھ تاریخی مقبرے اور مقامات کا ذکر کیا جائیگا جس سے سیاحوں کی آمد کا قوی امکان ہے۔ دریں اثناء حکومتی ترقیاتی کام سے ان مقامات پر مثبت اثرات کی ایک بہترین مثال مکران کوسٹل ہائی وے کا 2004 میں تعمیر تھی جس نے دور سے نا سہی مگر بلوچستان اور سندھ کے لوگوں کیلے قدرتی نظاروں کا آنکھوں دیکھے حال دیکھنے کا ایک موقع فراہم کر ہی دیا جہاں ہنگول نیشنل پارک کی طویل مگر خوبصورت اور دلکش مناظر کہ جس پارک کو 1988 میں ملک کے قومی پارک کا درجہ دیا جاچکا ہے جو اپنے خوبصورتی کے ساتھ ساتھ بہت سے اعلٰی اور نمایاں خصوصیات کی وجہ سے بے مثال واقع ہوا ہے۔ کراچی یونیورسٹی کی ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق یہاں مختلف جانوروں کی ناپید اسپیشیز پائے جاتے ہیں جن میں ہرن، مچھلی مگرمچھ اور دنیا بھر سے ہجرت کرکے آنے والے پرندوں کی سینکڑوں نایاب اقسام اور نباتات بھی قابل ذکر ہے۔

یہی پارک اندازاً 19600 رقبے کے ساتھ بلوچستان کے تین اضلاع میں پھیلا ہوا پاکستان کے بڑے پارکوں میں شامل ہوتی ہے جس کے حدود میں کنڈ ملیر کے ساحل کی دلکش اور دل میں گر کرنے والی مناظر جسکو 2018 میں ایشیاء کی خوبصورت ترین ساحلوں میں شامل کرلیا گیا اور اسی سے ملحق ساحل گولڈن بیچ جو بین الاقوامی سطح پر ایک خاص مقام رکھتا ہے سے منہ پھیرنا قدرت کی کرشموں کے ساتھ ناانصافی کے ہوگی۔ حیران کرنے والی بات ہے کہ اتنی دلکش اور پر کیف قدرتی رنگوں نے بیرون ملک سے آنے والے سیاحوں کو بلوچستان پر متوجہ کرنے میں ناکام کیوں رہیں کہ جہاں بزی ٹاپ اور “پرنسز آف ہوپ” یا “امید کی شہزادی” جیسے بے مثل و بے مثال کھڑی مجسمہ جو انسانی ہاتھوں کا نہیں بلکہ ہواؤں اور قدرتی تدابیر کا ایک تعمیری حصہ ہے۔ یاد رہے پرنسز آف ہوپ کا نام معروف ہالی وڈ اداکارہ “انجلینا جولی” نے 2004 میں اپنی غیر سگالی مشن کی دورے کے موقع پر رکھا اور ان سے پہلے یہ مجسمہ صدیوں سے یہی کھڑی نظروں سے اوجھل ہوتی رہی ہے جس طرح کیچ، پسنی اورماڑہ اور گوادر میں پا? جانے والے تاریخی و تفریحی مقامات سے اکثر لوگ ناواقف ہیں جہاں گوادر کی آنکھوں میں سما جانے والی گہری اور نیلی سمندر کا اپنا معیار اور معرفت ہے تو وہی اْن جیسے کہی مفید اور نایاب مقامات بھی موجود ہے۔

لسبیلہ میں موجود ہنگول نیشنل پارک میں ایک انوکھی چیز دو ہزار برس پرانی تاریخی مندر “ہنگلاج مندر” ہے جہاں ہر سال بلوچستان اور سندھ سے ہندوں اپنے مخصوص پوجھا پاٹ کیلئے تشریف لاتے ہیں، کہاں جاتا ہیں کہ چند برس پہلے بھارت سے لوگ آکر اس مندر کی زیارت کیا کرتے تھیں مگر اب شاید یہ ان کیل? نا ممکن ہوتا دکھائی دیتا ہے اور باہر سے آنے والوں کی آمد یہاں رکی پڑی ہے جنکی مزہبی رسومات ہنگلاج مندر کے علاوہ وہاں سے چند میل دور میانی ہور کے علاقے میں موجود 800- 1500 اونچی مٹی فشاں (Mud volcano’s) پہاڑ کے بغیر ادھورے رہینگے جنکی تعداد مختلف لوگ مختلف بتاتے چلے آرہے مگر بغیر سڑک اور شناسائی کے وہاں پہنچنا اور انکی صحیح تعداد بتلانا ناممکنات میں سے ہیں۔

افسوس کا عالم یہ کہ وہی مٹی فشاں سالہا سال مٹی ابھرنے کا ہنر جان کر بھی سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں ناکام رہے ہیں. حکومتی ارکان سیاحوں کی آمد کے فوائد سے باخبر تو نہیں کہ جن سے صرف بلوچستان کے لوگوں پر نہیں بلکہ پورے ملک کے جی-ڈی-پی پر بھی مثبت اثرات ہونگے مگر ان خزانوں تک رسائی ممکن نا ہونا اور لوگوں میں خوف و ہراس پھیلا کر روکنا تعجب کی بات ہے۔ چند روز قبل یونیسکو (Unesco) کی سیر و سیاحت کے حوالے سے پوسٹ *”ترقی پذیر ممالک کیلئے سیاحت کا موقع فراہم کرنے کا مطلب اپنے ثقافت اور معیشت کا فروغ”* دیکھ کر شدید افسوس کا احساس ہونے لگا کہ ہمارے پاس جہاں مکران کے اندر سیاحتی مقامات ہے تو وہی لسبیلہ اوتھل میں سَسی پْنوں جنکی عشقیہ داستان ہر زبان پر عام ہے کے تاریخی مقبروں کے ساتھ ساتھ کراڑی کے دلکش مناظر، مہینوں بہنے والا پانی جو مٹھاس اور ٹھنڈک میں اپنا ثانی نہیں رکھتا اور ان جیسے کہی مقامات ہماری نظروں سے دور اس لیئے بھی ہے کہ وہاں تک پہنچنا سڑک اور حکومتی توجہ کے نا ہونے کی وجہ سے دشوار گزار ہے۔

لسبیلہ میں موجود ہنگول نیشنل پارک میں ایک انوکھی چیز دو ہزار برس پرانی تاریخی مندر “ہنگلاج مندر” ہے جہاں ہر سال بلوچستان اور سندھ سے ہندوں اپنے مخصوص پوجھا پاٹ کیلئے تشریف لاتے ہیں، کہاں جاتا ہیں کہ چند برس پہلے بھارت سے لوگ آکر اس مندر کی زیارت کیا کرتے تھیں مگر اب شاید یہ ان کیلئے نا ممکن ہوتا دکھائی دیتا ہے اور باہر سے آنے والوں کی آمد یہاں رکی پڑی ہے جنکی مزہبی رسومات ہنگلاج مندر کے علاوہ وہاں سے چند میل دور میانی ہور کے علاقے میں موجود 800- 1500 اونچی مٹی فشاں (Mud volcano’s) پہاڑ کے بغیر ادھورے رہیں گے جنکی تعداد مختلف لوگ مختلف بتاتے چلے آرہے مگر بغیر سڑک اور شناسائی کے وہاں پہنچنا اور انکی صحیح تعداد بتلانا ناممکنات میں سے ہیں۔

افسوس کا عالم یہ ہے کہ وہی مٹی فشاں سالہا سال مٹی ابھرنے کا ہنر جان کر بھی سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں ناکام رہے ہیں. حکومتی ارکان سیاحوں کی آمد کے فوائد سے باخبر تو نہیں کہ جن سے صرف بلوچستان کے لوگوں پر نہیں بلکہ پورے ملک کے معیشت پر بھی مثبت اثرات ہونگے مگر ان خزانوں تک رسائی ممکن نا ہونا اور لوگوں میں خوف و ہراس پھیلا کر روکنا تعجب کی بات ہے۔ چند روز قبل یونیسکو (Unesco) کی سیر و سیاحت کے حوالے سے پوسٹ *”ترقی پذیر ممالک کیلئے سیاحت کا موقع فراہم کرنے کا مطلب اپنے ثقافت اور معیشت کا فروغ” دیکھ کر شدید افسوس کا احساس ہونے لگا کہ ہمارے پاس جہاں مکران کے اندر سیاحتی مقامات ہے تو وہی لسبیلہ اوتھل میں سَسی پْنوں (جنکی عشقیہ داستان ہر زبان پر عام ہے) کے تاریخی مقبروں کے ساتھ ساتھ کراڑی کے دلکش مناظر، مہینوں بہنے والا پانی جو مٹھاس اور ٹھنڈک میں اپنا ثانی نہیں رکھتا اور ان جیسے کہی مقامات ہماری نظروں سے اوجھل اس لیئے بھی ہے کہ وہاں تک پہنچنا سڑک اور حکومتی توجہ کے نا ہونے کی وجہ سے دشوار گزار ہے۔

اگر چھپن چھپی کا یہ کھیل نہ کھیلا جاتا اور بلوچستان کی سرزمیں، اس میں بسنے والے قدرت کے حسن و رنگینیوں اور مسائل کو دنیا کے سامنے لانے کا تہیہ کیا جاتا تو اب تک بیلہ میں پائے جانے والے جنرل ہارون (محمد بن قاسم کے دستِ راست) کی تاریخی مقبرہ، برطانوی جنرل رابرٹ سنڈیمن کی یاد گاریں، اور بالخصوص شیرین و فرہاد کے دل دہلا دینے والی داستان کو سننے کے ساتھ انکے مقبروں کو اب تک اہرام مصر کی طرح ہر آنکھ نے دیکھا ہوتا۔ مصر تو مصر ہے مگر میرا بلوچستان بھی کچھ کم نہیں جس کو زمین پر جنت کی مثل اور سکون کا گہوارہ کہنا غلط نہیں ہوگا۔

یوں ہی جھالاوان خضدار سے قریباً 65 کلو میٹر دور مولا کے علاقے میں پایا جانے والا آبشار جسے چٹوک کہا جاتا ہے۔ سیاحوں کا ان جیسے دلفریب اور خوبصورت جگہوں سے بے خبر رہنا تعاجب کی بات ہے۔ یہی نہیں بلکہ زیدی، ساسول، چارو مچھی کی ٹھنڈی آبشار، پیر عمر، پیر ابرھیم، اور بہت سے ایسے جگہیں موجود ہیں جو اپنے اصل میں جنت کے مانند انسانی عقل کو محسور کرنے والے ہیں! سوال پیدا ہونے لگتا ہے کہ سیاح پاکستانی ہو یا غیر ملکی، کہی ڈالرز خرچ کرکے دنیا بھر کا چکر لگانے کو تیار مستعد کھڑے ہیں تو وہی سیاح بلوچستان میں پائے جانے والے ان مقامات تک آنے کو زحمت کیوں نہیں کرتے جہاں کوہِ ہربوئی کی سینہ تانے کھڑا پہاڑ، گرمیوں میں بھی چشموں سے ٹھنڈی، میٹھی پانی اور کپکپی پیدا کرنے والی ہوائیں انسانی روح کو سکون بخشتے ہیں۔ تو وہی گردو نواں میں گیڑھ بست، پندران، نیمرغ، توک اور قلعہِ میری کی تاریخی ملبہ ہے جو اپنے زمانے کی سب سے بڑی عمارت ہونے کا شرف پاکر غالباً ہزار کمروں پر محیط ہوا کرتا تھا۔ انہیں نایاب تاریخی اور یادگار جگہوں پہ پکنک منانے کا اپنا الگ ہی رنگ رلیاں ہیں مگر خواہشِ ناتمام! سیاحوں کو بھلا کون ان دلکش قدرتی نظاروں اور ایک مظلوم قوم تک پہنچنے دیگا ورنہ اس سرزمین میں جتنے سیاحتی مقامات ہیں تو اتنے ہی تاریخی اور ماضی سے جڑے قلعے، جگہیں پا? جاتے ہیں۔

بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ اور گردونواں میں قدرت کے حسن و رنگوں کی بات کی جائے تو ہر خاص و عام کے چہریں پر خنک چاندنی بکھیرنے کیلے بس اتنا کافی ہوگا کہ انہیں 1980 میں نیشنل پارک کا درجہ پانے والی چلتن پارک کی سیر کروائی جا? جو قدرت کے حسن کا ایک شہکار پہاڑی سلسلہ ہے جسکی ایک جھلک دیکھنے سے ہر زبان زد عام پر عش عش طاری ہونے لگتی ہے۔ وہی ارد گرد ہنا جھیل، بی بی نانی، باسن دیر، خرواری بابا پری جل اور پیر غیب کے مدہوش کرنے والے آبشاراور خوبصورت مناظر دکھائے جائے کہ جن کو دیکھ کر مؤرخ بھی اس سرزمین کو جنت کی بمصداق سرزمین قرار دینے پہ مجبور ہو۔ سب سے بڑھ کر بابائے قوم، بانیِ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کی آخری جائے گزار جہاں انہوں نے اس قوم کو ایک آزاد ریاست سے نوازہ تو وہی اپنے آخری ایام میں زیارت میں رہہ کر یہ تاریخ بھی رقم کردی کہ بلوچستان کی آب و ہوا سے بڑھ کچھ نہیں۔ جہاں زیارت میں پائے جانے والے گنے جنگلات کے بیچو بیچ قائد ریزیڈینسی، کیڈٹ کالج اور دل میں سماں جانے والے سرد اور جگنوؤئی چاندنی راتوں کا سیاحوں کو متوجہ نا کرنا اس سرزمین کو نظر انداز کرنے کے منہ بولتا ثبوت ہے۔