پاکستان کے وجود آنے کے بعد بلوچستان کی تاریخ ہمیشہ سے غیر مستحکم ہی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے کسی اور صوبے میں جب لوگ بلوچستان کا نام سنتے ہیں تو ان کے ذہن میں صوبے کا جو خاکہ بنتا ہے وہ بھی یقینا بد امنیکاہوگا۔ مختلف سیاسی افراتفریوں کے باعث یہ صوبہ پسماندہ ہی رہا۔ بلوچستان عوامی پارٹی نے جب موجودہ وزیر اعلیٰ جام کمال خان کی سربراہی میں بلوچستان حکومت کی بھاگ دوڑ سنبھالی تب بھی لوگوں کی امیدیں اس پارٹی کو لیکر حوصلہ افزاء نہیں تھیں لیکن اس حکومت نے مختصر عرصے میں وہ کارکردگی دکھائی جسے دیکھ کر عوام کے ذہن پارٹی سے متعلق غلط فہمیوں سے نکل گئے۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا تقریباً 44 فیصد ہے اس لیے باقی صوبوں کی نسبت یہاں ترقیاتی کام ہمیشہ ہی کم نظر آتے ہیں۔اس صوبے کی بدقسمتی دیکھیں کہ صوبائی دارالحکومت بھی 70 سالہ تاریخ میں غیر ترقی یافتہ شہر دکھائی دیتا تھا تاہم بلوچستان عوامی پارٹی کی حکومت کے بعد کوئٹہ کے شہری پہلی بار ترقی کے مناظر دیکھ رہے ہیں کہ ان کا شہر بدل رہا ہے۔
کوئٹہ شہر کا سب سے بڑا اور مرکزی روڈ سریاب روڈ کی یہ حالت تھی کہ جب کوئی بندہ پہلی بار کوئٹہ شہر آتا تو تنگ، ٹوٹی پھوٹی سڑک اجنبیوں کا استقبال کرتی جس سے اندازہ ہوتا کہ یہ شہر کتنا پسماندہ ہے۔ جام کمال کی سربراہی میں بلوچستان عوامی پارٹی کے نمائندوں کے ترقیاتی جال بچھانے کے بعد پہلی بار سریاب روڈ کی ترقی کا کسی کو خیال آیا۔ سریاب روڈ کی وسعت کا کام تیزی سے جاری ہے جبکہ سریاب سمیت کوئٹہ کے مختلف روڈز جن میں سبزل روڈ، نواں کلی روڈ، موسیٰ کالونی سے مغربی بائی پاس کی جانب لنک روڈ سمت سپورٹس کمپلیکسز کی تعمیرتیزی سے جاری ہے۔ کوئٹہ شہر جسے ماحولیاتی آلودگی کے سبب دنیا کے چند آلودہ شہروں میں شمار کیا جاتا تھا آج میٹروپولیٹن کے اہلکار گھر گھر جاکر کچرا اٹھا کر ٹھکانے لگاتے ہیں جس سے شہر میں گندگی کی صورتحال میں کافی کمی دیکھی جارہی ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کی حکومت شہر کے سیاحتی پہلو میں بھی کافی دلچسپی لے رہی ہے جس میں چلتن پارک میں جنگلی حیوانات کے تحفظ کے لیے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے جارہے ہیں جبکہ کرخسہ پارک کو بھی فیملی پارک بنانے کے لیے کام جاری ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کے مونال ہوٹل کے طرز پر ہنہ اوڑک میں ایک خوبصورت سیاحتی مقام پر کام تیزی سے جاری ہے جہاں سے رات کے وقت کوئٹہ شہر کی خوبصورتی کو دیکھنے کے لیے سیاحوں کو موقع ملے گا جس سے سیاحت کو بھی فروغ ملے گا۔
وزیر اعلیٰ سمیت بلوچستان عوامی پارٹی کے نمائندوں کی ذاتی دلچسپی کے باعث بلوچستان کا بدنام زمانہ کوئٹہ کراچی روڈ جسے خونی روڈ بھی کہا جاتا ہے پر حادثوں کی کمی کے لیے مسافر بسوں میں ٹریکر نصب کئے جارہے ہیں جبکہ اس روڈ کو وسیع کرنے کے لیے باقاعدہ فنڈز بھی منظور کیے جاچکے ہیں۔ جس سے حادثات میں نمایاں کمی ہوگی۔
بلوچستان میں کینسر کے کیسز میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ یہ ایک مہنگا علاج ہے جس کی سہولت کوئٹہ میں برائے نام ہے اور بلوچستان کے غریب مریض پاکستان کے دیگر شہروں میں علاج کے لیے جانے پر مجبورہیں۔ کینسر ہسپتال کے قیام کے لیے بلوچستان کی مختلف تنظیموں نے آواز اٹھائی اور جدوجہد کی۔ بلوچستان عوامی پارٹی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ جام کمال خان کی سربراہی میں بلوچستان میں کینسر ہسپتال کے باقاعدہ قیام کا آغاز ہوا اور شیخ زید ہسپتال میں کینسر یونٹ بنانے کے لیے کام جاری ہے۔ جس سے بلوچستان کے عوام کا کافی ریلیف ملے گا۔
عالمی وباء کے دوران دنیا بھر میں جس طرح پاکستان کی کارکردگی کو سراہا گیا۔ ویسے ہی پاکستان کے اندر بلوچستان عوامی پارٹی کی کارکردگی کو سراہا گیا۔ صوبائی حکومت کی بہترین حکمت عملی کے سبب عالمی وباء کو صوبے میں پھیلنے سے روکا گیا۔ اس روک تھام کی وجہ سے بلوچستان کے کاروباری طبقہ کو یقینا نقصان کا سامنا کرنا پڑا مگر جان ہے تو جہان ہے!
بلوچستان پبلک سروس کمیشن میں میرٹ کو برقرار رکھنے میں بھی صوبائی حکومت کی کارکردگی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بلوچستان پبلک سروس کمیشن کو سیاسی دباؤ سے آزاد رکھ کر آزادانہ کام کرنے دیا جارہا ہے جس سے ہزاروں قابل امیدوار کامیابی کے ساتھ اپنی قابلیت کے مطابق روزگار پارہے ہیں۔ اگر چہ ماضی کی حکومتوں نے اس ادارے پر کافی دباؤ رکھا۔
بلوچستان ماضی میں خون خرابہ اور دہشتگردی کے سبب ملکی و عالمی میڈیا میں اپنی جگہ بناتا مگر اب سی پیک سمیت ترقیاتی کاموں کی وجہ سے میڈیا میں خبروں کی زینت بن رہا ہے۔بلوچستان کی ستر سالہ محرومیوں کو بلوچستان عوامی پارٹی کی حکومت پانچ سال میں تو ختم نہیں کرسکتی مگر کام کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو بہت جلد بلوچستان کا نقشہ بدل جائے گا۔ بلوچستان میں ترقیاتی کاموں کا جال ایک ایسے وقت میں بچایا گیا جب پاکستان معاشی حوالے سے بدترین وقت سے گزر رہا ہے اور یقینا جوں جوں پاکستان مالی مشکلات سے نکلے گا بلوچستان مزید تیزی سے ترقی کرے گا۔