|

وقتِ اشاعت :   June 13 – 2021

شاعر مشرق علامہ اقبال نے مسلمانوں کیلئے ایک الگ وطن کا خواب دیکھا تھا ان کے اس خواب کو قائداعظم محمد علی جناح کی بے لوث اور جرات مندانہ قیادت نے حقیقت کا روپ دیا۔ ہندوستان میں جب مسلمانوں پر ظلم و ستم بڑھا تو وہاں کے مسلمانوں میں اپنے لیے ایک الگ ملک کے جذبات پروان چڑھنے لگے تھے۔ پاکستان کا قیام دو قومی نظریے کی بنیاد پر عمل میں آیا تھا تاکہ اپنے ملک میں مسلمان آزادی کے ساتھ اور اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ پاکستان میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر کئی مذاہب کے لوگ بھی آباد ہیں اور اسلام مذہبی اقلیتوں کے تخفظ کی مکمل ضمانت دیتا ہے۔

پاکستان میں تمام اقلیتوں کو آئینی حدود میں رہتے ہوئے عبادات کرنے اور مذہبی تہوار منانے کی مکمل آزادی ہے۔ اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے ہر ایک کے حقوق و فرائض کو تفصیل سے بیان اور اس کا تعین کیا ہے۔ قرآن مجید پوری انسانیت کیلئے سر چشمہ ہدایت ہے جس میں ہر معاملے کو کھل کر بیان کیا گیا ہے۔
اسلام دنیا کا پہلااور واحد مذہب ہے جس نے خواتین کو ناصرف تحفظ فراہم کیا بلکہ اسے مکمل حقوق بھی فراہم کیے۔ اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں لڑکی کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا جاتا تھا لیکن اسلام نے عورت کو ماں‘بیٹی‘بیوی اور بہن کے خوبصورت اور مقدس رشتوں میں جوڑا۔

اسلام نے عورت کو جائیداد میں حصہ دار اور با اختیار بنایا لیکن قیام پاکستان سے لے کر آج تک اسلام مخالف قوتیں مختلف لبادے اوڑھ کر اسلامی معاشرے کی ساخت خاص طور پر عورت کے احترام وقار اور عزت کی دھجیاں اڑانے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں حالانکہ اسلام عورت کو صالح معاشرے کا سنگ بنیاد قرار دیتا ہے لیکن نام نہاد سول سوسائٹی کے روپ میں بے راہ روی کی شکار اور اخلاق باختہ خواتین جو خود کو تعلیم یافتہ کہتی ہیں ایک بار پھر عورت کو زمانہ جاہلیت میں واپس لے جانا چاہتی ہیں۔ وہ عورتوں کو جانوروں کی طرح بے لباس کرنے کے درپے ہیں۔ اس مذموم کام کیلئے دور جدید میں سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز کو پروپیگنڈہ ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ بے راہ روی کے شکار مختلف گروپس آزادی کے نام پر مختلف پروگوام منعقد کرتے رہتے ہیں اور انہیں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے ہیں۔ وہ اسلامی معاشرے کی ساکھ اور آبرو کو تباہ کرنے کے در پے ہیں۔ یہ گروپس سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے مخصوص نظریات کا پر چار کرتے ہیں جن میں شعائر اسلام کا مذاق بھی اڑایا جاتا ہے۔

حالیہ چند برسوں میں مغربی دنیا کی تقلید کرتے ہوئے پاکستان میں بھی عورت مارچ کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ مغربی دنیا میں عورت کو ایک حقیر شے زیادہ حیثیت حاصل نہیں ہے اور نہ وہاں رشتوں کی کوئی پاسداری یا احترام ہے۔ گزشتہ دنوں پاکستان میں بھی خود کو اعلیٰ تعلیم یافتہ کہلوانے والی خواتین نے عورت مارچ کے نام پر جو گل کھلائے وہ دنیا کے سامنے عیاں ہیں۔ یہ خواتین اسلام کو قدامت پرست مذہب کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتی ہیں اوریہ پروپیگنڈہ کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ اسلام میں عورت کو کوئی حق اور آزادی حاصل نہیں ہے۔ جبکہ اس کے برعکس اسلام ہی دنیا کا واحد ترقی پسند مذہب ہے۔

نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عورت کو جو عزت و مقام دیا اس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ عورت کو پسند کی شادی سمیت اپنے تمام معاملات میں فیصلے کرنے کا مکمل اختیار ہے۔لڑکی کی رضامندی کے بغیر اس کی جبری شادی نہیں کی جا سکتی۔ لیکن اسلام کی جانب سے دی گئی آزادی شاید ان کو راس نہیں آتی جس کا مظاہرہ عورت مارچ کے ان بینرز اور پوسٹرز سے ہوتا ہے جو ان لڑکیوں اور عورتوں نے اپنے ہاتھوں میں اٹھا رکھے تھے جن کے لباس سے ان کی ستر پوشی بھی مکمل نہیں ہوتی تھی۔ وہ اپنے باپ‘ بھائیوں اور شوہر سے بھی آزادی کے نعرے گلے پھاڑ پھاڑ کر لگا رہی تھیں۔ لڑکیاں بلکہ کچھ معمر خواتین بھی ڈھول کی تھاپ پر سڑکوں پر سرعام ناچ رہی تھیں جبکہ کچھ لڑکیوں کی حرکات انتہائی شرمناک تھیں۔ عورت مارچ کے نام پر حقوق کی باتیں کرنے والی ان خواتین کا اصل مقصد بے حیائی کو عام کرنا‘ خاندانی نظام اور رشتوں کے احترام کو تہہ و بالا کرنا ہے۔ ایسے مظاہروں میں شامل خواتین اور لڑکیاں دراصل مادر پدر آزادی کی خواہاں ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ معاشرہ اور خاندان ان کی بے راہ روی پر کوئی روک ٹوک نہ کرے۔

اگر پاکستان میں تعلیم سمیت کسی بھی شعبے پر نظر دوڑائی جائے یہ بات بالکل عیاں کہ خواتین آجکل تمام شعبوں میں کام کر رہی ہیں اور کئی جگہوں پر ان کو کلیدی حیثیت بھی حاصل ہے۔شعبہ تعلیم طب سائنس ٹیکنالوجی پولیس فوج ائرفورس نیوی کھیل سیاست سمیت بے شمار ایسے شعبے ہیں جن میں عورتیں اپنے فرائض احسن طریقے سے انجام دے رہی ہیں۔ دنیا کی پہلی منتخب خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا تعلق بھی اسلامی ملک پاکستان سے تھا۔ تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں خواتین کو حصول علم سمیت مختلف مسائل کا سامنا ہے لیکن اب دور دراز علاقوں گاؤں دیہات میں بھی لڑکیاں تعلیم حاصل کر کے اپنی صلاحیتوں کو منوا رہی ہیں۔ حال ہی میں خیرپور کی ایک لڑکی نے اپنے ایک یوٹیوب چینل سے حاصل ہونے والی آمدنی سے اپنا گھر بنوایا ہے۔ پاکستانی خواتین دنیا بھر میں مختلف شعبوں میں کام کررہی ہیں۔ اگر عورت مارچ کے نام پر بے حیائی کا پرچار کرنے والی یہ خواتین پسماندہ علاقوں کو خواتین کے مسائل کو اجاگر کرتیں ملازمت اور تعلیم کے زیادہ مواقع کے مطالبات کرتیں تو زیادہ بہتر ہوتا۔

لیکن سول سوسائٹی کے نام پر گمراہی کی شکار ان عورتوں کا اصل مقصد خواتین کو اسلام سے دور کر کے مغربی تہذیب کو فروغ دینا ہے جہاں عورتوں کا سب سے زیادہ استحصال کیا جاتا ہے اگر یہ خواتین مغربی دنیا کے گھریلو تشدد کے واقعات کے اعداد و شمار پر ایک نظر ڈال لیں تو ان کی آنکھیں یقیناً کھل جائیں گی۔ اسلام اور پاکستان نے عورتوں کو مکمل آزادی دی ہے اور اسی آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر یہ مٹھی بھر خواتین سڑکوں پر نکل کر بے حیائی کو عام کرنے کی باتیں کرتی ہیں اگرانہیں آزادی نہ ہوتی تو کیا وہ اس طرح کے شرمناک مظاہرے کر سکتی تھیں۔ یہ خواتین اپنے مذموم مقاصد اور پروپیگنڈے کیلئے چاہے کسی بھی طرح کے پلیٹ فارمز کو استعمال کر لیں یہ پاکستان کی خواتین کو گمراہ اور اسلام سے دور کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گی کیونکہ یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے اور پاکستان کے عوام اس سے بخوبی آگاہ ہیں کہ انہیں اپنے مذہب اور اسلامی اقدار و نظریات کا تحفظ کیسے کرنا ہے۔ مغربی ثقافت کا پرچار کرنے والی ان خواتین کیلئے شاعر مشرق اور فلسفی سر علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائدار ہو گا