|

وقتِ اشاعت :   March 23 – 2015

کوئٹہ (اسٹاف رپورٹر)سانحہ گڈانی کو ایک سال بیت گیا نہ ذمہ داروں کا تعین ہوا اور DNA رپورٹ آئی ورثہ اب بھی اپنے پیاروں کی قبروں کی شناخت کے منتظر ہیں ‘ایک سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ورثاء کومعاوضہ نہیں دیاگیا‘یہ المناک حادثہ ایک سال قبل اسی دن 22مارچ 2014 کے اعلی الصبح گڈانی موڑ کے قریب 2ٹرکوں اور ایک مسافر بس کے درمیان تصادم کے صورت میں پیش آیا تربت سے کراچی آینوالے بدقسمت مسافرکوچ میں دس خواتین و بچوں سمیت 50 مسافر سوار تھے کوچ کے چھت پر ایرانی پیٹرول اور ڈیزل لدا ہوا تھا اور ٹر ک بھی تیل سے لوڈ تھا گاڑیوں کے تصادم کے بعد خوفناک آگ بھڑک اٹھی جس میں 34افراد بری طرح جھلس گئے جھلس جانے والے افراد کی لاشیں ناقابل شناخت ہوگئے تھے لاشوں کو شناخت کیلئے حکومت نے ڈی این اے ٹیسٹ لاہور سے کرانے کا فیصلہ کیا اور 40دن میں ڈی این اے رپوٹ آنے کے بعد لاشوں کو ورثہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھااور جاں بحق افراد کے لاشوں کو امانتاً حب فقیرشیخ گوٹھ کے قبرستان میں دفنایا گیا اور ہمیشہ کی طرح اس واقعہ کے تحقیقات کیلئے کمشنر قلات اکبر حریفال کے سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے 20دنوں میں ذمہ داروں کا تعین کرنا تھا اس واقع میں جاں بحق ہونے والے مسافروں کے اکثریت کا تعلق وزیراعلی بلوچستان کے علاقہ تربت سے تھا اور حب کے ایک ہی خاندان کے 12افراد اس واقعہ میں جھلس کر ہلاک ہو گئے تھے مگر اس سانحہ میں جاں بحق ہونے والوں کیلئے کوئی مالی امدا دنہیں دیا گیا اس خاندان کے سربراہ کریم بخش بلوچ کا کہنا تھا کہ واقعہ کو ایک سال بیت گئے مگر ہمارے زخم اب بھی تازہ ہے حکومت کے جانب سے کیئے گئے وعدوں پر کوئی عمل نہیں ہو ہم اب بھی اپنے پیاروں کی شناخت کے منتظر ہیں اتنے بڑے سانحہ میں حکومت کی جانب سے کوئی مالی مدد بھی نہیں گیا اور نہ ہی ذمہ داروں کیخلاف کاروائی کی گئی وزیراعلی بلوچستان کو ہم پر ذربرابر رحم نہیں آیا ہمارے جاں بحق افراد کے بچے فاقہ کشی کا شکار ہیں بچوں کو اسکول والوں نے فیس نہ ہونے کی وجہ نکال دیا ہم پر قیامت گزری ہے۔قبر پرفاتح کرنے آئی زینب بلوچ نے کہا کہ میرے شو ہر وہاب تربت سے حب آتے ہوئے جھلس گئے میں بیوہ بن گئی ہوں میرے تین بچے ہیں اب انکی کفالت کرنا والا کوئی نہیں ہے حکومت نے وعدے کئے اسے پوراکرے میں اب تک اپنے شوہر کے لاش کی شناخت کے منتظر ہوں حکومت کے دفتروں کے ٹھوکر کھا ری ہوں مگر کوئی سنے والا نہیں ہے خدارا حکمران ہم پر رحم کرو‘ دوسری جانب خاتون بی بی کا کہنا ہے کہ میرا بیٹا جلال جو تربت میں کام کرتاتھا وہ تربت سے آتے ہوئے شہید ہوئے جلال میرا سب سے چھوٹا بیٹا تھا پورے گھر میں کمانے والا جلال ہی تھا میری تین بیٹیاں نابینا ہیں جلال کے 5پتیم بچے ہیں اب مہارا گھر فاقہ کشی کا شکار رہے جلال کا ایک بیٹا بھوک کے وجہ سے مر چکا ہے حکومت نے نہ لا شیں ہما رے حوالے کئے نہ ہی ہمارا کوئی مالی مدد کیا صرف جھوٹے دلاسے دئیے‘ گڈانی میں موجود ورثاء کا کہنا ہے کہ سانحہ گڈانی کے بعد کوچوں میں ڈیزل اور پیٹرول لانے پر پابندی عائد کی گئی مگریہ پابندی چند دن تک رہی اب بھی کوچوں میں تیل لایا جا رہا‘ کمشنر قلات ڈویژن اکبر حریفال کا کہنا ہے کہ ڈی این اے ٹیسٹ جلد آئیں گے تاہم تکنیکی مسائل کے باعث دیر ہورہی ہے ‘ انہوں نے کہا کہ معاوضہ بھی عوام کو دیا جائے گا ۔