آر سی ڈی ہائی وے شاید پاکستان کا قدیم ترین شاہراہ ہے جو گزشتہ ساٹھ سالوں سے تکمیل کے مراحل سے گزر رہا ہے ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جنگ سے تباہ شدہ ممالک میں تعمیر نو کا آغاز 1950ء کی دہائی سے ہوا ۔ان منصوبوں میں آر سی ڈی ہائی وے بھی شامل تھا ۔ ابتداء میں یہ بغداد پیکٹ ہائی وے تھا جس کا مقصد سڑک کے ذریعے سینٹو ممالک کو ملانا تھا۔ دراصل یہ کراچی ‘ تہران شاہراہ ہے جس پر ابتدائی دنوں میں امریکا نے سرمایہ کاری کی تھی اور اس کے ابتدائی اخراجات برداشت کیے تھے ۔ 1958ء میں عراق کے بادشاہ کا تختہ الٹ دیا گیا اور فوجیوں نے اقتدار پرقبضہ کیا انہوں نے بغداد پیکٹ سے علیحدگی اختیار کی اور بعدمیں اس کا نام سینٹو ہائی وے رکھ دیا گیا ۔ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد اس کا نام آر سی ڈی ہائی وے رکھ دیا گیاجس کا مقصد پاکستان اور ایران کے درمیان نقل و عمل کے ذرائع اور خصوصاً شاہراہوں کو ترقی دینا تھا۔ اس سڑک کے ذریعے پاکستان ‘ ایران اور ترکی کوملانا تھا اور ایک بین الاقوامی معیار کی شاہراہ تعمیر کرنا تھا ۔ ابتداء میں شاہراہ کوئٹہ سے قلات تک محدود تھا ۔ 1960ء کی دہائی میں اس کو خضدار تک توسیع دی گئی ۔ 1980ء کی دہائی میں خضدار کو کراچی سے ملایا گیا اور سڑک کو جھالا وان کے پہاڑی راستوں سے گزارا گیا ۔ 1970ء کی شورش میں سیکورٹی افواج کو تیزی اور سرعت کے ساتھ نقل و عمل میں مشکلات پیش آئیں ’ اس لئے جنرل ضیاء کی فوجی حکومت نے اس کو فوجی اہمیت کا سڑک سمجھ کر اس کی تعمیر کی ۔ دوسری جانب دالبندین سے نوکنڈی تک سڑک تعمیر کی گئی ۔ 1980ء کی دہائی میں نوکنڈی کو تفتان کے ساتھ ملایا گیا ۔ ابھی بھی دالبندین اور نوشکی ‘ نوشکی اور کوئٹہ کے درمیان سڑک کی تعمیر باقی ہے ۔ سڑک موجود ہے مگر انتہائی خستہ حال میں ہے ۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو دالبندین تا نوشکی اور نوشکی تا کوئٹہ نئی سڑک تعمیر کرنی ہے ۔ اکثر حادثات بھی انہی علاقوں میں پیش آتے ہیں ۔ خصوصاً سنگین نوعیت کے حادثات جس میں قیمتی جانیں ضائع ہورہی ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وفاقی حکومت آر سی ڈی شاہراہ کی تعمیر کو مکمل کرنے کے لئے خاطر خواہ فنڈ فراہم کرے ۔ کیونکہ یہ ایک بین الاقوامی شاہراہ ہے اور ایران کے ساتھ زمینی تجارت بڑے پیمانے پر آئندہ چند برسوں میں ہوگی دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حکم کئی ارب ڈالر تک جائے گا اور پوری تجارت اسی شاہراہ سے ہوگی یا مستقبل میں مکران ساحلی شاہراہ کے ذریعے ہوگی ۔وفاقی وزیر برائے سرحدی امور اور ریاستیں ‘ جنرل عبدلقادر بلوچ نے حال ہی میں حکومت پاکستان کو ایک نئی شاہراہ تعمیر کرنے کا مشورہ دیا ہے انہوں نے ملک کے منصوبہ سازوں اور پالیسی سازوں کو با قاعدہ بریف کیا ہے اور انکو بتایا ہے کہ زاہدان کراچی شاہراہ کا ایک الگ راستہ ہے جو نوکنڈی کے قریب یک مچھ سے خاران ‘ خاران سے نال ‘ خضدار اور کراچی کو ملائے گا ۔
اس نئی سڑک یا بین الاقوامی شاہراہ کی تعمیر سے کراچی اور زاہدان کا فاصلہ 400میل کم ہوجائے گا ۔جنرل قادر بلوچ نے وزیر اعظم کو بھی اس سلسلے میں اعتماد میں لیا تھا اور ان سے مطالبہ کیا تھا کہ اس کی تعمیر موٹر وے کے منصوبے کے تحت کی جائے ۔ اسی نئی شاہراہ سے خاران اور جھالاوان کے لوگ مستفید ہوں گے۔ کم وقت میں لوگ کراچی سے زاہدان ‘ خاران تک سفر کر سکیں گے ۔ معلوم ہوا ہے کہ منصوبہ بندی کمیشن بہت جلد اس منصوبہ کی منظوری دے گی اور اس پر کام جلد شروع ہوگا۔ واضح رہے کہ جنرل عبدالقادر بلوچ نے پہلے ہی متعلقہ وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال کو اعتماد میں لیا تھا اور اسکے فوائد سے ان کو آگاہ کیا تھا جس کے بعد احسن اقبال اس منصوبہ کے زبردست حامی ہوگئے ہیں آر سی ڈی ہائی وے اور کراچی ‘ خاران ‘ زاہدان موٹر وے ایران کے ساتھ تجارت اور لوگوں کی آمد و رفت کے لئے زبردست سہولیات فراہم کرے گا۔
آر سی ڈی ہائی وے کب مکمل ہوگا؟
وقتِ اشاعت : March 24 – 2015