|

وقتِ اشاعت :   June 19 – 2021

بلوچستان کی ساحلی پٹی 770 کلومیٹر طویل ہے۔ گڈانی سے لیکر جیونی تک یہ ساحل نہ صرف دل فریب مناظر کا حسین امتزاج ہے بلکہ یہ دنیا بھر کی مختلف انواع اقسام کی آبی حیات سے بھری پڑی ہے۔ جب کوئی مکران کوسٹل ہائی وے سے اپنی سفر کا آغاز کرتاہے تو موجیں مارتا سمندر اس کے سفر کی تمام تھکان کو دور کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے جبکہ ساحل، ریت اور پہاڑوں کا سنگم اس کی آنکھوں کو خیرا کردیتی ہیں۔
یہاں پر فشنگ انڈسٹریز اور سیاحت کو فروغ دینے کے لئے بہت سے مواقع موجود ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں بلیو اکانومی ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کا ایک اہم جْز سمجھا جاتا ہے۔ بلیو اکانومی کی ترقی میں پاکستان خطے کے دیگر ممالک سے بہت پیچھے ہے۔ بالخصوص بلوچستان کا ساحل پائیدار منصوبہ بندی کے حوالے سے ابھی تک نظر انداز ہے بلکہ ماہی گیری کی صنعت زوال پذیری اور غیر قانونی ٹرالنگ کا شکار ہے۔ بلوچستان کا ساحل عرصہ ہوا ہے غیر قانونی ٹرالرنگ کے نرغے میں ہے۔موثر قانون سازی کی عمل درآمد میں حائل کمزوریوں کی وجہ سے گڈانی سے لیکر جیونی تک غیر قانونی ٹرالرنگ عروج پر ہے۔ سمندر کی مقررہ کردہ حدود کی خلاف ورزی رات کے اندھیرے کے علاوہ دن کے اجالے میں بھی معمول بن گیا ہے۔ کم و بیش چار دہائیوں سے جاری مچھلیوں کی نسل کشی اور غیر قانونی ٹرالرنگ کی وجہ سے اب بلوچستان کے ساحل اپنی زرخیزیت کھوچکے ہیں۔پہلے ماہی گیر شکار کی بہتات کا مژدہ لیکر لوٹتے تھے اور اِس سے ماہی گیروں کی بستیاں شاد مانیوں کا پیکر ہوا کرتی تھیں اب وہ لاکھوں روپے کا ایندھن خرچ کرکے خالی ہاتھ لوٹتے ہیں۔ گھر کا چولہا روشن کرنے میں ماہی گیروں کو دقت کا سامنا ہے۔ ماہی گیروں کے خوشحالی کے دن جیسے روٹھ گئے ہیں۔ بلوچستان کے جفا کش ماہی گیر بین الصوبائی ٹرالرز کی سمندر میں مداخلت سے اضطراب کا شکار تھے لیکن اب نیا مسئلہ غیر ملکی ٹرالرنگ کا شروع ہوگیا ہے۔ کچھ عرصہ سے ساحلِ مکران چائنیز ٹرالرز کی آماجگاہ بن چکا ہے خصوصاً ضلع گوادر کی ساحلی پٹی پسنی اور گوادر میں چائینز ٹرالرز کے بیڑے کو صوبائی سمندری حدود میں دیکھا گیا ہے۔
اس حوالے سے گزشتہ دنوں وفاقی وزیر برائے سمندری امور علی حیدر زیدی نے بی بی سی اردو سے بات چیت کرتے ہوئے ساحلِ مکران پر چائینز ٹرالر کی موجودگی کی تصدیق کی ۔ وفاقی وزیر کا بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ “چین کے فشنگ ٹرالرز کو گوادر بندرگاہ پر روک دیا گیا ہے اور وزرات بحری امور اس معاملے کی مزید چھان بین کر رہی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی سمندری حدود میں بغیر اجازت کوئی بھی داخل ہو گا تو اسے روکا جائے گا۔ اس حوالے سے چین کے سفارتخانے نے ہمیں لیٹر بھیجا ہے جس میں چینی سفارتخانے کا کہنا تھا کہ ایمرجنسی اور موسم کی خرابی کی وجہ سے یہ ٹرالر یہاں آ گئے تھے۔”
لیکن چائینز ٹرالرز کی ساحلِ مکران پر موجودگی ہنوز ماہی گیروں کی بے چینی کا سبب ہے جس کے خلاف رواں ہفتہ گوادر اور پسنی میں نیشنل پارٹی کی اپیل پر ماہی گیروں نے اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کرایا ہے۔
ساحلِ مکران اپنے جغرافیائی محل وقوع، گوادر بندرگاہ اور سی پیک کے منصوبوں کی وجہ سے غیر معمولی اہمیت کا حامل بن گیا ہے۔ گوادر بندرگاہ کی تکمیل اور سی پیک منصوبے پر کام شروع ہونے کے بعد ماہی گیری کی صنعت کو مقامی سطح پر جدید خطوط پر استوار کرنے اور مقامی ماہی گیروں کو شکار کی جدید تکنیک سے بہر مند کرانے کی امید کا اظہار کیا جارہا تھا جو ابھی تک ادھورا ہے۔
پہلے ساحلِ بلوچستان پر ملکی ٹرالرز کا غلبہ ماہی گیروں کی پریشانی کا سبب تھا اب چائینز ٹرالرز کی آمد نے ان کو دہرے پریشانی کا شکار بنا دیا ہے۔ ماہی گیری کا شعبہ ساحلی علاقوں کی 80 فیصد مقامی معیشت کو رواں رکھنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ ماہی گیری کی صنعت سے نہ صرف لاکھوں ماہی گیر گھرانے اپنی زندگی کا پہیہ چلاتے ہیں بلکہ اس صنعت سے دیگر طبقات کے گھروں کے بھی چولہے روشن ہوتے ہیں۔ اگر ماہی گیری کی صنعت اسی طرح ملکی اور غیر ملکی ٹرالرز کی مداخلت کے زیرِ اثر رہا تو مقامی صنعت ڈھے جائے گی جس سے لاکھوں لوگ بے روزگاری کی عفریت کا شکار ہوسکتے ہیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ماہی گیری کی صنعت کو مقامی ماہی گیروں کی صلاحیتوں میں اضافہ کرکے فروغ دیا جائے اور یہ اس صورت ممکن ہوگا جب بلوچستان کے ساحل پر ہر طرح کی ٹرالرنگ حقیقی معنوں میں منع کی جائے گی۔
بلوچستان کا ماہی گیر وہ بد قسمت طبقہ ہے جسے کوئی بھی قانونی حقوق حاصل نہیں۔ یہ لیبر قوانین کے تحت بھی نہیں آتے۔ ماہی گیری کا شعبہ بھی محنت کشوں کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ دیگر محنت کش طبقہ کی طرح ماہی گیروں کا بھی روزگار پْرخطر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ماہی گیروں کو اس درجہ میں تاحال شمار نہیں کیا گیا اور نہ ہی قانون سازی کی طرف کوئی میلان نظر آتا ہے۔
مروجہ لیبر قوانین کے مطابق کسی بھی مزدور کی حادثاتی موت کی صورت میں “ڈیتھ گرانٹ کی فراہمی، بچیوں کی شادی کرانے کے لیے میریج گرانٹ کی فراہمی، علاج معالجہ کے لیے اسپتالوں اور تعلیم و تربیت کے لیے اسکولز کا قیام، پینے کے صاف پانی کی فراہمی، بچوں کے لیے اسکالرشپ کی فراہمی، رہائش کے لئے کالونیوں کی تعمیر، ہنر سکھانے کے لئے مراکز کا قیام اور پائیدار اور محفوظ شکار کے لئے ضروری آلات و مشنری کی فراہمی شامل ہیں”۔
لیکن اس مروجہ لیبر پالیسی کا ماہی گیر اس وقت تک بینفیشری نہیں بن سکتے جب تک ان کو محنت کش طبقہ تسلیم نہیں کیا جاتا ۔اب ضرورت اس امر کی بنتی ہے کہ ماہی گیروں کا شمار بھی محنت کش طبقات میں کیا جائے جس کے بعد ان کے معیارِ زندگی کو بلند کیا جا سکتا ہے اور ان کی فلاح و بہبود کے اقدامات بھی دیرپا ثابت ہو سکتے ہیں۔ اور شاید اس کی وجہ سے خوشحالی کے پروانے ماہی گیروں کی دہلیز پر دستک دیں۔