|

وقتِ اشاعت :   June 19 – 2021

پوری دنیا میں بہت سے ممالک ایسے ہیں جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں ان ممالک کے عوام کودو وقت کی روٹی اور سر چھپانے کے لیے چھت میسر نہیں۔ کئی افراد بھوک اور علاج معالجہ نہ ہونے کی وجہ سے لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ آپ نے کبھی اس کی وجوہات پر غوروفکر کیا ہے کہ یہ کیا ہیں ؟
عام طورکمزورممالک اپنی ترقی کے لیے کوئی اسباب نہیں ڈھونڈتے اور نہ کوئی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ اور اس پہ مستزاد اخلاقی بے راہ روی ،لاقانونیت عوامی اثاثوں کو اپنی ذاتی ملکیت تصورکرنا بظاہر وہ رکاوٹیں ہیں جس کی وجہ سے غربت کا پہیہ تیزی سے گھوم رہا ہے۔مادی اشیاء کی کثرت کی وجہ سے دنیا میں ترقی ممکن ہوتی ہے جن کے پاس مال واسباب،زراعت،سونا،چاندی، معدنیات اور کارخانے وافر مقدار میں ہوں تو وہ ممالک ترقی کے راستے پر گامزان ہوتے ہیںاور جن ممالک کے ساتھ یہ وسائل اور سامان نہ ہوں تو وہ ممالک کمزور اور غریب سے غریب تر ہوں گے۔
ترقی یافتہ ممالک میں چائنا، جاپان، کوریا، روس، یورپ، فرانس، جرمنی اورامریکہ سر فہرست ہیں۔ان سب ممالک میں جو بات مشترک ہے وہ جدید سائنس وٹیکنالوجی کی تعلیم اور محنت ہے۔ یہ سب ممالک ہر وقت ایک دوسرے کے ساتھ مقابلے میں ہوتے ہیں اورایک دوسرے سے سبقت لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ عالمی منڈی میں اپنی اپنی مصنوعات دنیا کے دیگر ممالک کو فروخت کر تے ہیں۔
آج چائنا نے اپنی مصنوعات کی وجہ سے پوری دنیا میں شہرت پائی ہے وہ سپرپاور تک بننے کے قریب ہے۔ چائنا کی عوام بہت محنت کش ہے اس کے مردا ور عورتیں سب اپنے اپنے کام میں مگن رہتے ہیں۔
اس موضوع پر میں اپنے دوست پروفیسر کفایت اللہ سہار صاحب کے ساتھ گفتگو کر رہا تھا تو انہوں نے مجھے کہا کہ گھر کے لیے کچھ اشیاء ضروری خریدنا تھا موجودہ حالات کی وجہ سے میں نے ارادہ کیا کہ اسرائیل کی بنی ہوئی اشیاء نہیں خریدوں گا اسی غرض سے اپنے شہر کے بڑے بڑے سپر سٹورز جانا ہوا لیکن مجھے اسرائیلی مصنوعات کا متبادل کوئی ملکی یا کسی دوسرے اسلامی ملک کے تیارکردہ دل آویز چیز نہیں مل سکی، کافی تلاش کے بعد آخر میں نے اسٹریلیا کی بنی ہوئی کچھ چیزیں لیں لیکن وہ بھی زیادہ معیاری نہیں تھیں۔
آپ اس پر سوچیں کہ ہمارے گھروں کے اندر کتنی مصنوعات اسرائیل کی بنی ہوئی موجود ہوتی ہیں اس کی کئی وجوہات ہیں ایک وجہ یہ ہے کہ ان کی بنائی ہوئی چیزیں معیار کے لحاظ سے بہتر ہوتی ہیں دوسری وجہ انہوں نے ایسی چیزیں بنائی ہیں جو دوسرے ممالک نہیں بناتے۔ مشروبات کے میدان میں وہ سب سے آگے ہیں سینکڑوں سالوں سے وہ کوکاکولا ،پیپسی ، فینٹا اور سپریٹ وغیرہ بناتے ہیں بہت سے لوگ اس کے پینے کے عادی ہیں اس کے بغیر روٹی نہیں کھاتے ۔اسی طرح چھوٹے بچوں کے لیے خشک دودھ بھی اسرائیل والے بناتے ہیں اگر اسرائیل ہم پر یہ بند کردے تو معلوم نہیں کہ ہمارے کتنے بچے اس کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جائیں۔
اکثر ملٹی نیشنل کمپنیاں اسرائیل کی ہیں جو ادویات اور دیگر معیاری چیزیں بناتے ہیں اور پوری دنیا کو فراہم کرتے ہیں اسرائیلی محنتی تعلیم یافتہ لوگ ہیں دنیا میں سب سے زیادہ پی ایچ ڈی سکالرز ان کے ہیں۔اسرائیل رقبے کے لحاظ سے چھوٹا ملک ہے۔ لیکن مال دولت اور جدید سائنسی علوم میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ انہوں نے سائنس وٹیکنالوجی میں بہت ترقی کی ہے یہاں تک کے ان کی بہت سی مصنوعات دنیا کے بڑے بڑے سپر مارٹ کی زینت ہیں۔
گزشتہ ماہ اسرائیلی فوج کی طرف سے فلسطینی مسلمانوں پر بہت ظلم وبربریت کی گئی جس کی وجہ سے بہت سے مسلمان شہید ہوئے اور ان کے گھر ویران ہو گئے۔اسرائیل کی طرف سے فلسطینی مسلمانوں پربھاری اسلحہ جیسے جیٹ طیاروں سے شیلنگ کی گئی۔ انہوں نے کافی تعداد میں بڑے بڑے بلڈنگ تباہ کئے۔ان کے مقابلے میں فلسطینیوں کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا بس فقط غلیل اور پتھر وں سے مقابلہ کررہے تھے۔کئی دہائیوں سے اسرائیل مسلمانوں پر وحشیانہ طریقے سے ظلم وزیادتی کر رہا ہے ۔حماس ایک جہادی تنظیم ہے ان کی طرف سے جواب میں چھوٹے مزائیل داغے گئے لیکن اسرائیل کے اینٹی میزائل سسٹم نے بہت سے راکٹ حملے روکے۔ان مظالم کی وجہ سے دنیامیں دیگر مسلم ممالک کے عوام اسرائیل کے خلاف احتجاج کررہے ہیں جس میں اسرائیل کی مصنوعات سے بائی کاٹ پر بھی بات ہوئی۔ لیکن حقیت یہ ہے کہ عملی طور پر کوئی بھی تیار نہیں کیونکہ بعض چیزوں کی خریداری ہماری مجبوری ہے۔
امریکہ ساری دنیا میں معیشت وترقی کی وجہ سے پہلے نمبر پر ہے۔اس نے پوری دنیا میں اپنے آپ کو سپر پاور کے نام سے منوایا ہے۔ یہ اعزاز ان کو مفت میں نہیں ملا بلکہ امریکیوں نے اس کے لئے بہت محنت مشقت کر کے اپنے ملک کو سپرپاور تک پہنچایا ہے اس نے ہر شعبے میں بہت ترقی کی ہے اور سائنس، جدید ٹیکنالوجی ،تجارت ،معیشت سب میں بہت آگے جا چکا ہے۔
مسلمان قرآنی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے ۔ کیونکہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دشمن کے مقابل اپنی بساط کے بقدر اسلحہ بنائو۔غیر مسلم جو ظلم زیادتی کر رہے ہیں تو مسلمان اس کے لیے عملی کام نہیں کرتے بلکہ صرف بد دعائیں دیتے ہیں لیکن اگر ہم صرف اسی پر اکتفاء کریں گے توجواب وہی ہے جو ہر باشعور کے سامنے ہے۔ہم اپنے حصے کاپورا کام نہیں کرتے خاص طور پر مسلم امہ کے بست و کشاد کے مالک جن کے تقریری جذبات اور یگانت و ہمدردی کے آسمان تک بلندو بانگ دعوے تو سنائی دیتے ہیں جوعمل سے یکسر خالی ہوتے ہیں۔،مختصر یہ کہ ہمیں عملی طور پر اپنے تمام ادارے خصوصا ًتعلیمی ادارے مضبوط کرنے ہوں گے اور بہترین ایجوکیشن نافذ کرکے اپنے ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شا مل کرنا ہوگا تب جاکر ہم ایک ترقی یافتہ قوم بنیں گے اور ہمارا ملک ترقی کرے گا۔