مسلم لیگ کے ایک دھڑے کے سربراہ جنرل (ر) پرویزمشرف نے ایک بار ملک میں تیسری سیاسی قوت بننے کا فیصلہ کیا تھا ۔ یہ اعلان انہوں نے اپنی پارٹی کے مجلس عاملہ کے ایک اجلاس میں کیا جو ایک مقامی ہوٹل میں منعقد ہوا تھا ۔ اس میں پارٹی رہنماؤں نے شرکت کی ۔ دل چسپ بات یہ تھی کہ ان سب میں کوئی شناسا چہرہ نہیں تھا ، سب کے سب ’’نمعلوم ‘‘ لوگ تھے جن کو کوئی نہیں جانتا ۔ کم سے کم میڈیا میں نہیں رہے ہیں ۔ پی پی پی کے دور کے آخری دنوں سے جنرل پرویزمشرف کو یہ خبط سوار تھا کہ وہ پاکستان کے مقبول ترین اور عوام کے ہر دل عزیز رہنما اور رہبر ہیں ۔ یہ بات انہوں نے اخذ کی جب لوگوں نے ان کو بڑی تعداد میں ای میل ارسال کی جو شاید لاکھوں میں تھے ۔ اس کے بعد انہوں نے فیصلہ اپنے طورپر کردیا تھا کہ وہ معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وطن واپس آئیں گے اور ایک بار پھر نہ صرف سیاست میں حصہ لیں گے بلکہ سیاست میں مداخلت کریں گے۔ سابق عسکری قیادت اور ان کے بہت سے دوستوں اور حقیقت مندوں نے یہ کوشش کی کہ وہ اپنا ارادہ بدل دیں کیونکہ پاکستان پہنچتے ہی ان کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرناپڑے گا ۔ اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر کہ پاکستان کی دو سب سے بڑی پارٹیوں کو عام انتخابات میں شکست دے کر بر سر اقتدار آئیں گے، شاید ان کا زیادہ غصہ سابقہ عسکری قیات پر تھا جس نے پہلے ان سے وردی اتروائی اور بعد میں صدارت کے عہدے سے بھی سبکدوش کردیا ۔ یہی نہیں بلکہ ان کو شریفانہ انداز سے ملک بدر کردیا اور ان سے یہ وعدہ بھی لے لیا کہ وہ کبھی بھی پاکستان کا رخ نہیں کریں گے۔ چنانچہ ان تمام پابندیوں کو توڑنے کا عہد پرویزمشرف نے کر لیا تھا اور انتخابات کے وقت وہ پاکستان چلے آئے تمام وعدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جنرل پرویزمشرف مشکلات کا سامنا کرنے کراچی پہنچ گئے ۔ ان کے ساتھ کیا ہو ا۔ دنیا نے دیکھ لیا آج تک وہ حصار میں ہیں ان کو لوگوں سے ملنے کی اجازت نہیں ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کا ہر فرد اس کا دشمن ہے اور موقع ملتے ہی اسکو قتل کرنا چاہتاہے ۔ سیکورٹی کا حصار اس کی زندگی کی حفاظت کے لئے لگائی گئی جس نے واقعتاً ان کو سیاست اور عوام الناس سے بہت دور کردیاہے ۔ وہ دوسروں کی باتیں سن نہیں سکتے ۔ البتہ چند ایک اہم شخصیات ‘ وڈیروں سے ان کی ملاقاتیں ضرور ہوئی ہیں ۔ ان تمام باتوں کے باوجود ایک ذہین شخص اب بھی پاکستان جیسے وفاقی ملک میں تیسری قوت یا تیسری سیاسی قوت بننے کا خواب دیکھ رہا ہے ۔ آج تک ان کو عوام الناس کی جانب سے کوئی پذیرائی نہیں ملی اس کے برعکس ان پر الزامات ہیں کہ انہوں نے بے نظیر بھٹو ‘ اکبر بگٹی ‘ لال مسجد اسلام آباد کے امام کو ذاتی احکامات کی بنیاد پر قتل کروایا ہے ۔ مقدمات کی سماعت عدالتوں میں جاری ہیں ۔ دوسری جانب حکومت وقت نے ان پر غداری کا مقدمہ قائم کردیا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں یہ مقدمہ آئین شکن ہے ۔ صدر اور فوج کے سربراہ کی حیثیت سے ان پرفرض عائد ہوتا تھا کہ پاکستان کے آئین کی حفاظت کریں ’ انہوں نے آئین شکنی کی جس پر ان کے خلاف غداری کا مقدمہ چلا۔ ان تمام باتوں کے باوجود پرویزمشرف ابھی تک یہ خواب دیکھ رہے ہیں کہ عوام دہائیوں پرانے پارٹیوں سے تعلقات ختم کرکے انکو لیڈ اعظم بنائیں گے۔ البتہ انہوں نے عمران خان نیازی سے یہ ضرور توقعات رکھیں کہ وہ تیسری قوت بن سکتے ہیں اگر وہ خود نہ بن سکے ۔ البتہ موجودہ سیاسی تناظر میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ ایم کیو ایم کو شکست وریخت کا سامنا کرنا پڑا سکتا ہے ۔ اور اس کے بڑے بڑے گروپ الگ ہو کر پرویزمشرف کے ساتھ مل جائیں یہ سیاسی ممکنات میں شامل ہے، پرویزمشرف کے ایک وکیل کارکن کو ایم کیو ایم نے سینیٹر بنایا ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایم کیو ایم کے بعض رہنما ء اور لوگ پرویز مشرف کو لیڈر تسلیم کریں اور اس کی تھوڑی بہت عزت افزائی کریں ۔ ورنہ پرویزمشرف کا اس ملک میں کوئی سیاسی مستقبل نہیں ہے، جلد یا بدیر ان کو گمنامی کی زندگی گزارنی پڑے گی ۔ جس دن بھی ان کو ملک سے باہر جانے کی اجازت مل گئی اس کے بعد وہ دوبارہ پاکستان کا رخ نہیں کریں گے ممکن ہے کہ وہ سیاست سے بھی توبہ کرلیں ۔
تیسری سیاسی قوت
وقتِ اشاعت : March 24 – 2015