آٹھ ہزار سال قبل مسیح پرانی تہذیب ’’مہر گڑھ‘‘ کی جنم بھومی ’’ ضلع کچھی‘‘ آج خود آثار قدیمہ کا منظر پیش کررہا ہے۔ پورا ضلع کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ہر طرف مشکلات اورمسائل نے یہاں کے لوگوں کواپنی آغوش میں لیا ہوا ہے۔ مکین ایک کشمکش سے دوچار ہیں۔ کس سے فریاد کریں؟ کس کا دروازہ کھٹکھٹائیں؟۔ بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی اور تحریک انصاف میں سیاسی کش مکش کی وجہ سے ضلع کے بے شمار ترقیاتی کام بند پڑے ہیں۔
ڈھاڈر میں بولان ڈیم کا منصوبہ فنڈزکی کمی کی وجہ سے سست روی کا شکارہے۔ ڈیم کا منصوبہ سیاست کی نذرہورہا ہے۔ ضلع کچھی، تحریک انصاف بلوچستان کے صدر سردار یارمحمدرند کاآبائی ضلع ہے۔ عام انتخابات میں وہ یہاں سے رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ حال ہی میں سرداریارمحمد رند اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے درمیان سیاسی اختلافات کی وجہ سے ڈیم کا منصوبہ مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہا ۔سرداریارمحمد رند بلوچستان کے وزیرتعلیم ہونے کے باوجود ضلع میں تعلیمی معیاربالکل صفر ہے۔ جہاں تعلیمی اداروں میں اساتذہ سمیت دیگر تعلیمی مسائل حل ہوتے نظرنہیں آرہے ۔
تعلیمی ادارے صرف عمارتوں تک محدود ہیں۔ اسی طرح ضلع میں علاج معالجہ برائے نام ہے۔ صحت کے مراکز میں ادویات اور ڈاکٹرز سمیت دیگر اسٹاف کی کمی ہے۔ بلوچستان حکومت کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کے حکمرانوں نے بھی یہاں کے باسیوں سے منہ موڑ لیا ہے۔ 80 ارب سے زائد کی لاگت سے شروع ہونے والا کچھی کینال کا منصوبہ بھی تعطل کا شکار ہے جس کی وجہ سے زمینداروں میں سخت بے چینی پائی جاتی ہے۔کچھی کینال کی تکمیل سے نہ صرف ضلع کچھی بلکہ ضلع نصیرآباد، اورجھل مگسی میں بھی خوشحالی آئے گی۔لاکھوں ایکڑبنجراراضی آباد ہوگی۔ زمینداروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے میگا منصوبے کچھی کینال کوبند کرکے بلوچستان کے کسان اورزمینداروںکا معاشی قتل کیا جارہا ہے۔
حکومت غیرضروری اخراجات پربجٹ ضائع کرنے کے بجائے کچھی کینال منصوبے کو مکمل کرے۔اِس نہر کی تکمیل سے بلوچستان کی وادی کچھی کی 7 لاکھ 13 ہزار ایکڑاراضی سیراب ہوگی۔ زمین کی زرخیزی میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ اور بہتر فصلیں پیدا ہوں گی۔ علاقے میں پھلوں کی پیداوار بڑھے گی۔ جنگلات کی نشوونما ہوگی اور گلّہ بانی کو فروغ ملے گا۔مقامی لوگوں کو روزگار کی فراہمی ممکن ہوگی۔ بلوچستان سے پسماندگی دور ہوگی اور لوگ خوشحالی سے ہمکنار ہوں گے۔
ضلع میں ترقیاتی کاموں کے ٹھپ ہونے کے ساتھ ساتھ یہاں کے آثار قدیمہ ’’مہر گڑھ‘‘ کی کھدائی کے کام کو ایک سازش کے تحت روک دیا گیاہے۔ علاقے میں مصنوعی امن و امان کا مسئلہ پیدا کیا گیا اور یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ رند اور رئیسانی قبائل کی لڑائی کی وجہ سے آثار قدیمہ پر کام روکنا پڑا۔ بلوچ قوم پرست رہنما نواب لشکری رئیسانی نے اس لڑائی کو سرکاری سرپرستی قراردے کر کہا کہ ایک منصوبے کے تحت یہاں ڈیتھ اسکواڈ کے کارندھوں کو استعمال کیا گیا۔ سرکاری مشینری کا استعمال کرکے مہر گڑھ کے آثار کو مسمارکردیا گیا۔ اس کو بلڈوز کیا گیا۔ یہ سب عمل حکومتی سرپرستی میں کیا گیا۔ نواب رئیسانی کا کہنا تھا کہ حکمرانوں نے بلوچستان کی قومی شناخت، بلوچ قومی مرکزیت، سیاسی عمل اور کلچر کے خلاف ایک آپریشن شروع کررکھا ہے۔ مہر گڑھ کی تباہی بھی اس آپریشن کا ایک تسلسل ہے۔
مشرف دور حکومت میں رئیسانیوں کے علاقے میں واقع مہر گڑھ میں بارودی سرنگیں بچھا دی گئیں۔ آثار قدیمہ کی دریافت کرنے والی فرانسیسی ٹیم کے زیرِ استعمال عمارت کو مسمار کردیا گیا جبکہ اس ٹیم نے بمشکل دس فیصد مہرگڑھ کو دریافت کیا تھا۔ پچھلے کافی عرصے سے یہ آثار دوبارہ غائب ہونے لگے۔ اور اب ان پر مٹی کی تہہ اتنی بڑھ چکی ہے کہ کچھ ہی عرصے میں یہ آثار دوبارہ مکمل دفن ہو جائیں گے۔
واضح رہے کہ مہرگڑھ آٹھ ہزار سال قبل مسیح پرانی تہذیب ہے۔ یہ میدان تقریباً دس ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس تہذیب کے آثار ’’نواب مہراللہ خان ‘‘نامی آبادی کے قریب دریافت ہوئے۔ اس آبادی کے نام پر اس کو ’’مہرگڑھ‘‘ کا نام دیا گیا۔ نواب مہراللہ خان کا تعلق چیف آف سراوان کے نواب خاندان (رئیسانی قبیلہ) سے تھا۔ جب مکران ریاست قلات کے زیر تسلط میں تھا تو اس وقت نواب مہراللہ خان ریاست مکران کے گورنر بھی رہے۔
مہرگڑھ کی دریافت کاسہرا چیف آف سراوان نواب غوث بخش رئیسانی کے سرہے۔ نواب مہراللہ خان علاقے میں دراصل چیف آف سراوان،نواب غوث بخش رئیسانی مرحوم کی سرمائی رہائش گاہ واقع تھی۔ انہوں نے ماہرین ارضیات کو یہ اطلاع دی کہ اس علاقے میں ایک ٹیلہ واقع ہے۔ جہاں سے اکثرقدیم اشیاء ملتی ہیں۔ اس انکشاف پر ماہرین نے جب ٹیلے کی کھدائی کی ،تو ایک قدیم شہر کے کھنڈر دریافت ہوئے۔ یہ دریافت 1973 میں فرانسیسی ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر جین فرانسویس اوران کی ٹیم نے کی تھی۔
مہرگڑھ جنوبی ایشیاء کا پہلا علاقہ ہے جہاں گندم اور جو کی پہلی بار زراعت کی گئی۔
جانوروں کو پالنے کے بارے میں پتہ لگتا ہے۔ مہرگڑھ کے رہائشی مٹی سے بنے مکانوں میں رہتے،گندم اور جو اگاتے،اناج زیرزمین بنے گوداموں میں ذخیرہ کرتے اور تانبے سے اوزار بناتے تھے۔ انھوں نے ہی گائے بھینسیں اور بھیڑ بکریاں پالنا شروع کیں۔ جوں جوں شہر میں علوم و فنون کو ترقی ملی، مہرگڑھ کے مکین رنگسازی کرنے اوردیگردھاتوں سے بھی ترقی یافتہ آلات و اوزار بنانے لگے۔ چونکہ شہر درہ بولان جیسی اہم گزرگاہ پر واقع تھا۔ یہاں افغانستان،ایران اور چین سے آنے جانے والے قافلے بھی قیام کرنے لگے۔ عین ممکن ہے کہ اسی میل ملاپ سے مہرگڑھ کثیرالاقومی باشندوں کا گڑھ بن گیا۔ مہرگڑھ میں دس تا بیس ہزار کے مابین انسان آباد تھے۔ یہ اس زمانے کے لحاظ سے بہت بڑی تعداد تھی کیونکہ اس وقت پورے برصغیر میں انسانی آبادی صرف دو لاکھ تھی۔
جب تک مہرگڑھ دریافت نہیں ہوا تھا تو لوگ سمجھتے تھے کہ قدیم تہذیب کا مرکز موہنجو دڑو ہے۔ لیکن مہر گڑھ نے تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب جب مہرگڑھ اجڑنے لگا تو اس کے مکینوں نے دریائے سندھ کی جانب ہجرت کی اور یوں عظیم الشان انڈس تہذیب وجود میں آئی۔
افسوس کہ موجودہ حکومت مہرگڑھ کو محفوظ رکھنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھارہی۔ علاوہ ازیں علاقے میں چور بھی موجود ہیںجو موقع پا کر مختلف جگہوں کی کھدائی کرتے اور نکلنے والے نوادرات کراچی یا کوئٹہ میں بیچ دیتے ہیں۔ یہ اشد ضروری ہے کہ مہرگڑھ کو محفوظ رکھنے کی خاطرضروری اقدامات کیے جائیں ورنہ ہمارے اس عظیم تہذیبی وثقافتی ورثے کا نام ونشان مٹ جائے گا۔
تاریخ میں کچھی کو بلوچ قوم کی مرکزیت کا مقام حاصل رہا۔ مورخ لکھتے ہیں کہ میر چاکرخان رند نے مکران کے علاقے کولواہ میں آنکھ کھولی اور اس نے خضدار کے علاقے درہ مولا پر قبضہ کیا۔ کچھی کے میدانوں کو فتح کیا۔ درہ بولان پرقبضہ کرنے کے بعد سبّی کو فتح کیا۔ اس کے بعد قبائلی حسد کی وجہ سے رند و لاشاریوں میں جنگ چھڑ گئی جو تیس سال تک جاری رہی۔ اس جنگ کانتیجہ یہ نکلا کہ کئی بلوچ قبائل سندھ اور پنجاب میں ہجرت کرنے پہ مجبورہوگئے اوربلوچ منتشرہوگئے جس میں بلوچوں کا بہت نقصان ہوا جس کی وجہ سے موجودہ ضلع کچھی پرسندھ کے کلہوڑو حکمرانوں نے قبضہ کرلیا اور ایک عرصے تک وہ یہاں کے حکمران رہے۔ کلہوڑو حکمرانوں سے یہاں کے بلوچ قبائل خوش نہیں تھے۔
س کی وجہ سے ریاست قلات کے حکمرانوں نے کلہوڑوں کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ جو تاریخ میں ’’کچھی کی لڑائی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ریاست قلات کے خان میرعبد اللہ خان بلوچ اور امیر سندھ میاں نور محمد کلہوڑو کے درمیان کچھی میں دوبارہ بلوچ حکمرانی قائم کرنے کے لیے جنگ ہوئی۔خان آف قلات کو چیف آف سراوان کے نواب خاندان رئیسانیوں کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔ رئیسانی قبیلے سے تعلق رکھنے والے لشکر نے اس جنگ میں حصہ لیا۔ اس لڑائی کی خاص بات یہ تھی کہ بلوچ فوج کی فتح ہوتی ہے تاہم اس جنگ میں خان آف قلات میرعبد اللہ اپنے چھ سو جنگجوؤں کے ساتھ مارا جاتا ہے۔ اس کی موت کے بعد بلوچ لشکر دریائے سندھ کی طرف مارچ کرتا ہے جس کی وجہ سے کلہوڑو حکمران ریاست قلات کے سامنے جنگ بندی کی اپیل کرتے ہیں جس کی بنیاد پر جرگہ کا انعقاد ہوتا ہے۔ بلآخر کچھی کو میرعبداللہ کے خون بہا کے طور پر خان آف قلات کے احمد زئی اور چیف آف سراوان رئیسانی قبیلے کے حوالے کیا جاتا ہے۔ اس طرح ایک مرتبہ پھر اس علاقے میں بلوچوں کی حکمرانی قائم ہوجاتی ہے۔
آج بھی اس علاقے کی حکمرانی کا دعویٰ چار قبائل کے لوگ کرتے ہیں۔ جن میں رند، احمدزئی، رئیسانی اور کرد شامل ہیں۔ رند قبیلہ، میر چاکرخان رند کی وجہ سے جبکہ خان آف قلات کے احمد زئی خاندان اور چیف آف سراوان کے رئیسانی، خان میرعبداللہ کے خون بہا کے دعویدار ہیں۔
واضح رہے کہ 2008ء میں حکومت بلوچستان نے ضلع بولان کا نام تبدیل کرکے ضلع کچھی رکھ دیا ۔ چوتھا قبیلہ کرد ہے۔ جو اس علاقے کے ملکیت کی دعوے دار ہے۔ کردوں کے مطابق درہ بولان کرد قبیلہ کے ایک نامور شخص ’’بولان‘‘ کے نام سے منسوب ہے۔ بولان کی اولاد بولانزئی کے نام سے درہ بولان ہی کی وادی میں سکونت پذیر ہیں۔ ضلع کچھی کے دیگر علاقوں میں کرد قبیلے کی ایک بڑی تعداد آج بھی آباد ہیجواس علاقے میں طاقتور ترین قبیلوں میں شمار ہوتا ہے۔