|

وقتِ اشاعت :   March 26 – 2015

دنیا میں شپ بریکنگ کے حوالے سے مشہو رشہر گڈانی بلوچستان کے سا حلی علاقے میں واقع ہے لیکن یہا ں کے مزدور جو پشتوں سے جہاز توڑنے کا کا م کرتے ہیں گزشتہ چند دھا ئیوں سے حکومت کی عدم توجہی کے باعث شدید ما لی انتظا می اور معا شی مشکلات سے دوچارہیں۔ کو ئٹہ سے 635کلو میٹر جبکہ کراچی سے تقریبا 60 کلومیٹرکی دوری پر گڈا نی شہر وا قع ہے ،گڈانی کی آبادی 2005 میں تقریبا000 24910 کے قریب تھی۔ 97 فی صد آبادی مسلمانوں مشتمل ہے، آبادی کی اکثریت بلوچی اور سندھی زبان بولتی ہے۔DSCN3926جبکہ دیگر صوبوں سے مزدوری کے لیے آنے والے پنجابی اور پشتو ن بھی وہا ں آباد ہیں۔ گڈانی بہت خوبصورت ساحلی تفریح گاہ ہے جہاں پر نہ صرف مقامی بلکہ پورے پا کستان سے لوگ تفریح کی غرض سے آتے ہیں۔گڈانی شہر سے تقریباً 8 کلومیٹرکی دوری پر بحری جہاز توڑنے کا کام کیا جاتا ہے اس مقا م کو وہاں کے لوگ یارڈ کہتے ہیں اس کی یہی خاصیت بلوچستان کو دوسرے شہروں سے ممتاز کرتی ہے ،بین الااقوامی ما ہرین کے مطا بق گڈانی کا شپ بریکنگ یارڈ دنیا کا تیسرا بڑا یارڈ ہے جبکہ کارکردگی کے لحاظ سے گڈانی کا یہ یارڈ دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ 12کلو میٹر سمندر کی پٹی پر اس وقت 132شپ بر یکنگ کے پلا ٹ موجودہیں ، یو نین کے صدر بشیر حمدا نی اور جنرل سیکرٹر ی کر یم خان کے مطا بق1968میں یہاں بحری جہاز توڑنے کے کا م کا آغاز ہوا۔ 1973میں گڈا نی کے سمندرپر 4پلا ٹ بن گئے جہاں پاکستان کے مختلف علاقوں سے لوگ روز گار کی تلا ش میںیہاںآئے اور اس شعبے سے منسلک ہو گئے ،اس وقت اس علا قے میں مزدوروں کے لئے کو ئی سہولت موجود نہ تھی نہ ہی پینے کا صا ف پا نی مو جود تھا اور نہ ہی بجلی تھی جبکہ کو ئی جد ید مشینری نہ ہو نے کی وجہ سے مزدور بھا ری بھر کم وز ن اپنے کندھو ں پر لا د کر لاتے تھے۔دوران کا م یہ مزدور زخمی ہو جاتے تھے جبکہ کچھ اپنی جان کی باز ی بھی ہا ر جا تے تھے۔اس وقت ان مزدوروں کے لوا حقین کو کو ئی معاوضہ نہیں دیا جا تا تھا۔12سال بعد 1980میں ایک تنظیم شپ بریکنگ لیبر یو نین گڈانی کے نا م سے قا ئم ہو ئی ،اس تنظیم نے یارڈ میں بنے پلاٹوں کو رجسٹرڈ کر نے کا سلسلہ شروع کرنے کے سا تھ باقاعدہ طور پر ان پلا ٹس پر کا م کر نے والے مزدوروں کی فلاح وبہبودکے لئے کا م کر تے ہو ئے بحری جہاز توڑنے کے کا م کے دوران زخمی اور جاں بحق ہو نے وا لے مز دوروں کے حقوق کی آوا ز اٹھا ئی جس کے تحت 1983میں مر نے وا لے مزدوروں کے لوا حقین کو 15000رو پے دیئے جا نے لگے جو بعد میں بڑ ھا کر 50ہز ار روپے کر دیئے گئے ،جبکہ ز خمی ہو نے وا لے مز دوروں کو علاج معالجے کی بھی سہو لیات فراہم کی جا نے لگیں۔1986میں جام یو سف کے وا لد جام غلام قا ر گڈا نی آئے جس کے بعد انہو ں نے مزدوروں کی حالت زار دیکھتے ہو ئے انہیں بجلی اور پینے کے صاف پا نی کا پلانٹ فراہم کیا۔ مگر اس ایریا میں جگہ نہ ملنے کی وجہ سے پا نی صا ف کر نے کا پلا نٹ نہیں لگ سکا۔ گڈ انی کے سمندر پرشپ بریکنگ یارڈ میں اب پلاٹس کی تعداد بڑ ھ کر 132 ہو گئی ہے ان پلا ٹو ں پر ایرا ن ، یو رپ ، لیبیا ، کو یت ،مصر ، عراق اور یونا ن سمیت دیگر مما لک سے مختلف مسافر ، آ ئل ٹینکراور کارگو بحر ی جہاز سکریپ ہو نے کے لئے آ تے ہیں۔ ان بحر ی جہاز و ں کا وزن 1000ٹن سے 80ہز ار ٹن ہو تا ہے ،ایک جہاز کو توڑنے کے لئے3سو سے 4سو مز دور کا م کر تے ہیں جن میں لوڈر،ورکر،ہیلپر،شپ ویلڈر، فیلڈویلڈر،فیلکر،کر ین آ پر یٹر،فورک لفٹر،جنرل ورکرز ،سرنگ،جمادار ،فور مین،رینچ آ پریٹر ،چو کیدار ،ڈرائیو ر ،اسٹور کیپر شا مل ہو تے ہیں۔گڈا نی میں آنے وا لے بحر ی جہاز کو توڑنے کا کا م 3سے 4ما ہ میں مکمل کر لیا جا تا ہے۔ سا ل میں کم از کم 240بحری جہاز یہا ں سکریپ ہو نے کے لیے آ تے ہیں۔ اس وقت پلا ٹ پر 35کے قریب جہاز سکریپ ہو نے کے لئے کھڑے ہیں۔ پلا ٹ میں اضا فہ ہو نے کے سا تھ یہاں کا م کر نے وا لے مز دوروں کی تعداد میں بھی اضا فہ ہو گیا ہے 132پلاٹو ں پر تقر یباً 9ہز ار سے زائد مز دور کا م کر رہے ہیں۔مگر ان 132پلاٹس میں سے صرف 32پلاٹ ایسے ہیں جو رجسٹر ڈ ہیں۔ ان پر کا م کر نے وا لے مزدوروں کی حا لت انتہا ئی غیر ہے،صحت کے حوا لے سے بات کی جا ئے تویہاں سہو لیات کا فقدا ن ہے 9ہزار سے زا ئد مزدوروں کے لئے ایک بستر اور ایک ایمو لینس پر مشتمل کلینک ہے جس کی حا لت دیکھ کر اندازہ ہو جا تا ہے کہ یہاں آ نے وا لے مز دور صحت یا ب ہو نے کی بجائے کئی دیگر بیماریاں اپنے سا تھ لے جا تے ہیں۔ میر ی ملا قا ت ان پلا ٹو ں پر کام کر نے وا لے بہت سے مزدوروں سے ہو ئی جن میں سے اکثر یہاں صحت کی سہو لیات کی عدم فرا ہمی کا گلہ کر تے رہے۔ پلاٹ پر کا م کر نے وا لے مز دور محمد شر یف نے بتا یا ایک سا ل پہلے پلا ٹ پر بحر ی جہاز کی کٹا ئی کے دوران جہاز میں گیس بھر جا نے کے باعث دھما کہ ہوا جس کے نتیجے میں اس کے کچھ سا تھی معمو لی جبکہ یہ خود بر ی طرح جل گئے ۔پلا ٹ پر بنے کلینک میں برن وارڈ کی سہولت نہ ہو نے کی وجہ سے انہیں کر ا چی لے جا یا گیا جہاں پر یہ پچھلے ایک سا ل سے اپنا علا ج کر وا رہا ہے، اب تک اس کے علا ج پر 2لا کھ رو پے تک اخرا جا ت آ چکے ہیں۔ محمد شر یف نے بتا یا کہ اب تک کے اخر ا جا ت تو پلا ٹ کا ٹھیکیدار اٹھاتا آ یا ہے مگر آ گے اس کے پا س اتنے وسا ئل نہیں کہ یہ اپنا علا ج کر وا سکے اور نہ ہی یا رڈ کے کلینک پر علا ج ممکن ہے۔ان پلاٹوں پر کام کر نے وا لے دیگرمزدور سلما ن ، افتخار ،محمد امین، محمد یعقو ب ،علی بہادر ،نواب زادہ،فرید خان ،بادشا ہ ، شا ہد ،نیک محمد، ظریف خان ،موسیٰ خان اور دیگر کا کہنا تھا کہ ان پلا ٹو ں پر دنیا کے مختلف مما لک سے بحر ی جہا ز تو ڑنے کے لئے لا ئے جاتے ہیں جن سے نکلنے وا لا کیمیکل ،گیسزاور جلا ہوا مشینوں اور انجن کا تیل سمندر کی ریت میں شا مل ہو جا تا ہے اور دھو پ کی تپش سے اس ریت سے نکلنے وا لی بدبو سے سا نس لینا مشکل ہو جا تا ہےIMAG0539 جبکہ دیگر کئی مہلک بیما ریا ں بھی مشکلات میں اضا فے کا باعث بن رہی ہیں ،یہا ں کو ئی ایسا نظا م نہیں جو ان کیمیکلز کو ٹھکا نے لگاسکے۔ مسعود احمد ،حافظ جی ،لیا قت علی ،عا مر زیب ،محمد لطیف ،پرویز رضا اور اکبر زیب کا کہنا تھا کہ اپنا شہر چھو ڑ کر اتنی دور آ کر یہاں محنت مزدوری کر نا بہت مشکل ہے مگر پیٹ کی بھو ک اور گھر وا لو ں کا خیا ل انہیں اتنا مشکل کا م کر نے پر مجبو ر کر تا ہے ان مزدوروں کا کہنا ہے کہ پلاٹوں پر بیت الخلا کی سہو لت مو جو د نہیں جس کی وجہ سے انہیں کا فی مشکلات کا سا منا ہے جبکہ پینے کے لئے صاف پانی کی عدم فرا ہمی کے با عث اکثر مزدور آ ئے روز پیٹ کی تکلیف میں مبتلا رہتے ہیں اور کلینک میں ادویات نہ ہو نے کی وجہ سے کئی کئی روز اس تکلیف سے گز رنا پڑ تا ہے۔اس حوا لے سے جب کلینک پر مو جو د ڈا کٹر سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ اس کلینک کے لئے ان کے پاس اسٹا ف بہت کم ہے جس کی وجہ سے صفا ئی کا کو ئی انتظا م نہیں ہے ایک ٹوٹا ہوا بستر ہے جبکہ ایک ایمو لینس موجود ہے جب بھی کوئی حادثہ پیش آ تا ہے تو انہیں کا فی پر یشا نی کا سا منا کر نا پڑ تا ہے جبکہ چند ایک ادویات کے علاوہ یہاں کچھ بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے ان مزدوروں کو اپنا علا ج پرائیوٹ ہسپتالوں میں کر وا نا پڑ تا ہے۔ مزدوروں کے مسا ئل کے حوا لے سے تنظیم شپ بریکنگ لیبر یو نین گڈانی کے جنرل سیکرٹری ابو عبدالکریم جان کا کہنا تھا کہ جب سے اس یا رڈ پر یو نین کا قیا م عمل میں آ یا ہے تب سے لے کر آج تک کچھ حد تک انہو ں نے مز دروں کے مسا ئل کو حل کر نے کو شش کی ہے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ 132میں سے صرف32پلا ٹ ایسے ہیں جو رجسٹر ڈ ہیں باقی کے پلا ٹ ابھی تک رجسٹر ڈ نہیں ہو ئے جبکہ ان پلا ٹو ں پر کا م کر نے وا لے مز دور وں کوپلا ٹ کا ٹھیکیدار صرف تب تک اپنے سا تھ رکھتا ہے جب تک ان پلا ٹ پر شپ بریکنگ کا کا م چل رہا ہو تا ہے اس کے بعد ان کو فا رغ کر دیا جا تاہے جس کے بعد یہ مز دور دوسرے پلاٹ پر آ نے وا لے بحر ی جہا ز کا انتظا ر کر تے ہیں اور یہی حا ل تمام پلاٹوں کے مز دوروں کا ہوتا ہے۔ مز دوروں کے لئے ہمپلا ئز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن ،ورکرز ویلفیئر بورڈاورسوشل سیکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کے نام سے تنظیمیں تو کا م کر رہی ہیں مگر ان تنظیموں میں مز دوروں کی رجسٹریشن کا طریقہ کا ر کا فی مشکل ہے ۔ان تنظیموں کے مطا بق مزدور کی تنخوا ہ 15ہز ار سے کم نہ ہو جبکہ مزدور ایک جگہ پر 4ما ہ تک کا م کرنے کا تجربہ رکھتا ہو، ان مشکلا ت کی وجہ سے کئی مزدور ان پلا ٹوں پر کا م چھوڑ کر اپنے شہر وں کو چلے جا تے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر سا ل اس یارڈ سے ایف بی آ ئی کو ساڑھے سا ت ارب کے قر یب ٹیکس ادا کیا جاتاہے اس کے باو جود بھی یہ یارڈ حکومت کی عدم تو جہی کا شکا ر ہے ۔ن کا کہنا تھا کہ جا م یو سف جب وزیر اعلیٰ تھے تو اس وقت ہم نے مر نے وا لوں کے لواحقین کو دیئے جا نے والے پیسوں کی گرانٹ ان سے منظور کر وا کر 3لاکھ روپے کروادی مگر پچھلے دو سال سے وہ بھی بند ہے۔ 2000سے لے کر 2014تک105مزدور اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں جن میں سے43مز دور ایسے ہیں جن کے لواحقین کو کو ئی معاوضہ نہیں دیا گیا۔ مزدوروں کے مسا ئل کے حل کے حوا لے سے انہو ں نے کہا کہ ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن اورسوشل سیکیورٹی ڈیپارٹمنٹ اگر مز دوروں کی رجسٹریشن کے طر یقہ کا ر میں تھو ڑ ی سی تبد یلی لے آ ئیں تو ان کے مسا ئل کا فی حد تک حل ہو سکتے ہیں۔ جبکہ حکومت صحت و صفا ئی کے معا ملا ت پر تو جہ دے ،کلینک میں عملے کی تعداد میں اضا فے کے سا تھ ادویات کی فراہمی ،ایمو لینسز کی تعداد میں اضافے کے سا تھ دیگر سہو لیات کو یقینی بنا ئے ، کیو نکہ گڈا نی شپ بر یکنگ یا رڈ نہ صرف وہاں کے مزدوروں کے روزگار کا باعث ہے بلکہ یہ صوبے کی معاشی ترقی کا بھی اہم ذریعہ ہے۔