|

وقتِ اشاعت :   June 27 – 2021

ایک دور میں حکومت وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا تھا جس دوران بلوچستان میں امن وامان قائم ہوا۔ میرٹ کا تقدس بحال ہوا،عوام کو روزگار مہیا کیا گیا اور نئی درسگاہیں تعمیر کی گئیں۔ڈاکٹر مالک بلوچ بلوچستان کے چھوٹے بڑے مسائل سمیت قومی مسائل کو بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوششیں کرتے رہے جن میں سر فہرست لاپتہ افراد کا مسئلہ تھا لیکن اس حوالے سے اپنی بے بسی کا اظہار وزرات اعلی ٰکے دور میں کیا۔آپ ایک عوامی اور مخلص لیڈر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔آپکی سیاسی جدوجہد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے ڈھائی سالہ دور میں صحافیوں نے غیر جانبدارانہ تجزیے بھی انکے حق میں کئے اور کئی مقامات پر انکے سیاسی حریفوں نے بھی انکی مختصر مدت جوکہ 2013 سے 2015 تک کے ڈھائی سالہ دورِ حکومت کی تعریفیں کیں۔

ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ ہر رکاوٹ و مخالفت کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے بلوچستان میں اجتماعی اور شعوری کام کرنے سے پیچھے نہ ہٹے ،ڈاکٹر صاحب بلوچستان کی تاریخ کے بہترین وزیراعلیٰ ثابت ہوئے۔ انکی حکومت میں بلوچستان میں تعلیمی ادارے قائم ہوئے۔جن میں میڈیکل کالجز، لاء کالجز، یونیورسٹی کیمپسز وغیرہ شامل ہیں ۔ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ صاحب خود عوام دوست اور تعلیم سے محبت کرنے والا ورکر کلاس لیڈر ہے جنہوں نے اس سے پہلے بھی گزشتہ ادوار میں گر کوئی بھی ذمہ داری سنبھالی تو بلوچستان کی تعلیم و ترقی کے لیے بھر پور مثبت اقدامات کئے۔بلوچستان کے ساحل وسائل کے لئے جدوجہد کرتے نظر آئے۔انہوں نے بطور وزیر اعلیٰ اپنے دورِ حکومت میں عزت اور عوام کی محبت حاصل کی۔اس مخلصی کی وجہ سے آج بھی بلوچستان کی عوام انکے دور حکومت کو یاد کرتے ہیں۔

70 سالہ استحصالی نظام میں جکڑے بلوچستان کے مسائل کو مکمل طور پر حل کرنا ممکن نہ تھا لیکن ڈھائی سال کے مختصر دورِ حکومت میں بطورِ وزیراعلیٰ جو کام ڈاکٹر صاحب نے کیے تاریخ گواہ ہے ایسے اقدامات پانچ سالہ حکومتوں میں بھی کوئی نہ کرسکا۔
رہی بات ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ صاحب کے دورِ حکومت پر تنقید تو حقیقت کی بنیادپر وہی لوگ تنقید کریں گے جنہوں نے کبھی ڈاکٹر صاحب کے مثبت کاموں کو سراہا بھی ہو ،باقی ہر شخص کا اپنا نقطہ نظر بزور طاقت بدلا نہیں جاسکتا۔تنقید برائے اصلاح بھی جمہوریت کا حسن ہے اگر وہ حقائق کی بنیاد پر ہو، کوئی انسان مکمل نہیں ہوتا، حالات کو مدِ نظر رکھ کر 70 سالہ بگاڑ کو ڈاکٹر مالک بلوچ نے مختصر دور حکومت میں کافی حد تک بہترکرنے میں کامیاب ہوئے۔

اب موجودہ وقت میںوزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال بلوچستان کی عوام پر مسلّطہیں۔جسکے نام کی طرح بلوچستان کی حکومت بھی جام ہے۔ چار دن میں بنائی جانے والی باپ پارٹی جس کا کوئی حقیقی ڈھانچہ ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی جدوجہد۔جو بلوچستان کی عوام پر ایک استحصال ٹولے کی شکل میں مسلّط ہوئی ہے۔سارے بلوچستان کے موسمی پرندے جمع کرکے اس پارٹی میں لائے گئے ،یہ رسم روز اول سے بلوچستان میں دہرائی جارہی ہے۔پارٹیوں کے نام تبدیل ہوتے ہیں چہرے وہی ہوتے ہیں جنہوں نے بلوچستان کی عوام کا 70 سالوں سے استحصال کیا ہے اور کر رہے ہیں۔
جام کمال صاحب ایسے وزیراعلیٰ ہیں جنکی موجودہ حکومت میں ہر مکتبہ فکر سراپا احتجاج ہے۔ پْر امن احتجاج کرنے والے چاہے طلباء و طالبات ہوں، لاپتہ افراد کے لواحقین، یا ملازمین اور صوبے کی عوام، لیکن جام صاحب اور وزیروں کی ڈھٹائی کی حد یہ ہے کہ بجائے بلوچستان کے لوگوں کے احتجاج کا نوٹس لیتے ، ان کے مسائل سنتے اورانہیںحل کرتے لیکن انہوں نے گزشتہ تین سالوں میں ہر پرامن مظاہرین پر ڈنڈے و پولیس گردی کی انتہا کی کردی اور عزت دار لوگوں کی کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچایا۔

گزشتہ دنوں رواں مالی سال بجٹ 21/22 کے اجلاس کے دوران اپوزیشن اراکین بلوچستان اسمبلی سراپا احتجاج تھے۔ بقول اْنکے ہمارے حلقوں میں غیر منتخب لوگوں کو فنڈز فراہم کئے گئے اور ہمارے فنڈز میں کٹوتی کی گئی۔بجٹ عوام دشمن تھا۔اس موقع پر جام صاحب نے اپنی گزشتہ روایات کو اپنا کر اسمبلی کے باہر پولیس کے ذریعے اپوزیشن اراکین پر تشدد کرایا (اس دوران جام صاحب پر جوتے بھی پھینکے گئے جوکہ ایک غیرجمہوری اقدام تھا اور ہماری بلوچستان کی روایات کے بھی برعکس تھا اس اقدام کی کوئی بھی حمایت نہیں کرتا) اور اس دوران پولیس کی گاڑیوں کے ذریعے دروازے توڑے گئے۔جس سے اپوزیشن اراکین سمیت دیگر مظاہرین بھی زخمی ہوئے۔ اپوزیشن اراکین پر حکومت بلوچستان کی جانب سے ایف آئی آر بھی درج کی گئی۔ جس کے جواب میںاپوزیشن اراکین نے رضاکارانہ طور پر گرفتاریاں دیں۔اپوزیشن اراکین کے ساتھ ساتھ جام صاحب کی ناقص پالیسیوں سے انکے وزیر بھی خفا ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے صالح بھوتانی کا وزارت سے استعفٰی کے بعد وزیر تعلیم یار رند کا بھی استعفیٰ سامنے آگیا، ان کا کہنا ہے مجھے بطور وزیر تعلیم ایک ڈی ای او تبدیل کرنے کے اختیارات نہیں ہیں ،موجودہ وزیراعلیٰ کی قیادت میں حکومت ناکام ہوچکی ہے مزید ضمیر گوارہ نہیں کرتا اس حکومت کا حصہ رہوں۔
اب ایک وزیر اپنے اختیارات کے حوالے سے بے بس ہے تو بلوچستان کی عوام کا کیا ہوگا۔سردار یار محمد نے بھی تھانہ جاکر اپوزیشن اراکینسے اظہارِ ہمدردی کی۔
جام صاحب کی حکومت اور پارٹی کا نعرہ تو ابھرتا بلوچستان ہے لیکن بلوچستان کے حالات اور عوام کو بنیادی سہولیات مہیا کرکے انکی زندگیوں کو بہتر بنانے اور صوبے کی عوام کو ابھرتا بلوچستان کے خواب دکھانے والی موجودہ بلوچستان عوامی پارٹی کی حکومت عوام کو امن و امان، خوشحالی، تعلیم و تمام بنیادی سہولیات دینے میں مکمّل طور پر ناکام ہوچکی ہے ۔اس لیے ہر جانب جام حکومت کی کارکردگی کودیکھتے ہوئے ڈوبتا بلوچستان کے نعرے لگ رہے ہیں۔