|

وقتِ اشاعت :   July 2 – 2021

بلوچستان کی سیاست میں ایک معقول تعداد ایسے با اثر افراد کی ہے جو اپنے ذاتی اثرورسوخ کی بنیاد پر الیکشن میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ ایسے افراد کو ہمارا میڈیا الیکٹ ایبل یا لوٹا کہتا ہے۔ ایسے افراد ہر بننے والی نئی حکومت میں اس خواہش کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں کہ انہیں کوئی وزارت یا عہدہ ملے گا جس کے ذریعے وہ اپنے ذاتی اثر و رسوخ میں اضافہ کر سکیں گے اور ترقیاتی فنڈز ملیں گے جس کے ذریعے وہ اپنے ووٹرز کو مطمئن رکھ سکیں گے۔ریاست عرصے سے بلوچستان کو ڈمیوں کے ذریعے چلانے کی کوشش کررہی ہے۔

نتیجہ بغاوت یا تحریک کی شکل میں سامنے آگیا،باپ پارٹی میں شامل افرادآئندہ کے لائحہ عمل میں ابھی سے اندازہ لگائیں گے کہ اگلی حکومت کس کی بننے جارہی ہے اگر ن لیگ کی حکومت بنتی نظر آئی یہ سب لائن لگا کر ن لیگ میں شامل ہوجائیں گے اور اگر پیپلز پارٹی کی چھوٹی جماعتوں کے ساتھ مخلوط حکومت بنتی نظر آئی تو یہ ان کے ساتھ رہتے ہوئے اپنا ایک پریشر گروپ قائم رکھتے ہوئے اقتدار میں اپنا حصہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔

روزا بروکس اپنی کتاب Democracy not is Dynasty A میں کہتی ہیں کہ موروثی سیاست یا قیادت کو بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک غیر جانبدار عدالتی نظام حکومتوں کی کارکردگی کی نگرانی کرے جبکہ ایک طاقتور الیکشن کمیشن انتخابی نظام کی سختی سے نگرانی کرے۔ اس کے علاوہ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ قومی دولت کی بہتر تقسیم اور صنعتی ترقی بھی موروثی سیاست کو کمزور کر سکتی ہے۔
پاکستان کے اکثر سیاسی خاندان برِ صغیر میں برطانوی حکومت کے دوران انگریزوں کے وفادار تھے۔ اس وفاداری کے بدلے میں انہیں جائیدادیں عطا کی گئیں جس کے بعد کوئی چودھری،کوئی لغاری سردار ، مزاری سردار ، کھوسہ سردار، کوئی نواب تو کوئی راجہ بن گیا۔

پاکستانی حکومت پر اس ’’مخصوص ٹولے‘‘ کے قبضے کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔لاہور کے انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اینڈ اکنامک آلٹرنیٹوز کے محقق، ڈاکٹر علی چیمہ اور ان کے ساتھیوں نے پاکستان کی موروثی سیاست کا موازنہ چند دوسرے ممالک سے کیاہے۔ ان کے مطابق، امریکی کانگریس میں 1996 میں موروثی سیاست کا حصہ تقریباً 6 فیصد تھا، بھارت کی لوک سبھا میں 2010 تک 28 فیصد، جبکہ پاکستان کی قومی اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں موروثی سیاست دانوں کا حصہ 53 فیصد تھا۔ اپنے رکن اسمبلی جہانگیر خان ترین کی نااہلی کے بعد انہی کے بیٹے علی ترین کو ان کی خالی نشست کیلئے نامزد کیا تو عمران خان پر بھی موروثی سیاست کی حمایت کرنے کے الزامات لگے۔
موروثی سیاست یا قیادت صرف بڑے خاندانوں تک محدود نہیں ہے یہ طرز سیاست معاشرے کے نچلے طبقوں میں بھی بہت زیادہ مروج ہے۔ ایک خاندان کی اجارہ داری صرف قومی یا صوبائی اسمبلیوں تک ہی محدود نہیں، مقامی حکومتوں میں بھی امیدواروں کی شرح موروثی سیاست کو واضح طور پر ظاہر کرتی ہے۔ میڈیا پر بیٹھ کر موروثی یا خاندانی سیاست کو برا بھلا تو کہا جاتا ہے مگر عملاً اس حمام میں سب ننگے ہیں۔
بلوچستان میں سیاست کا محور قبائلی یا خاندانی وفاداریاں ہیں، سیاسی جماعتیں نام کی حد تک وجود رکھتی ہیں۔ بزنجو، رئیسانی، مری، مینگل، بگٹی، زہری،اچکزئی غرض کسی کا نام بھی لیں تو ان سارے خاندانوں کی سیاسی نظام پر اجارہ داری اپنے اپنے قبائلی یا نسلی خطوں میں برقرار ہے۔ بہت سے تلخ تجربات سے گزرنے کے باوجود بلوچ قوم پرستی اور جمہوری طرز پر سیاست کرنے والی جماعتیں اپنے انا کے خول اور عداوت کی لکیروں سے باہر نہ نکل سکیں جس کا خمیازہ نہ صرف خود یہ سیاسی جماعتیں بھگت رہی ہیں بلکہ حقیقی نمائندگی سے محروم عوام بھی اٹھارہے ہیں۔

بلوچستان میں مورثی سیاست یاسردار زادگان نے ہر دور میں بلوچ قومی سیاست کو اپنے مفادات کیلئے قربان کرتے رہے، تبدیلی پیدا وار نے جذباتی نعروں کو غلط رنگ دے کر محلاتی سوچ کو دوام بخشا،علمی سیاست کی جڑ اکھاڑ کر مفادات فردی بالادستی وغیرہ جمہوری اصولوں کے تحت ایک سیاسی پارٹی کو خاندانی جتھے کی شکل دے کر قبضہ گیریت کی عظیم روایت قائم کردی گئی۔