|

وقتِ اشاعت :   March 31 – 2015

وزیراعظم میاں نواز شریف نے اس بات کا دوبارہ اعادہ کیا ہے کہ کراچی آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچایاجا ئے گا ۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف ہے کسی مخصوص سیاسی پارٹی کے نہیں ۔ کور کمانڈر اور ڈی جی رینجرز سے ان کی خصوصی ملاقات ہوئی اور ان دونوں افسران نے وزیراعظم کو کراچی کی صورت حال پر بریف کیا جس کے بعد انہوں نے بعض ہدایات سیکورٹی افواج کو دیں جس میں واضح پیغام تھا کہ کراچی شہر سے دہشت گردی اور جرائم خصوصاً سنگین جرائم کا خاتمہ کیا جائے۔ کراچی آپریشن کو جاری ہوئے تین سال گزر چکے ہیں ان کو یہ اہداف پہلے سال ہی حاصل کرنا چائیے تھے ۔ مگر گو مگو کی حالت میں بعض فیصلے بہت دیر بعد کیے گئے ۔ شاید سیکورٹی افواج کومناسب وقت اور مناسب شواہد کا انتظار تھا جس کی وجہ سے کارروائی اتنے سالوں جاری رہی ۔ یہ پہلی بار ہے کہ امن وامان کی صورت حال پر اجلاس میں متحدہ کے گورنر کو نہیں بلایا گیا بلکہ سرکاری بریفنگ سے وزیراعلیٰ سندھ کو بھی باہر رکھا گیا تاہم وہ حساس بریفنگ کے بعد ہی اجلاس میں شامل ہوئے ۔ یہ واضح پیغام تھا کہ صرف اور صرف وفاق اور وفاقی فورسز یہ کارروائیاں کررہی ہیں ۔ وزیراعلیٰ سندھ کو بریفنگ میں نہ بلانے سے یہ پیغام واضح ہے کہ وفاق کا صوبے کی حکومت پر ،،مکمل اعتماد،، نہیں ہے ۔ دوسری جانب پولیس نے چار افراد کو ایک چھاپے میں گرفتار کیا تھا ان میں ایک ملزم شکیل تھا جس نے پولیس کے سامنے اقبالی بیان میں یہ انکشاف کیا کہ اس نے ساتھیوں کے ہمراہ بیرل میں کیمیاوی اور آتش گیر مواد فیکٹری میں پہنچایا تھا اور ساتھیوں کی مدد سے چوکیدار پر قابو پا لیا تھا ۔ اس کے ہاتھ پیر باندھنے کے بعد کیمیاوی مواد کو جنریٹر کے قریب لا کر آگ لگائی تھی جس سے فیکٹری میں موجود 259افراد جھلس کر ہلاک ہوئے ۔گارمنٹ فیکٹری مکمل طورپر تباہ ہوگئی تھی اس سے قبل ایک اور ملزم نے یہ انکشاف کیا تھا کہ فیکٹری کے مالکان نے بیس کروڑ روپے کا بھتہ نہ دیا جس پر فیکٹری ، مالکان اور مزدوروں کے خلاف کارروائی کی گئی تھی ۔ پولیس نے یہ تمام شواہد اکٹھے کیے ہیں تفتیش جاری ہے ۔ مقدمہ متحدہ کے کارکنوں اور رہنماؤں کے خلاف ہوگا جو اپنی نوعیت کا سنگین مقدمہ تھا ظاہر ہے کہ اس مقدمے کے بعد اس میں شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ متحدہ کے پاس عسکری ونگ موجود ہے ۔ کراچی میں گرفتار 90فیصد جرائم پیشہ افراد کا متحدہ سے تعلق بتایا جارہا ہے ۔ نوے فیصد جرائم سے تعلق رکھنے والے مقدمات میں متحدہ کے لوگ ملوث ہیں ان میں سب سے زیادہ تعداد ٹارگٹ کلنگ ، اغواء برائے تاوان ، دہشت گردی اور بھتہ کی وصولی شامل ہیں ۔ وفاق اور وفاقی سیکورٹی اداروں کا مقصد یہ نظر آتا ہے کہ متحدہ کے عسکری ونگ کا ہر قیمت پر خاتمہ کیا جائے ۔ چاہے اس کے نتائج کچھ ہی کیوں نہ ہو ں ۔ ان تمام متحدہ کے رہنماؤں کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے جو جرائم کی پشت پناہی کرتے آرہے ہیں ۔ یا وہ عسکری عناصر کے دفاع اور ان کو پناہ دینے میں پیش پیش ہیں ۔ اب شاید متحدہ میں تقسیم اس بنیاد پر ہو سکتی ہے کہ پہلے عسکری عناصر کا خاتمہ کیا جائے ۔ ان کوغیر مسلح کیا جائے تاکہ وہ طاقت کے زور پر جلسے جلوس اور ہڑتالیں نہ کر اسکیں ۔البتہ لوگ مرضی سے اور پر امن طریقے سے احتجاج کریں گے تو ان کو نہیں روکا جائے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ متحدہ کے کارکنان اور رہنماؤں پر بجلی کب گرتی ہے؟ کراچی کا ضمنی انتخاب ایک ٹیسٹ کیس ہوگا۔ پہلی بار متحدہ کو پولنگ اسٹیشن پر قبضہ نہیں کرنے دیا جائے گا اس پیمانے پر بوگس ووٹوں سے باکس نہیں بھرے جائیں گے جیسا کہ پہلے ہوتا رہا ہے۔ مخالفین کو مکمل تحفظ فراہم کیاجائے گا تاکہ وہ اپنی مہم چلا سکیں ۔ شاید متحدہ کے کارکن زبردستی اور بندوق کے نوک پر ووٹروں کو پولنگ اسٹیشن نہیں لے جاسکیں گے ۔ وہ اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھیں گے تو دوسروں پر کیا دباؤ ڈالیں گے کہ ووٹ کس کو دیں ۔ بہر حال متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز میں یہ ضمنی انتخابات ہورہے ہیں اور دیکھنا یہ ہے کہ متحدہ کی اصل سیاسی قوت کیا ہے؟