تقریباً 180جنگی جہازوں جن میں سے 100کا تعلق سعودی عرب سے ہے، حوثی قبائل کے ٹھکانوں پردو راتوں سے مسلسل حملے کررہے ہیں ۔ حوثی باغیوں کی جانب سے کہا گیا کہ ان حملوں میں 22افراد ہلاک ہوئے ،ان میں ایک ڈاکٹر بھی شامل ہے جو اپنی کلینک پر حملے میں ہلاک ہوا ۔ کئی ایک مکانات بھی حملے میں تباہ ہوئے ۔ سعودی عرب کے علاوہ کویت ‘ عرب امارات‘ بحرین کے جنگی جہازوں نے ان فضائی حملوں میں حصہ لیا ۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ‘ بشمول امریکا اس وقت حرکت میں آئے جب حوثی قبائل اور ان کے حمایتی نے عدن پر حملہ کیا اور اس پر قبضہ کی کوشش کی ۔اس حملے کو باب المندب پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کے طورپر دیکھا گیا ۔آبنائے ہرمز جو ساحل مکران پر واقع ہے ۔ پہلے ہی ایران کے کنٹرول میں ہے اور اگر باب المندب یا گلف آف عدن بھی ایران کے حمایتی کے پاس چلاگیا تو پورا خطہ ایران کے کنٹرول میں چلا جائے گا۔ دونوں بڑے بحری راستوں پر ایران کی حکمرانی ہوگی ۔ جب تک ایران کے حمایتی شمالی یمن پر قابض تھے تو خطے کے ممالک اور ان کے اتحادی امریکا نے زیادہ سخت رد عمل کا اظہار نہیں کیا ۔ جب وہ آبنائے مندب یا باب المندب کی طرف بڑھے تو اتحادی کا شدید رد عمل سامنے آیا ۔ اس میں تین بڑے اسلامی ممالک ‘ پاکستان ‘ ترکی اور مصر بھی شامل ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں موقع مناسب جانتے ہوئے تمام ممالک نے ایران کے خلاف ایک متحدہ فوجی محاذ بنا لیا۔ پاکستان اور مصر نے یہ با قاعدہ اعلان کیا ہے کہ وہ عرب ممالک کے ساتھ ہیں اور ان کا رد عمل انتہائی شدید ہوگا اگر سعودی عرب کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوئے۔ پاکستان کا ایک اعلیٰ سطحی وفد مشیر سلامتی سرتاج عزیز کی سربراہی میں سعودی عرب پہنچ گیا ہے ۔ یہ وفد ماہرین پر مشتمل ہے جو سعودی حکام سے ملاقاتیں کرنے کے بعد سعودی فوجی ضروریات کا اندازہ لگائے گا اوراس سے حکومت پاکستان کو آگاہ کرنے کے بعد سعودی فوجی ضروریات کا اندازہ لگائے گا اور اس سے حکومت پاکستان کو آگاہ کرے گا۔ اس میں امکان ہے کہ پاکستان کی فضائیہ اور بری فوج کے دستے ضرورت پڑنے پر خطے میں روانہ کیے جا سکتے ہیں ۔ زیادہ تر گمان ہے کہ سعودی عرب بحریہ اور فضائیہ کی مدد طلب کر سکتا ہے ۔ گوکہ پاکستان کی سیکورٹی صورت حال اندرونی اور بیرونی دونوں قابل رشک نہیں ہیں ۔ اس کے باوجود پاکستان سعودی عرب اور اس کے گلف اتحادیوں کی فوجی مدد کو جائے گا۔ بہر حال صورت حال کچھ ہی کیوں نہ ہو ایران کے خلاف مسلمان ممالک کا ایک زبردست فوجی اتحاد بن گیا ہے ۔ اب ایران کو چھوٹے چھوٹے گلف ممالک کا سامنا نہیں ہے بلکہ ایسے فوجی اتحادیوں کا سامنا ہے جس میں پاکستان ‘ ترکی اور مصر شامل ہیں اور امریکا ان سب کا اتحادی بھی ہے ۔ اس سے قبل بعض مبصرین یہ کہتے تھے کہ ایران توسیع پسندی کی طرف گامزن ہے ۔ چار عرب ممالک ‘ عراق‘ شام ‘ لبنان اور یمن اس کے ماتحت ہوچکے ہیں اور اب دوسرے گلف ممالک کی باری ہے جن کو وقت ملنے پر سبق سکھایا جا سکتا ہے ۔ موجودہ صور ت حال میں ایران چاروں عرب ممالک عراق ‘ شام ‘ لبنان اوریمن میں فوجی لحاظ سے موجود ہے جس کو عرب اور دوسرے سنی ممالک شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور بعض مبصرین ایران پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ اپنی شیعہ انقلاب دوسرے ممالک میں بر آمد کررہا ہے ۔ ایران میں معاشی بد حالی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ایران کی دولت کا ایک بڑا حصہ دوسرے ممالک میں شیعہ انقلاب کو بر آمد کرنے پر خرچ ہورہا ہے یہ بات شاید اب نا قابل برداشت ہوتی جارہی ہے ۔ راتوں رات دس ممالک پر مشتمل فوجی اتحاد قائم ہوگیا جس کو امریکا اپنی مفادات کے تحفظ کی خاطر استعمال کر سکتا ہے ۔ ایران دوسری جانب تنہا نہیں ہے اس کے ساتھ عراق ‘ شام کھڑے ہیں اور اس کوروس کی پشت پناہی حاصل ہے ۔ ایران کے نائب وزیر ماسکو کے دورے پر تھے کہ راتوں رات ایران کے خلاف دس مسلمان ممالک کا فوجی اتحاد نہ صرف بن گیا بلکہ اس نے ایران کے حمایتی انصار اللہ جنگجوؤں کے ٹھکانوں پر شمالی یمن میں زبردست حملے کئے ۔ عدن کا پورٹ اور ائیر پورٹ ان سے آزاد کر الیا اور انصار اللہ باغیوں کو پیچھے دھکیل دیا۔ ادھر یمن کے صدر ہادی سعودی عرب پہنچ گئے ہیں ۔
ایران کے لئے پیغام
وقتِ اشاعت : March 31 – 2015