دنیا کہ مختلف ملکوں میں جہاں جمہوری نظام رائج ہے وہاں مقامی سیاست سے لے کر قومی سیاست تک جو لوگ آگے آتے ہیں وہ اس نظام کی بھٹی میں پک کر کندن بنتے ہیں تو پھر وہ کسی مقام تک پہنچتے ہیں
جسکی بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں کہ کسی نے کیسے سیاست شروع کی اور کن مشکلات کے بھنور سے گزر کر وہ کسی مقام تک پہنچے اور پھر اپنے نظریہ کی سربراہی کی یا مختلف ملکوں کے سربراہ مملکت بھی بنے ۔اور تو چھوڑیں پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان اسکی مثال ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے قیام اور وزارت عظمیٰ کے سفر میں انہوں نے بائیس سال جدوجہد کی تاہم کچھ لوگ اب بھی کہتے ہیں کہ اگر انہوں نے جہانگیر ترین کی بات مان کرالیکٹیبلز والا شارٹ کٹ نہ مارا ہوتا تو ابھی بھی وہ سیاست کے میدان کارزار میں کمر بستہ رہتے اور دو بڑی جماعتیں ن لیگ اور پیپلزپارٹی بمعہ مولانافضل الرحمان اور کچھ بلوچ، پشتون قوم پرست اقتدار کی میوزیکل چئیر کے اس کھیل میں انکی جگہ نہ بننے دیتے۔ بحر حال جو بھی چاہے یہ فیصلہ شارٹ کٹ کا تھا یا نظریاتی سیاست پر یو ٹرن لیا گیا لیکن یہاں وہاں سے ایم کیو ایم ،جی ڈی اے ،ق لیگ ابتدائی دنوں میں بی این پی مینگل کو ملاکر عمران خان بائیس سال بعد وزیر اعظم بن گئے۔
آپ عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے طریقہ کار پر تنقید کرسکتے ہیں لیکن انکی جدوجہد پر نہیں عمران خان کی اس جدوجہد کو کیش کرنے کیلئے جہانگیر ترین سمیت بہت سے الیکٹیبلز نے پولیٹیکل انویسٹمنٹ کی، کوئی ڈپٹی پرائم منسٹر بننا چاہتا تھا تو کوئی وزارت اعلیٰ کا امیدوار تھا بحرحال عمران خان نے ان سب کیساتھ کچھ ایسا کیا جیسا انہوں نے اپنے کزن ماجد خان اور جاوید میانداد کے ساتھ کرکٹ کے زمانے میں کیا تھاکچھ ایسا ہی سلوک انہوں نے ان تمام سیاسی سرمایہ کاروں کی اکثریت کے ساتھ کیا لیکن کچھ لوگ انکی نظروں سے اوجھل رہے جو لوگ اوجھل رہے وہ اس وقت وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے سہی معنوں میں بینیفشری بھی ہیں ۔زیادہ نہیں حال ہی میں دیکھ لیں بلوچستان کی حد تک دو ایسے کام وزیر اعظم نے کئے ہیں جس میں سیاسی سرمایہ کاری کا عنصر نمایاں ہے لیکن عہدے حاصل کرنے والے ان افراد نے ان لوگوں پر سرمایہ کاری کی جو وزیر اعظم عمران خان کے بینیفشری ہیں کیونکہ وزیر اعظم پر براہ راست سرمایہ کاری کرنے والے کو منفی نتائج ملے جسکی سب سے بڑی مثال جہانگیر خان ترین ہیں۔ بلوچستان میں حال ہی میں گورنر کی تعیناتی عمل میں لائی گئی ہے اور اسکے لئے تحریک انصاف کے ایک رہنماء ظہور آغا کے نام کاقرعہ فال نکلا ہے۔
تمام لوگ یہ جانتے ہیں کہ تحریک انصاف سے ظہور آغا کی وابستگی کی بنیاد انکی قاسم سوری سے دوستی ہے اس دوستی میں اتار چڑھائو آتے رہے ہیں لیکن مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب پہلی مرتبہ قاسم سوری پی ٹی آئی کے آرگنائیزر بنے تو کسی نے یہ سوال پوچھا کہ سیاست میں پیسہ چلتا ہے یہ نوجوان پیسہ کہاں سے لائے گا تو اس وقت یہ بات سامنے آئی تھی کہ کوئٹہ کی ایک فلور مل کا مالک انکا دوست ہے اور وہ ان پر سیاسی سرمایہ کاری کررہا ہے۔اس الزام میں حقیقت ہو یا نہ ہو لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ نائب صدر اورسینیئر نائب صدر جیسے عہدوں پر قاسم سوری کے ساتھ ظہور آغا ضرور رہتے تھے جس سے اس الزام کو تقویت ملتی رہی کہ قاسم سوری کے سیاسی انویسٹر ظہور آغا رہے ہیں یا پھر ہیں۔ ایسے ہی وقت گزرتا رہا اور ظہور آغا اور قاسم سوری نے تحریک انصاف میں لمبا وقت ایک ساتھ گزارا ،اس دوران کبھی ظہور آغا قاسم سوری کو چھوڑ کر نواب زادہ ہمایوں جوگیزئی کے کیمپ میں گئے تو قاسم سوری سردار یار محمد رند کے کیمپ میں پہنچے تو ظہور آغا نور محمد دمڑ کیساتھ شریک سفر ہوئے ۔اس دوران کوئٹہ میں عمران خان کے ایک دورے پر انکی گاڑی کے سامنے احتجاج بھی ہوا جسکی سربراہی ظہور آغا کررہے تھے تاہم اب یہ قصہ ماضی ہوچکا ہے ۔
بحر حال قاسم سوری پر قسمت کی دیوی مہربان اس وقت ہوئی جب گزشتہ انتخابات کے فوری بعد سردار یار محمد رند اور جہانگیر ترین کے تعلق میں دراڑ آئی ،اسی وقت قاسم سوری ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے جسکے بعد دوبارہ ظہور آغا اور قاسم سوری یک جان اور دو قالب ہوئے ۔حالیہ سینیٹ انتخابات میں اچانک ایک نئے سرمایہ دار عبدالقادر وارد ہوئے پہلے تحریک انصاف نے انہیں ٹکٹ دیا پھر ظہور آغا کو دیا اور پھر واپس لیا جس کے بعد وہ سرمایہ دار موصوف بی اے پی اور تحریک انصاف کی حمایت سے جیتے اور پھر تحریک انصاف میں چلے گئے ۔اپنی کامیابی کے بعد صرف ان دنوں کوئٹہ یا بلوچستان آتے ہیں جس وقت وزیر اعظم کا کوئی دورہ ہو تو وہ سینیٹرموصوف بھی دورہ بلوچستان پر آکر چلے جاتے ہیں ۔کہا جاتا ہے اس وقت وہ سب سے مہنگے سینیٹر شمار ہوتے ہیں اور اس سینیٹ کی نشست کے حصول میں انہیں احمد خان خلجی اور صادق سنجرانی چئیرمین سینیٹ کی حمایت حاصل رہی جنکے ذریعے انہوں نے ان ڈائیریکٹ پاکستان تحریک انصاف میں جانے کا راستہ بنایا۔
ان دو واقعات پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا سیاست کیلئے سرمایہ دار ہونا ضروری ہے اور کیا سرمایہ کاری کے ذریعے سیاست میں انٹری یا کسی بڑے عہدے کے حصول کے یہ چند واقعات ہیں۔ نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے ماضی میں نگران وزیر اعلٰی بلوچستان علائوالدین مری نے سینیٹر بننے کیلئے اپنے دوست قدوس بزنجو پر سیاسی سرمایہ کاری کی تاہم سینیٹر تو نہیں لیکن نگران وزیر اعلٰی ضرور بنے ظہور آغا نے قاسم سوری پر جو کارڈ کھیلا وہ بھی سینیٹ میں کیش نہ ہوا لیکن اب انکی بطور گورنر تعیناتی پر کیش ہوچکا ہے۔
سرمایہ کاری کی یہ سیاست صرف بی اے پی یا پی ٹی آئی تک محدود نہیں ماضی میں قوم پرست نظریاتی اصولوں کی دعویدار جماعتوں نے بھی حقیقی سیاسی کارکنوں پر خاندانی رشتو ں کو اور اسکے بعد سیاسی سرمایہ کاروں کو ترجیح دی ہے جسکی مثالیں نیشنل پارٹی میں ڈاکٹر اشوک کمار بلوچستان نیشنل پارٹی میں نسیمہ احسان شا ہ اور ساجد ترین کی شکست اور قاسم رونجھو کی کامیابی کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں یہاں تک کہ اس فہرست میں بقول زینت شاہوانی کہدہ بابر بھی شامل ہیں تو سیاسی سرمایہ کاری کے اس حمام میں کون ہے جو بے لباس نہیں ۔ایسی صورتحال میں حقیقی سیاسی کارکنوں کو نصیحت ہے کہ اگر سیاسی سرمایہ کاری کرسکتے ہیں تو میدان سیاست کے کارزار میں قسمت آزمائیں بصورت دیگر وہ بطور شغل سیاست کریں قربانیوں اور جدوجہد سے گریز کریں کیونکہ پہلے سردار یا سیاسی جماعتوں کے سربراہ قریبی رشتے داروں کو ترجیح دیتے تھے، اب سرمایہ کار وں نے انکی بھی جگہ لے لی ہے اسلئے سیاست کا سفر سوچ سمجھ کر شروع کریں بصورت دیگر کچھ دھائیوں کے سیاسی سفر کے بعد انگشت بدنداں بیٹھنا پڑسکتا ہے ۔