|

وقتِ اشاعت :   April 1 – 2015

متحدہ کے رہنما الطاف حسین نے ایک مرتبہ پھر استعفیٰ دیا اور گھنٹوں میں عوام اور کارکنوں کے بے حد اصرار پر واپس بھی لے لیا۔ الطاف حسین کو مہاجروں کی غیر متنازعہ لیڈر شپ کا شوق ابھی تک موجود ہے اور اس کے ساتھ ریاستی اقدامات سے خوفزدہ بھی ہے۔ آئے دن ریاستی ادارے ان کے اور ان نامور رہنماؤں کے خلاف شہادتیں اکھٹی کررہے ہیں اور الطاف حسین راہ فرار کی بھی تلاش مسلسل پائے گئے ہیں۔ آج کل حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے ان کو مولانا فضل الرحمان اور سردار آصف علی زرداری کی ہمدردیاں حاصل ہوگئیں ہیں۔ اس طرح سے الطاف حسین کو کافی حمایت حاصل ہوگئی ہے۔ دوسری جانب ریاست پاکستان اور ریاستی ادارے اس بات پر عمل کررہے ہیں کہ اس بار متحدہ کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل کردیں گے۔ یہ سب باتیں ریاست کے حامی اینکرپرسن اپنے اپنے پروگرام میں آئے دن بتاتے رہتے ہیں بعض کے پاس اس وقت کے ثبوت پائے گئے جب وہ کچھ بھی نہیں تھے یا سیاست نابلد تھے ہماری سمجھ کے مطابق ریاست صرف متحدہ سے یہ چاہتی ہے کہ اس کا عسکری ونگ ختم کیا جائے۔ ان کے کارکن ہتھیار نہ صرف پھینک دیں بلکہ ہتھیار ڈال دیں اور ایک عام سیاسی پارٹی یا گروہ کی طرح کام کریں۔ شاید یہ بات متحدہ کی اعلیٰ ترین قیادت کو قبول نہیں ہے کیونکہ روز اول سے ان کی سیاست کا اصلی محور ان کا عسکری ونگ تھا اور آج بھی ہے۔ پہلے وہ ریاستی اداروں کے تابع تھا آج کل ان کے خلاف کارروائیاں کررہے ہیں۔ این آر او کی وجہ آٹھ ہزار سے زائد مقدمات الطاف حسین اور اس کے کارکنوں اور رہنماؤں کے خلاف جنرل پرویز مشرف نے ختم کردیئے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں متحدہ سندھ اور خصوصاً کراچی کے بے تاج بادشاہ تھے۔ سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ اسی دور میں عسکری ونگ کے لوگوں نے بھارت اور جنوبی افریقہ جاکر فوجی تربیت بلکہ گوریلا جنگ کی تربیت حاصل کی اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ حالیہ واقعات کے بعد لوگوں میں یہ خوف پایا جاتا ہے کہ متحدہ کے گوریلا ابھی بھی کارروائیاں کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس نازک صورت حال میں شاید یہ جنگی صلاحیت قابل قبول نہ ہو اور اسی لئے ریاست کے ہدف میں ’’جرائم پیشہ اور دہشت گرد‘‘ پیش پیش ہیں۔ متحدہ اور ریاستی اداروں کے درمیان یہ اشارے نہیں ملے ہیں کہ دونوں میں کوئی بات چیت کا امکان ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے متحدہ کے وفد سے ملاقات کے دوران انتہائی ’’سرد مہری‘‘ کا مظاہرہ اور وفد کو بتادیا کہ کراچی میں آپریشن صرف جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کے خلاف ہے۔ متحدہ سندھ کی ایک بہت بڑی پارٹی ہے بلکہ پورے ملک میں تیسری بڑی سیاسی قوت ہے۔ لہٰذا دوسروں کے مقابلے میں متحدہ کے اندر جرائم پیشہ افراد کی تعداد بھی زیادہ ہوگی جتنے لوگ سنگین جرائم مرتکب کرتے ہوئے گرفتار ہوئے ان میں سے بڑی اکثریت کا تعلق متحدہ سے ہے۔ متحدہ اب اس قابل نہیں رہی کہ وہ اپنے گرفتار کارکنوں کی مدد کو آئے بلکہ ان کا معاملہ زیادہ سنگین ہوگیا ہے کہ جو گرفتار نہیں ہوئے ان کو کس طرح بچایا جائے۔ متحدہ اور ریاستی اداروں کے درمیان کوئی مشترکہ حل نظر نہیں آتا۔ الطاف حسین ظاہراً اس سے پریشان ہیں کہ جنوری سے لے کر اب تک وہ متحدہ کی رہنمائی سے استعفیٰ دے چکے ہیں اور انہوں نے اپنا استعفیٰ عوام کے بے حد اصرار پر واپس بھی لے لیا ہے اور ساتھ ہی متحدہ کی مقامی لیڈر شپ میں اکھاڑ پچھاڑ کرتے رہتے ہیں اور اپنی انا کو تسکین پہنچاتے رہتے ہیں کہ وہ پاکستان کے واحد سپریم لیڈر ہیں جو انتہائی نازک مذاق بھی ہیں اسی وجہ سے ریاست پاکستان اور ریاستی ادارے ان کے خلاف گھیرا تنگ کرتے جارہے ہیں۔ یہ کارروائی صرف اور صرف عسکری ونگ یا جرائم پیشہ افراد کے خلاف ہوگی۔ ان لوگوں کے خلاف نہیں ہوگی جن کا دامن صاف ہے۔ اگلے چند ہفتے اس لحاظ سے پاکستان کی سیاست کے لیے اہم ترین ہوں گے کیوں کہ پاکستان کے ارد گرد بہت زیادہ اور خوفناک تنازعات اٹھ کھڑے ہوگئے ہیں۔ ابنائے ہرمز میں کسی قسم کی امریکی کارروائی کے پاکستان پر دور رس اثرات پڑیں گے۔