شہید رانی محترمہ بینظیر بھٹو بلاشبہ اس خطے کی عظیم لیڈر تھی۔ بینظیر ایسے بینظیر نہیں بنی تھی بلکہ بینظیر بننے کے لئے انہوں نے دہائیوں پر مشتمل سخت سیاسی جدوجہد کی اور عوام کی حق حاکمیت، پارلیمنٹ کی بالادستی،ملک میں معاشی برابری، مظلوموں، محکوموں اور خواتین کے حقوق کے لیے لازوال قربانیاں دیں۔ انہوں نے اپنے دور کے سفاک ترین ڈکٹیٹر جنرل ضیاء کا مقابلہ انتہائی جرات اور بہادری سے کیا تھا۔
اس عوامی اور سیاسی جدو جہد میں انہوں نے جیل بھی کاٹی ، بدترین اور غلیظ پروپیگنڈے کا سامنا بھی کیا، عوام دشمن قوتوں نے شہید رانی پر سخت دباؤ ڈالا تھا کہ وہ سیاست سے کنارہ کش ہوجائے اور عوام دشمن قوتوں کے لئے میدان خالی چھوڑ دیں مگر وہ مرتے دم تک قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی فلسفے سے دستبردار نہیں ہوئی اور سیاسی جدو جہد جاری رکھی اور اسی جدوجہد میں اپنی جان تک کی قربانی دی۔
جب محترمہ بینظیر بھٹو شہید ہوئی تو قدرتی طور پر جیالوں میں شدید مایوسی پھیل گئی تھی، کارکن بی بی کے عظیم سانحہ پر شدید غمزدہ اور پارٹی کے مستقبل کے بارے میں فکرمند تھے، پی پی پی کے دشمن بھی یہ سوچ رہے تھے کہ بی بی کی شہادت سے اب پیپلزپارٹی کمزور اور ختم ہو جائیگی، مگر شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے پیچھے بلاول اور آصفہ جیسے بہادر بچے چھوڑے ہیں، جو اپنی ماں کے سیاسی فلسفے پر چلتے ہوئے بی بی کی کمی کو پورا کررہے ہیں۔
بلاول اور آصفہ کے ساتھ پر آسائش زندگی گزارنے کا آپشن بھی تھا وہ پاکستان سے باہر رہ کر آرام دہ زندگی گزارسکتے تھے اس طرح ان کی جانوں کو بھی کوئی خطرہ نہ ہوتا یہ جانتے ہوئے کہ پاکستان میں عوامی سیاست کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے اور اسی عوامی جدوجہد میں ان کے نانا اور عظیم ماں نے اپنی زندگیاں قربان کی تھی ان خطرات اور مشکلوں کے باوجود چیرمین بلاول بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری نے بھٹو صاحب اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے راستے پر چلنے کا فیصلہ کیا۔
عوام کی خوشحالی اور فلاح کے لیے بلاول بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری نے اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کر سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا ہے، جس طرح شہید بینظیر بھٹو پوری زندگی عوام دشمن اور جمہوریت مخالف قوتوں کو للکارتی رہی اسی طرح آج بلاول بھٹو اور آصفہ بھٹو میدان میں نکلے ہیں اور بی بی کی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے بی بی کا راستہ ایک پرخطر اور مشکل راستہ ہے اس راستے پر چلتے ہوئے چیئرمین بلاول اور آصفہ کو بہت ساری مشکلات کا سامنا پڑسکتا ہے۔
آصفہ بھٹو زرداری ایک تو اپنی ماں کے سیاسی ویژن اور فلسفے کو آگے بڑھارہی ہے اور اسی راہ حق پر چل رہی ہے جس عظیم راستے پر بی بی رانی نے جام شہادت نوش کی تھی اور وہ راستہ ہے عوام کی حق حاکمیت ، پارلیمنٹ کی بالادستی ، جمہوریت کی مضبوطی، معاشی برابری، روٹی کپڑا اور مکان ،تعلیم اور روزگار کی فراہمی اور انتہاپسندی کی مخالفت۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ آصفہ بھٹو بینظیر کی حقیقی تصویر اور عکس بینظیر ہے وہی انداز بیان وہی شکل و صورت، عوام اور کارکنوں کے ساتھ وہی پرخلوص اور شفقت آمیز رویہ جس طرح شہید بینظیر بھٹو وفاق کی علامت اور چاروں صوبوں کی زنجیر تھی اسی طرح آصفہ بھٹو زرداری بھی چاروں صوبوں میں مقبول اور چاروں صوبوں کی آواز ہے۔
آصفہ کے سیاست اور عوامی جلسوں میں آمد سے کارکنوں میں ایسا جوش اور جذبہ بڑھ گیا ہے جیسے شہید بینظیر بھٹو پھر سے لوٹ آئی ہو۔اسی لئے یہ نارہ زبان ضد عام ہے کہ زندہ ہے بی بی زندہ ہے، واقعی بی بی زندہ ہے آصفہ بھٹو اور چیئرمین بلاول بھٹو کے شکل میںجس طرح بھٹو صاحب، محترمہ شہید اور صدر زرداری نے کشمیر کا مقدمہ لڑا تھا اسی طرح چئیرمین بلاول اور آصفہ مظلوم کشمیریوں کی آواز بن رہے ہیں اور اب گزشتہ روز آزاد کشمیر کے الیکشن کمپین میں آصفہ بھٹو کے جلسوں میں جیالوں اور عوام کی جوش و خروش نے بی بی کی یاد تازہ کردی اور آگے جاکر آصفہ بھٹو زرداری جیالوں سے مل کر چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھ مظبوط کریں گی، پارٹی کا پیغام ملک کے کونے کونے تک پہنچائیگی، انشاء اللہ بہت جلد پیپلزپارٹی ایک دفعہ پھر ملک کی سب سے بڑی پارٹی بنے گی، اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پاکستان ایک خوشحال اور ترقی یافتہ ملک بنے گا۔