تمام پیڑ جلا کر خود اپنے ہاتھوں سے،عجیب شخص ہے سایہ تلاش کرتا ہے۔اللّہ تعالی نے درختوں کی اہمیت اور افادیت کا ذکر چودہ سو سال قبل ہی کر دیا ھے۔قرآن مجید میں کجھور،زیتون اور بیری کے درختوں کا حوالہ آچکا ہے۔عالم ارواح سے ہی آدم اور درخت کا رشتہ چلا آرہا ہے۔ ویسے بھی جنت کی معنی پوشیدہ ضرور ھے لیکن جنت کی معنی ایک گھنا اور سایہ دار درخت بھی ھے۔
گویا شجرکاری حکم خداوندی اور سنت رسول ہے۔حضور صلی اللّہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اگر کوئی مسلمان درخت لگائے اور اس کی حفاظت کرے یہاں تک کہ وہ درخت بڑا ہوجائے اور کوئی چرند،پرند یا انسان اس درخت سے پھل توڑ کر کھالے تو یہ درخت لگانے والے شخص کا صدقہ ہے۔درخت زمین کے زیور ہیں اور ماحول کو خوبصورت اور دلفریب بنادیتے ہیں۔ سایہ دار درخت مخلوق خدا کیلئے رحمت اور میوہ دار درخت نعمت سمجھے جاتے ہیں۔
درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کو جزب کرتے ہیں اور آکسیجن گیس کو خارج کرتے ہیں جو
تمام جانداروں کے لئے مفید ہیں۔ گرین ہاؤس افیکٹ کی وجہ سے زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے اور اوزون کی تہہ بھی متاثر ہورہی ہے ایسے میں عالمی سطح پر شجرکاری پر زور دیا جارہا ہے۔ تمام درخت زمین کی زرخیزی کیلئے معاون ہوتے ہیں۔
سرد شمالی کرے کے کروڑوں پرندے پاکستان آتے ہیں۔یہ پرندے خوراک کی تلاش میں یہاں آتے ہیں اور سر سبز علاقوں کو اپنا مسکن بناتے ہیں۔مہمان موسمی پرندوں میں کونج،تلور،بٹیر اور شاہین بھی ہوتے ہیں۔یہاں کی شاعری اور لوک گیتوں میں کونج اور کوئل جیسے پرندوں کا ذکر اکثر و بیشتر موجود ہے۔گزشتہ ادوار میں وطن عزیز پاکستان کے جنگلات کا سفاک اور غیر قانونی کٹاؤ کیا گیا ہے۔
درختوں کے بڑھتے ہوئے کٹاؤ کی وجہ سے سیلاب،آندھی،طوفان اور غیر موسمی بارشوں کے علاوہ لینڈ سلائیڈنگ جیسی آفات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔جنگلات کے کٹاؤ کی وجہ سے عالمی ماحول پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔وزیراعظم پاکستان کا ٹین بلین ٹری منصوبہ عالمی سطح پر مقبول ہو رہا ہے۔اس منصوبے کے تحت چند سالوں میں دس ارب درخت لگانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
اس منصوبے کی روشنی میں اب تک تقریباً ایک ارب درخت نسب کئے جاچکے ہیں۔یہ منصوبہ عوامی تعاون کے بغیر قطعی طور پر ممکن نہیں ہے اس لئے وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب عمران خان نے عوام سے تعاون کی درخواست کی ہے۔ اللّہ تعالی کا شکر ہے کہ ہمارے ملک کے منتظم اعلٰی کو نہ صرف شجرکاری میں دلچسپی ہے بلکہ ان میں شجر کاری کا جزبہ دیگر اورسابقہ ادوار کے حکمرانوں کی نسبت بدرجہ اتم موجود ہے۔
پاکستان میں شجرکاری کیلئے ماہ اگست بہت موزوں ہے۔صوبہ بلوچستان جیسے خشک پہاڑی علاقوں کیلئے پھلائی،بڑ چلغوزہ اور پائن بہترین ہیں۔پاکستان کے شمالی علاقوں اور خیبر پختونخوا کیلئے شیشم،دیودار،پاپولر،کیکر،ملبری،چنار،پائن ٹری،ناشپاتی،صنوبر،آلو بخارا اور آڑو لگایا جائے۔جنگلات بائیو ڈائیورسٹری(نباتاتی تنوع)کے لئے بہت ہی ضروری ہیں۔
ایمازون دنیا کا سب سے بڑا جنگل ہے جبکہ کسی ملک میں زیادہ درختوں کے ہونے کا اعزاز روس کے پاس ہے۔پاکستان میں مقامی درختوں کے طور پر شیشم،کیکر،نیم،دیودار اور کھجور بہت مشہور ہیں۔دیودار پاکستان کا قومی درخت ہے۔گرمیوں کے موسم میں دیودار،شیشم اور نیم کے درخت اتنے فرحت بخش ہوتے ہیں کہ ان کے سائے تلے نیند کے خمار آنے لگتے ہیں۔
اس بات کا علم ہونا بہت ضروری ہے کہ آیا کون سے درخت کون سے علاقے میں موزوں رہیں گے۔پائن گرم اور مرطوب علاقوں میں پروان نہیں چڑھ سکتے۔درخت مخصوص آب و ہوا،درجہ حرارت،زمین اور بارش میں پروان چڑھ سکتے ہیں۔کونو کارپس کراچی کی آب وہوا سے مطابقت نہیں رکھتے یہ درخت شہر میں پولن الرجی کا باعث بن رہیں ہیں۔کراچی میں پرندے ان درختوں میں اپنا مسکن اور آماجگاہ مستقل طور پر نہیں بناتے۔کراچی میں بڑے پیمانے پر یہ درخت لگائے گئے ہیں۔
سینکڑوں درخت صرف شاہراہ فیصل کے کنارے نسب ہیں۔سوشل میڈیا پر کونو کارپس کے درختوں کیخلاف ایک مہم شروع کی گئی تھی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ کراچی سے ایسے درختوں کا صفایا کیا جائے لیکن ماہرین کے نزدیک کوئی درخت ماحول دشمن نہیں ہوتا بس انہیں اس کے موزوں علاقے میں لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔سفیدہ کے درخت سیم و تھور والے علاقوں کیلئے موزوں سمجھے جاتے ہیں کیونکہ یہ درخت زیادہ پانی پیتے ہیں اور نمکیات کو جزب کرنیکی خوب صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
ہمارے یہاں سرکاری سطح پر جنگلات کا ایک شعبہ قائم ہے اگر یہ شعبہ اپنا کام نیک نیتی سے انجام دے تو ہم عالمی سطح پر شہرت یافتہ ہونے میں طاق ہوسکتے ہیں کیونکہ ہمارا ملک طول بلد اور عرض بلد کے لحاظ سے ایک مناسب خطے میں موجود ہے اور یہاں سال کے چار موسم پائے جاتے ہیں۔قیاص آرائی کی جارہی ہیکہ اگر پاکستان ٹین بلین ٹری منصوبے میں کامیابی پالیتا ہے تو اس کے عالمی قرضے معاف ہوسکتے ہیں کیونکہ ماضی میں ایسے رضاکارانہ منصوبوں کی بدولت ملکوں کے قرضے معاف کئے جاچکے ہیں۔
تاہم ان قرضوں میں آئی-ایم-ایف اور عالمی بینک کے قرضے شامل نہیں ہیں۔پیرس قلب کے قرضے جو پاکستان کے عالمی قرضوں کا تقریباً پچیس فیصد بنتے ہیں۔البتہ پیرس قلب رعایت دینے میں آزاد اور خودمختار ہے۔سرسبز پاکستان کیلئے شجرکاری کے شعور کو بیدار کرنا گورنمنٹ کی ذمہ داری ہے اور اس کی آگاہی کے لئے سیمینارز کے انعقاد کو یقینی بنایا جائے اور شجر کاری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والوں کی حوصلہ افزائی کو بھی یقینی بنایا جائے۔