گوادر بلوچستان کا خوش قسمت ترین ضلع ہے کہ جسکی شہرت و چرچہ نہ صرف مملکتِ خدائے داد میں ہے بلکہ بین الاقوامی طور پر جانا جاتا اور شْہرت یافتہ بھی ہے۔ لیکن بدقسمتی میں بھی تمام اضلاع سے دو ہاتھ آگے ہے کہ آج 21 ویں صدی میں بھی گوادر کے شہری باقی سہولتوں کو چھوڑ کر پانی جیسی زندگی کی بنْیادی ضرورت سے محروم ہیںاور آئے روز ہائے پانی ہائے پانی کرتے ہوئے سراپا احتجاج ہیں۔ قدرتی طور پر گوادر میں زیرِ زمین میٹھے پانی کا ذخیرہ نہیں ہے۔ اور اگر کہیں پر ہے بھی تو وہ پانی انتہائی نمکین اور کھارہ ہے جو پینے کے قابل نہیں ہے۔
البتہ تحصیل اورماڑہ میں “بسول کؤر” اور سب تحصیل سْنٹسر کے چند ایک مقامات پر زیرِ زمین بورنگ یا کنواں کا پانی پینے کے قابل ہے۔ اس لیئے کہا جا سکتا ہے کہ گوادر شہر یا ضلع گوادر میں پانی کا مسئلہ بہْت دیرینہ اور اہم ہے۔ تحصیل اورماڑہ کے شہری (تحصیل ہیڈکواٹر اور دیگر چند قریبی آبادی) بسول کور کی بورنگ سسٹْم سے محکمہ آب رسانی کے ذریعے نسبتاً آسودہ حال ہیں۔ جبکہ 1970 کی دھائی میں گورنر بلوچستان میر غوث بخش بزنجو نے سب تحصیل سْنٹسر میں بورنگ کراکے پائپ لائن کے ذریعے 60/62 کلو میٹر دوْر گوادر کی محدود آبادی کو پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا تھا۔ جوکہ 1994 تک باقاعدگی سے جاری و ساری رہا اور جس سے گوادر کے شہریوں کی ضرورتِ آب پوری ھوتی رہی۔ 83/1980 کی دھائی میں جنرل ضیاء الحق کے احکامات پر جنوبی آنکاڑہ کؤر پر ایک بند تعمیر کیا گیا تھا جس سے آنکاڑہ کور اور بارانی پانی کو جمع کرکے گوادر کے عوام کی تْشنگی کو ختم کرنے اور سْنٹسر پائپ لائن کی بوجھ کو کم کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن بدقسمتی سے وقت گْزرنے کے ساتھ ساتھ جب یہ پانی کم ہوجاتا تو کھارہ ہوجاتا تھا اور پینے کا قابل نہیں رہتا تھا۔
1985/88 کے درمیان ایم پی اے گوادر میر عبدالغفور کلمتی نے اپنے ایم پی اے فنڈ سے سْنٹسر میں ایک آدھ بورنگ کا اضافہ کیا ، اور سایئجی بند ڈیم تعمیر کرایا لیکن گوادر کی تشنگی میں حاطر خواہ کمی نہیں آئی ، لیکن پھر بھی دورِ حاضر کی طرح لوگ پانی کو نہیں ترسے۔ 1987 میں جیونی کے عوام نے پانی کے طلب میں احتجاج کیا اور حکومت سے اپنے پیاس بجھانے کا مطالبہ کیا۔ تو پانی مانگنے کے غیر قانونی اور غیر شرعی جْرم کے ارتکاب میں پولیس نے گولیوں سے تین شہریوں بی بی اِزگْل ، 12،13 سالہ بچی یاسمین اور غلام نبی نامی شخص کو شہید کردیا۔ مگر 34/35 سال گْزرنے کے باوجود آج تک جیونی میں مسئلہِ آب جوں کا توں ہے اور آئے روز لوگ پانی پانی کرکے مظاہرہ کررہے ہیں۔
حکومت اور حکومتی ادارے اکثر و بیشتر بلوچوں پر طنز کرکے الزام عائد کرتے ہیںکہ بلوچ نواب و سردار ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ بلوچستان کے کچھ سخت گیر قبائلی علاقوں میں کہیں ایسا ہوتا ہو لیکن مکران میں قبائیلیت کو رخصت ہوئے 60/70 سالوں سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے۔ جبکہ تحصیل گوادر اور ضلع گوادر میں نواب و سردار کا تصوربھی نہیں ہے۔ تو سرکارِ عالیٰ کو کس نواب یا سردار نے عوام کو پانی کی فراہمی سے روکا تھا یا ہے۔ مملکتِ خدائے داد کے دیگر اضلاع اور شہروں میں شہری چوریاں کرتے، ڈاکے ڈالتے یا کوئی اور خلافِ قانون عمل کرکے ایف آئی آرہوتے ہیں، جیل جاتے ہیں، سزا کاٹتے ہیں۔ بدنصیبی سے ضلع گوادر کے لوگ حکومت سے پانی مانگنے کے جْرم میں گولیوں کا نشانہ بن کر شہید ہوجاتے ہیں۔ یا پانی مانگنے کے جْرم میں اْنکے خلاف آیف آئی آر کاٹی جاتی ہے۔ اور یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ 2012 کی پانی بحران کے دوران ایک شہری نے کسی دوسرے کے گھر سے پانی چْرا کر اپنے اہلخانہ کی پیاس بجھائی تھی۔ یہ واقعہ زبانِ زَدعام ہوا تھا اور میڈیا میں رپورٹ بھی ہوا تھا۔
بحرحال 1994 میں وزیرِاعظْم بینظیر بھٹو نے آنکاڑہ کؤر ڈیم (موجودہ آنکاڑہ ڈیم) کا افتتاح کیا۔ جسکے بعد گوادر اور گرد و نواح کے لوگ آنکاڑہ ڈیم سے پانی کی ضرورت پوری کرتے آئے ہیں۔ آنکاڑہ ڈیم کی تعمیر کے بعد سْنٹسر کے بورنگ و پائپ لائن سسٹْم تباہی و بربادی کا شکار ہوکر رہ گیا۔ 2012 کی خشک سالی نے آنکاڑہ ڈیم کو خشک کیا تو ایم پی اے گوادر میر حمل کلمتی ،حکومت اور محکمہ آب رسانی نے دوبارہ سْنٹسر بورنگ سسٹْم و پائپ لائن کی طرف دیکھنا شروع کیا۔
کروڑوں روپے خرچ کرنے اور کئی ماہ بعد سنْٹسر بورنگ سسٹْم ادارہِ محکمہ آب رسانی کے بقول یومیہ دو لاکھ گیلن پانی دینے کے قابل بن گیا۔ لیکن اْسوقت تک بہْت دیر ہو چکْی تھی۔ ایک تو یہ کہ گوادر کی آبادی اب ہزاروں کے بجائے لاکھوں میں تبدیل ہوچکی تھی اور دوسری یہ کہ سب تحصیل سْنٹسر اور تحصیل جیونی بھی خشک سالی کے زَد میں آچکے تھے اور اْنکو بھی بورْنگ سسٹْم سے پانی دینا تھا یا پھر دوسرا کوئیذریعہ بروئے لانا تھا۔ 2012 سے 2020 تک گوادر میں پانی کے چار بْہت بڑے بحران آئے ہیںجس پر حکومتِ بلوچستان نے اربوں روپے خرچ کرکے واٹربوزر کے ذریعے مختلف تحاصیل و دیہی علاقوں کو پانی فراہم کیا جس سے حکومت کو اربوں کا نقصان ہوا ، محکمہ آب رسانی کے چند افسران اور اْن کے کنٹریکٹر مہینوں میں کروڑ پتی بن گئے۔
لیکن عوام تا حال تشنگی کے بھنور میں ہیں۔ 2013/18 میں ڈاکٹر مالک کی حکومت نے سووڈ ڈیم کو مکمل کرایا ، سووڈ ڈیم سے گوادر تک پائپ بچھائے گئے پانی کی فراہمی بھی شروع کی گئی۔ مگر اس تمام کے باوجود گوادر میں تشنگی و پیاس کا راج برقرار ہے۔ بلوچستان کوسٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے لگ بھگ ایک ارب روپے کی لاگت سے کارواٹ ڈیسالینیشن پلانٹ کی تعمیر و تنصیب کی ، اور کہا گیا کہ یہ پلانٹ یومیہ 24 لاکھ گیلن پانی دینے کی سکت رکھتی ہے ، سرْبندن میں ڈیسالینیشن پلانٹ کا تنصیب کیا گیا لیکن اِن سے گوادر کے عوام کو ایک لیٹر پانی مْیسر نہ ہوا۔
آج 29 جولائی 2021 کو بھی گوادر شہر میں مکمل شٹرڈاؤن ہے ، پہیہ جام ہے ، شہری اور پارٹیوں کے راہنماء سراپاِ احتجاج ہیں۔ اس سے قبل مختلف محلوں کے عوام اور خاص طور پر خواتین گزشتہ تین دنوں سے ملا موسیٰ موڑ پر پانی کی طلب میں دھرنا دیئے بیٹھے رہے۔ لیکن نہ کوئی حکومتی نمائندہ اْن سے ملنے و مذاکرات کرنے گیا اور نہ ہی متعلقہ ادارتی کارندہ و شخص۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اپنے عوام کو بنیادی سہولتیں اور ضرورتیں دیئے بغیر پْرامن اور خاشوش رکھنے میں کامیاب ہو سکتی ہے ؟۔ کیا روز روز کا احتجاج ، دھرنوں اور روڈ بلاک سے حکومت ملْکی اور غیر ملْکی سرمایہ کاروں کو مطمئن کرکے گوادر لا نے میں کامیاب ہو سکتا ہے ؟۔ کیا 21 ویں صدی میں گوادر کے عوام تمام بنْیادی سہولتوں (پانی ، بجلی ، علاج و معالجہ، تعلیم ) سے محروم سی پیک کو اپنے دْکھوں کا مداوا سمجھیں گے ؟