یمن کے حالیہ واقعات نے پورے خطے میں ایک ہلچل مچادی ہے اور سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کو فوری کارروائی پر مجبور کردیا ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ شیعہ اقلیت کا یمن کے اقتدار پر بزور طاقت قبضہ ہے۔ یہی بات بحرین اور دوسرے ممالک میں بھی دہرائی جاسکتی ہے تاوقتیکہ دنیا کے ممالک اس اصولی فیصلہ پر عمل نہ کریں کہ کسی غیر ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی۔ اس سے پہلے توجہ اقوام متحدہ اور امریکہ کی طرف تھا کہ ان کی فوجی قوت کو استعمال میں لاکر دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملات میں کارروائیوں کو نہ صرف روکا جاسکتا ہے بلکہ اس ملک کے خلاف تادیبی فوجی کارروائی کا آپشن موجود رہتا تھا۔ آج کل دنیا اقوام متحدہ کے اس عمل سے مایوس ہوگئی ہے اور خطے کے ممالک اپنے مقامی اتحاد کو استعمال کرتے ہیں فوجی کارروائیاں مشترکہ طور پر کررہے ہیں۔ چنانچہ جب یمن کے حوثی باغیوں نے عدن اور باب المندب پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو سعودی عرب کی سربراہی میں خطے کا خصوصاً عرب ممالک کا اتحاد راتوں رات قائم ہوگیا۔ 16عرب ممالک نے اس علاقائی اتحاد میں شمولیت اختیار کی اور راتوں رات ان ممالک کے 200جنگی جہازوں نے یمن کے اندر حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر حملے شروع کردیئے۔ اس اتحاد میں دنیائے اسلام کے تین زیادہ طاقتور ممالک پاکستان، ترکی اور مصر نے بھی حمایت کا اعلان کردیا۔ یہ ایک پیغام تھا جو ایران اور یمن کے حوثی باغیوں کو مل گیا کہ طاقت کے بل بوتے پر اقتدار پر قبضہ کرنا آسان ہے اور اس کے بل بوتے پر ملک کو چلانا ایک مشکل کام ہے۔ عرب اتنی بڑی فوجی قوت بن گئی ہے کہ ان کے 200جنگی طیاروں نے ہر طرف تباہی مچادی ہے۔ اور حوثی باغیوں کو اپنے ہی علاقے میں پناہ نہیں مل سکی ہے۔ شاید اس جارحانہ کارروائیوں کے بعد ایران نے بھی اپنی رضامندی کا اظہار کیا ہے کہ وہ بھی بات چیت اور پرامن ذرائع سے یمن کے مسئلے کا حل چاہتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ایران دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ وہ حوثی باغیوں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے ان کو مذاکرات کے لئے آمادہ کرنے کو تیار ہے۔ ادھر اس کے ساتھ ساتھ لڑائی اور بمباری میں زیادہ شدت آرہی ہے جس سے حوثی باغیوں اور علی عبداللہ صالح کے حمایتی فوجیوں پر دباؤ بڑھ گیا ہے اور مزید دباؤ کی صورت میں ان کو مکمل شکست کا سامنا ہے اگر وہ ہتھیار نہیں ڈالتے۔ اس سے قبل یمن کے صدر منصور ہادی اور اس کے وزیراعظم حوثی باغیوں کے قید میں رہے ہیں اور قید کے دوران دونوں نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ جو حوثی باغیوں نے سیاسی اور سفارتی وجوہات کی بنیاد پر رد کردیا تھا۔ جب منصور ہادی قید سے فرار ہوکر عدن پہنچے تو انہوں نے آزاد فضاء میں اپنی صدارتی ذمہ داریاں دوبارہ سنبھالنے کا اعلان کردیا اس کے بعد حوثی باغی ان کو ’’بھگوڑا صدر‘‘ کے نام سے یاد رکھتے ہیں۔ ادھر پاکستان میں یہ رائے عام ہوگئی ہے کہ سعودی عرب کی مدد کی جائے تاکہ وہ اپنی اتحاد اور سلامتی برقرار رکھ سکے۔ اس سلسلے میں پاکستان کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے سرتاج عزیز کی سربراہی میں اپنا سعودی عرب کا دورہ مکمل کرلیا ہے عنقریب وہ وزیراعظم کو اپنے دورے کی رپورٹ دیں گے جس میں سعودی عرب نے پاکستان سے فوجی امداد طلب کرلی ہے۔ ادھر پی پی پی اور اے این پی کے رہنماؤں نے وزیراعظم کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ یک طرفہ اور اکیلے فیصلہ نہ کریں۔ اس کے لیے تمام پارٹیوں کی کانفرنس بلائی جائے اور اس میں فیصلہ کیا جائے کہ سعودی عرب کو کس قسم کی اور کتنی فوجی امداد فراہم کی جائے۔ پاکستان کے لئے یہ زیادہ آسان ہے کہ وہ سعودی عرب کو فضائیہ اور بحریہ کی امداد فراہم کرے تاکہ سمندری راستوں کو کھلا رکھا جائے اور حوثی باغیوں اور ان کے حامیوں کو باب المندب پر قبضہ کرنے سے روکا جائے۔ پاکستان خود داخلی مشکلات کا شکار ہے۔ زمینی افواج دور دراز علاقوں میں پھیلی ہوئی ہے بلکہ وہ بھارت، افغانستان اور ایران کی سرحدوں پر ملک کی حفاظت کررہے ہیں۔ اس لئے زمینی فوجی امداد اتنی وسیع اور کشادہ موجودہ صورت حال میں نہیں ہوسکتی۔
یمن اور خطے کی سلامتی
وقتِ اشاعت : April 7 – 2015