یہ خوش آئند بات ہے کہ عمران خان اور اس کی پارٹی نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کریں گے اور یمن کے مسئلے پر اپنا بھرپور موقف بیان کریں گے۔ ان کا جو بھی موقف ہو بہر حال فیصلہ اکثریت نے کرنا ہے ۔ عمران خان پارلیمان اور اس کے اراکین کے لیے کوئی حکم صادر نہیں کر سکتے ۔ اگر تحریک انصاف اوراس کے رہنما ء پارلیمان کے اجلاسوں میں شرکت کرتے رہتے اور یک طرفہ موقف اختیار نہ کرتے تو یہ پاکستان اور جمہوریت کے حق میں بہتر ہوتا۔ انہوں نے طویل عرصے تک اسمبلی کو حدف تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ مفاد پرستوں کا کلب ہے ۔ اس کی بنیاد بوگس ووٹوں پر ہے اور آج وہ اسی پارلیمان میں واپس چلے گئے۔ یہ سب کچھ ایک شخص کی اور ایک ذات کی سیاست نہیں کیونکہ اس میں مشترکہ فیصلے کا کوئی عنصر نظر نہیں آیا ۔ جو موقف عمران خان نے اٹھایا ۔ تحریک انصاف نے حامی بھری اور اس پر کبھی بحث نہیں کی بلکہ ان کے موقف کوحکم نامہ سمجھا گیا ۔ انہوں نے پارلیمان توڑنے کا مطالبہ کیا تھا ، اس مطالبے سے وہ الگ ہوگئے، کیوں ہوئے یہ کوئی نہیں جانتا ۔معلوم ہوتاہے کہ ان کے مشیر ان پر ہر لحاظ سے حاوی ہیں۔ انہوں نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ ان کا اسلام آباد میں دھرنا اس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک وزیراعظم نواز شریف اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیتے ۔وزیراعظم نواز شریف نے استعفیٰ نہیں دیا وہ ابھی تک ملک کے منتخب وزیراعظم ہیں مگر عمران خان نے اپنا ذاتی فیصلہ تبدیل کر دیا ۔ اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی کہ ان کا طرز عمل ابتداء میں بہت سخت تھا اور لچکدار نہیں تھا اب وزیراعظم کے بلائے ہوئے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں شریک ہوگئے ۔ اس کاکوئی جواز پیش نہیں کیا گیا کہ عمران خان نے اپنا موقف کیوں تبدیل کیا ۔ایسا شخص جس کو سیاست کی بنیادی سوجھ بوجھ نہیں ہے وہ کس طرح لوگوں کی رہنمائی کرے گا۔ جب ان کووزیراعظم بنایا جائے گا تو وہ ملک کو کس طرح سے چلائے گا۔ ہاں البتہ یہ بات بہت حد تک درست ہے کہ بعض سابقہ حکومتوں کو خصوصاً ایوب خان ‘ یحییٰ خان ‘ پرویزمشرف ‘ جنرل ضیاء الحق ‘ نواز شریف کی گزشتہ اور حال کی حکومت کو ان کے مشیر چلاتے تھے اور چلارہے ہیں ۔ صرف بھٹو اور زرداری سیاسی فیصلے کرتے تھے ۔ مشیروں سے مشورہ ضرور کرتے تھے مگر فیصلہ خود کرتے تھے اس لئے ریاستی ادارے صرف اسی وجہ سے ان سے شدید نفرت کرتے تھے ۔بلکہ زرداری کے خلاف نفرت تا حال جاری ہے البتہ عمران خان کا یہ مثبت پوائنٹ ہوگا کہ مشیروں پر بھروسہ کریں گے جیسا کہ اکثر پاکستان کے حکمران کرتے تھے سوائے ذوالفقار علی بھٹو اور آصف علی زرداری ‘ تاہم عمران خان کی لیڈر شپ پر اربوں روپے کی سرمایہ کاری ایک غلط فیصلہ ہے۔ بنیادی طورپر وہ شخص سیاست میں نا بلد ہے، نا سمجھ ہے وہ کس طرح سے کروڑوں لوگوں کی رہنمائی کرے گا۔ مقتدرہ کا فیصلہ غلط معلوم ہوتا ہے کہ اس کو کھینچ تان کر بڑا لیڈر بنایا جائے ۔ اس پر اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی و جہ وہ بھی بحرانی دور میں جب ہمارے تعلقات تمام ہمسایہ ممالک سے زیادہ اچھے نہیں ہیں ۔ ایسی صورت میں عمران جیسے شخص کواستعمال کرکے حکومت اور سیاسی استحکام کو دھچکا پہنچانا کوئی عقلمندی نہیں ہے۔ اس کی ایک سادہ مثال کراچی کے ضمنی انتخابات ہیں ۔ مقتدرہ کو متحدہ کی سیاست پسندنہیں ہے ۔ ہمیں نہیں معلوم اس کی وجوہات کیا ہیں ۔ مگر متحدہ کے مقابلے میں تحریک انصاف کا انتخاب کچھ زیادہ اچھا نہیں معلوم ہوتا۔ تحریک انصاف کی مقبولیت سندھ اور بلوچستان میں زیرو ہے اس کو ان دونوں زیادہ سیاسی صوبوں میں پذیرائی نہیں ملی ۔ اسلئے متحدہ کے ہاتھوں ان کو عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ اس کے بعد پورے سندھ سے تحریک انصاف کا صفایا ہوجائے گا اور اس کا سہرا متحدہ کے سر ہوگا۔ تحریک انصاف کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا ووٹ بنک نہیں ہے ۔ اگر اس کے مقابلے میں جماعت اسلامی کی حمایت کی جائے اور ہمنوا پارٹیاں بشمول مقتدرہ جماعت اسلامی کی حمایت کریں تو مقابلہ شدت کا ہوگا ۔جیتے گا متحدہ مگر اس کا تکبر ٹوٹ جائے گا جب لوگوں کو یہ معلوم ہوگا اتنے لوگ متحدہ کے حق میں نہیں ہیں اور متحدہ پولنگ اسٹیشن پر قبضہ نہیں کر سکے گا ۔بیلٹ بیکس تبدیل نہیں کر سکے گا۔ اس کا مسلح ونگ لوگوں کو بندوق کی نوک پر یرغمال نہیں بنا سکے گا۔
عمران کی پارلیمان میں واپسی
وقتِ اشاعت : April 7 – 2015