دُر محمد کاسی کی شخصیت اور نام سے گویا بچپن سے آشنا ہوں ۔پاکستان ٹیلی ویژن کوئٹہ مرکز سے وقتاً فوقتاً ان کی ڈاکیومینٹریز نشر ہوتیں اور ہم بڑ ے اشتیاق سے دیکھتے۔ پی ٹی وی سینٹر میں تو بہت ساری رپورٹس یا ڈاکیومینٹریز کئی لوگوں کی نشر ہوتیں اور میں کیوں ان میں محض دُر محمد کاسی کو ہی نمایاں پاتا ، بلا شبہ ان کی ڈاکیومینٹریز معیار اور کام کے اعتبار سے اعلیٰ ہوتی تھیں لہذا یہ تورہا اچھا اور تخلیقی کام ، چونکہ میں قلعہ کاسی میں پلا بڑا ،چنانچہ رغبت کی ایک بڑی وجہ در اصل یہ قریبی تعلق بھی ہے ۔ وقت گزرتا گیا سال بیت گئے یوں مجھ پر ان کی شخصیت کا ایک اور پہلوبھی افشاں ہوا ،وہ یہ کہ دُر محمد کاسی کا شعر و ادب سے بھی یارانہ ہے ، اس طرح انہیں ایک ادیب،شاعر اور افسانہ نگار کی حیثیت سے بھی پہچانا۔چند سال قبل ان کی تصنیف ’’کوئٹہ اور کاسئی ‘‘ پر نظر پڑی تو ان کی شخصیت میں ایک اضافہ محقق کا بھی دیکھا۔اس کتاب کا اجمالی مطالعہ کیا، بعد ازاں ترمیم و اضافے کے ساتھ تیسری اشاعت کا نسخہ جس پر حصہ سوئم تحریر ہے اپنے شفیق دوست منصور بخاری کی سیلز اینڈ سروسز سے خریدا اور قدر ے تفصیل سے مطالعہ کر ڈالا۔ موضوع کوئٹہ اور کاسی قبیلہ ہے، پر اسے بجا طور پر خطے اور پشتونوں کی تاریخ بھی کہا جا سکتا ہے ۔ مصنف نے پشتون نسل اور قوم پر بھی اختصارسے روشنی ڈالی ہے اس کے ساتھ کاسی قبیلے کی قدیم و جدید تاریخ کا روانی اور حوالوں کے ساتھ احاطہ کیا ہے ۔اس کتاب میں بابلا ن سے کوئٹہ تک کاسی قبیلے کے نشیب و فراز اور عروج و زوال کا بیان ہے کتاب میں ’’شال‘‘ کے معنیٰ کی تفصیل کئی مروجہ مغالطوں کی نفی کرتی ہے ۔اس میں کوئٹہ کی تاریخ ہی نہیں بلکہ ارضیاتی و جغرافیائی پس منظر ،رسومات ،رہن سہن،کھیل حتیٰ کہ بچوں کے کھیل ،پہاڑ، میدان،معدنیات،جنگلات و حیوانات، زراعت و کاریزات،مساجد ،خانقاہیں و زیارات،اولیاٗ کرام ،قبائلی شخصیات کا تذکرہ اور وادی کی کاسی قبائل کے درمیان تقسیم کی تفصیل در اصل مصنف کی تحقیق کے دوران دوڑ دھوپ ،عرق ریزی اور ہمہ پہلو ورق گردانی کا پتہ دیتا ہے ۔تاریخ نویسی اور تحقیق کے چند جاندار اصول ہیں ،مورخ کا موضوع اور اس سے متعلق علوم پر وسیع مطالعہ کا ہونا لازم ہے ۔محقق اغلاط سے اجتناب کرتا ہے اور مقدم اور موخر کے اصول سے آگاہ ہوتا ہے ۔یعنی ان کے لئے معقول حد تک شد بُد تو ضروری ہی ہے ۔جب تک موضوع سے متعلق دیگر علوم و فنون اور متعلقہ عہد کے بارے میں پوری معلومات نہ ہوں ،تحقیق پایہ اعتبار تک نہیں پہنچ پائے گی۔جن کُتب کا مطالعہ کیا جائے وہ قدرے مستند ہوں اور صاحب تصنیف کے علم، فن اور معیار کو بھی دیکھا جاتا ہے۔حتیٰ کہ مصنف کی جانبداری تک کو بھی دیکھا جاتا ہے کہ آیا مصنف کسی نظریاتی، جماعتی گروہی یا کسی بھی نوع کے تعصب کا شکار تو نہیں۔ محقق اخذ و استنباط کے فن سے آراستہ ہوتا ہے۔ اس ذیل میں وہ اپنی تمام تنقیدی اور تخلیقی صلاحیتیوں کا استعمال کرتا ہے اور حقائق کا بہر طور خیال رکھتا ہے ، گویا بنیادی مآخذ کا خیال رکھا جاتا ہے ۔کسی بھی تصنیف پر مخالف یا موافق تنقید فن تاریخ و تحقیق کا لازمہ ہے ۔ چنانچہ ’’کوئٹہ اور کاسئی‘‘ ایک عمدہ نسخہ ہے ۔ محاکمہ ہر گز مقصود نہیں ،کسی بحث میں پڑے بغیر اس زیل میں فقط ایک پہلو کی نشاندہی اور اصلاح کو ضروری گردانا ۔ قلعہ کاسی ، قبیلہ کاسی کا قدیم مسکن ہے اور یہ قلعہ قبیلے کا مرکز ہے چنانچہ اس قلعے کی جامع مسجد کو بھی اس لحاظ سے مرکزیت حاصل ہے،بلا شبہ یہ کوئٹہ کی قدیم ترین مساجد میں سے ہے ۔فاضل مصنف کتاب کے صفحہ نمبر 207ء میں لکھتے ہیں کہ 1929ء میں افغانستان کے’’ ملا شور بازار‘‘ قلعہ کی مسجد میں امام رہے ،ساتھ یہ بھی تحریر ہے کہ سابق صوبائی وزراء مولانا حسن جان اور مولانا نور محمد مرحوم بھی امام رہے ہیں۔جو کہ قطعی درست نہیں ہے۔ یہ دونوں حضرات کبھی بھی اس مسجد کے خطیب نہیں رہے ہیں نہ ہی ملا شور بازار نے اس مسجد کی امامت کی، یعنی مولانا نیاز محمد دُرانی مرحوم کا مصنف نے تذکرہ ہی نہیں کیا، جنہوں نے اس مسجد میں امامت و خطابت کے طویل فرائض انجام دئیے ۔ارباب عثمان کاسی اپنی کتاب ’’شال سے کوئٹہ‘‘ کے صفحہ نمبر 154میں کچھ اس طرح تفصیل دی ہے کہ اخوندزادہ لال محمد کاسی جو کلی عالم خان کے رہائشی تھے، مسجد کے امام مقرر ہوئے اور قلعہ میں ہی سکونت اختیار کر لی تھی۔ ان کی وفاقت کے بعد مولانا لال محمد کاسی کے چھوٹے بھائی اخوند زادہ نور محمد امامت کے فرائض پر مامور ہوئے گئے جو اکتوبر 1971ء میں وفات پا گئے۔ارباب عثمان نے البتہ مولانا نور محمد مرحوم سے متعلق اتنا لکھا ہے کہ اُن کا بھی اس مسجد سے تعلق رہا ہے ۔ شائد وہ یہاں طالب علم کی حیثیت سے رہے ہوں ۔ جسے عرف عام میں طالب کہا جاتا ہے ۔البتہ 1971ء سے 1989تک مولانا نیاز محمد دُرانی اس مسجد کے خطیب تھے ، مولانا دُرانی کے بعد سابق صوبائی وزیر مولانا عبدالباری آغا خطیب مقرر ہوئے جنہوں نے بوجوہ چند سال بعد امامت چھوڑ دی۔مولانا عبدالباری آغا کو جمعیت علمائے اسلام کے بعض افراد نے مولانا دُرانی سے بُغض کی بنیا دپر یہاں امامت دلوائی تھی ۔ چند صاحب ظرف علما ء حضرات نے مولانا دُرانی مرحوم کے احترام میں اُن کی جگہ امامت کے فرائض انجام دینے سے گریز کیا ۔ مولانا حسین احمد شرودی نے اسی مقصد کے تحت قلعہ کاسی کی مسجد میں نماز جمعہ پڑھائی ، مجھے یاد ہے کہ انہوں نے سورۃ اخلاص کو موضوع بنا کر تقریر کی اور اگلے ہی جمعہ مولانا عبدالباری آغا بحیثیت امام تعینات ہو ئے۔ ۔معلوم نہیں کہ مصنف کی یاداشت میں مولانا نیاز محمد دُرانی کی گنجائش کیوں نہ رہی۔ مولانا کا عبدالصادق کاسی شہید سے بڑا احترام اور محبت کا تعلق تھا اور مولانا نے عبدالصادق خان کاسی شہید کی خواہش اور اصرارکے تحت اس مسجد کی امامت قبول کی تھی ۔ مولانا دُرانی مرحوم سطحی اور گمنام شخصیت کے مالک نہیں تھے بلکہ اُن کی شخصیت بہت بڑی تھی وہ سیاسی، علمی اور قبائلی لحاظ سے بلوچستان کے اندر نمایاں شہرت رکھتے تھے، نیز قندہار،ہلمند ،فراح، غزنی اور مقر سمیت افغانستان کے کئی علاقوں میں معروف تھے ، اُن کا نہ صرف بلوچستان کے اندر علماء، سیاسی و قبائلی زعماء سے گہرا تعلق تھا بلکہ افغانستان کے سرکردہ قبائلی مشران اور علماء سے بھی بڑے قریبی تعلقات تھے۔ سابق شاہ افغانستان ظاہر شاہ نے ان کی افغان مہاجرین کی خدمت کے پیش نظر ملک اٹلی سے تعریفی اور شکریہ کے الفاظ پر مشتمل مکتوب بھیجا، سابق افغان صدر صبغت اللہ مجددی ، حزب اسلامی کے سربراہ گل بدین حکمت یار ،سید احمد گیلانی،مولوی محمد نبی، پروفیسر عبدالرب رسول سیاف ،مولوی یونس خالص، برہان الدین ربانی اور کئی بڑی و سرکردہ افغان شخصیات سے قریبی مراسم تھے۔مولانا دُرانی مرحوم کا کاسی قبیلے کے اندر بڑا احترام ہے ، وہ ایک جاندار اور نڈر انسان تھے۔پاکستان و افغانستان کے اندر نورزئی قبائل کے انتہائی واجب الاحترام و تعظیم مرشد، بزرگ او ر رہبر تھے۔ مولانا دُرانی کے ایک صاحبزادے ملک شیر حسن کاسی مرحوم کی صاحبزادی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہیں۔خود فاضل مصنف کے خاندان اور والد کے ساتھ بڑے اچھے اور احترام کا تعلق تھا۔دُر محمد کاسی کے والد صوفی غلام محمد، قلعہ کاسی کے مرکزی گیٹ کے سامنے ایک محدود چار دیواری میں چھوٹا سا کاروبار کرتے تھے ، اسی احاطے میں ان کا ایک بھائی آغا محمد کاسی رکشوں کی ڈنٹنگ کا کام کرتا تھا ساتھ ہی مصنف کا ایک اور بھائی نیک محمد جسے ہم ’’نیکو‘‘ کہہ کر پکارتے تھے کی ایک چھوٹی سے پرچون کی دکان تھی۔مولانا نیاز محمد دُرانی مرحوم کم و بیش بیس سال تک قلعہ کاسی میں خطیب رہے لیکن وہ پھر بھی مسجد کے خطیبوں کے صف میں شمار نہیں کئے گئے ۔ آپ بلند پا یہ خطیب ومقرر ،دانشور اور نقاد تھے ،اعلیٰ ادبی ذوق ررکھتے تھے، پشتو ،اردو و فارسی ادب کی باریکیوں کا گہرائی و گیرائی سے ادراک رکھتے تھے ۔مو لانا جلال الدین رومی اور اقبال کے فارسی کلام پرزبردست عبور حاصل تھا ۔رومی و سعدی تو طلباء کو پڑھایا بھی ۔عورت کی سربراہی کے موضوع پر اور اسلامی ریاست پر تصنیف موجود ہے ۔ان کی متفرق تحاریر کو یکجا کرنے کام کیا جا رہا ہے ۔اب اس کو فاضل مصنف کی صریح و دانستہ بھول چوک بھی قرار نہیں دیا جا سکتا،پر باعث استعجاب ضرور ہے ۔تاہم اس نوع کی غلطی سے مصنف کی Credibility متاثر ہو تی ہے ۔’’شال سے کو ئٹہ ‘‘کی طرح نام کی حد تک ہی ذکر ہوتا تو شاید تحریر اور تحقیق کا حق ادا ہو جاتا ۔ ۔دُر محمد کاسی کی تحقیق کے مطابق ملا شور بازار اس جامع مسجد میں خطیب رہے ہیں، لہذا یہ تحقیق بھی درست نہیں ہے ۔1929ء کا زمانہ افغانستان کے اندر بڑا ہنگامہ خیز تھا، شاہ امان اللہ خان کی بادشاہت سے دستبرداری کی تحریک گویا آخری مراحل میں تھی اور اس تحریک کا سرخیل فضل عمر ، المعروف بہ حضرت شور بازار یا ملا شور بازار تھے جن کو افغان حکومت نے نور المشائخ کا خطاب دیا تھا جبکہ شمس المشائخ کا خطاب صبغت اللہ مجددی کے دادا کو دیا گیا تھا ۔افغانستان میں شاہ امان اللہ خان کی اصلاحات افغان لڑکیوں کو بیرون ملک تعلیم کی غرض سے بھیجنے اور ملکہ ثریا کی یورپ میں کھینچی گئی تصاویر کے خلاف تحریک اُٹھی تھی۔ یوں تو 1927ء سے ہی افغان سیاست میں ارتعاش پیدا ہو چکا تھا تاہم 14نومبر 1928ء کوگویا نظام کا تہس نہس ہونا شروع ہو گیا اور سترہ جنوری 1929ء کو غازی امان اللہ خان افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہو گئے ۔جنوری 1922ء کو ایک شاہی اعلان میں تمام اصلاحات جدیدہ کو منسوخ کر دیا گیا تھا ۔تعلیم کیلئے ترکی جانے والی لڑکیوں کو اپس لانے کا حکم ہوا ۔اس شاہی پر فرمان پر دیگر علما ء و مشائخ کے علاوہ حضرت شور بازار کے بھی دستخط تھے۔امان اللہ خان کے افغانستان کے اندرجاری تحریک کے دوران ملا شور بازار کا ہندوستان آنا جانا رہتا تھا وہ وہاں کے علماء و مشائخ میں بھی معروف تھے ۔البتہ علامہ سید سلیمان ندوی یہ کہتے ہیں کہ ملا شور بازار ، غازی امان اللہ کی اصلاحات ،فکر اور طرز حکمرانی سے نالاں ہو کر ہندوستان چلے گئے ۔جنوری 1929ء سے پہلے حضرت شور بازار لاہور دورے پر گئے تھے جہاں علامہ محمد اقبال ؒ نے اپنے دیگر احباب کے ہمراہ ان سے ملاقات کی ،چونکہ اب غازی امان اللہ خان سبکدوش نہ ہوئے تھے اس لئے علامہ اقبال نے حضرت شور بازار کو قائل کرنے کی کوشش کی اور بے حد اصرار کیا کہ وہ شاہ کے خلاف تحریک ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔علامہ اقبال ؒ کے دل میں شاہ امان اللہ خان کے لئے بہت عقیدت اور محبت تھی ۔ملا شور بازار بچہ سقہ کے پورے عہد میں ہندوستان میں ہی رہے ۔ ہندوستان میں بھی اُن کے مرید تھے بالخصوص کاٹھیا واڑ میں ۔ وہ طریقہ مجددی تھے۔ افغانستان کے اندر ان کے ہزاروں لاکھوں مریدین تھے، افغان فوج اور افسر شاہی میں بھی ان کے مریدوں عقیدت مندوں کی کمی نہیں تھی ۔۔بچہ سقہ نورالمشائخ کے دربار میں عقیدتاً پانی لایا کرتا تھا۔بچہ سقہ کو اقتدار سے ہٹانے میں ان کا کلیدی کردار تھا ۔حضرت شور بازار افغان جنگ آزادی میں جنرل نادر خان کے ساتھ جہاد میں بھی شریک رہے ،جب نادر خان شاہ افغانستان بنے تو ساتھ وہ بھی افغانستان پہنچ گئے ۔نادر شاہ کے دور میں علامہ اقبال، علامہ سید سلمان ندوی اور سر راس مسعود نے دورہ افغانستان کے دوران ملا شور بازار سے بھی ملاقات کی اس وقت حضرت شور بازار علیل اور ضعیف تھے یہ ملاقات 1933ء میں ہوئی ۔ وہ کچھ عرصہ افغانستان کے وزیر عدل بھی رہے پھردرویشی اور طریقہ ارشاد کے مسلک کے خلاف سمجھ کر اس عہدے سے دست کش ہو گئے تھے۔ان کے بیٹے ابراہیم مجددی کو نور محمد ترکئی کے دور میں اہل و عیال سمیت قتل کرکے لاشیں دریا آمو میں پھینک دی گئیں ۔ یعنی اُن کا علمی ،مذہبی اور سیاسی مقام افغانستان کے اندر بہت بڑا تھا ، علمائے ہند کے ساتھ گہرے مراسم رکھتے تھے ، بڑے خطیب و پیر تھے انہیں کم از کم کوئٹہ میں امامت کی نہ فرست تھی اور نہ ہی ضرورت۔ان سطور میں مخالفت و موافقت کے اصول سے احتراز کرتے ہوئے محض ’’کوئٹہ اور کاسئی ‘ میں مذکورہ پہلوؤں کی نشاندھی ضروری سمجھا۔اُمید ہے کہ اگلی اشاعت میں تصیح فرمائی جائے گی۔’’کوئٹہ اور کاسئی ‘‘ فاضل مصنف کی گراں قدر مساعی ہے جس میں صاف اور آسان زبان کا استعمال کر کے کتاب کو قا ر ی کے لئے مزید پُر کشش بنایا گیا ہے ۔
کو ئٹہ اور کا سئی ۔۔ایک پہلو
وقتِ اشاعت : April 7 – 2015