|

وقتِ اشاعت :   April 9 – 2015

مقتدرہ کے حامی اور طرف دار سیاسی رہنماؤں اور اراکین پارلیمان کے تقاریر سننے کے بعد سب کو یہ یقین ہوچلا ہے کہ پاکستان اپنی مسلح افواج ‘ جنگی طیارے اور بحری جہاز یمن کی جنگ کے لئے نہیں بھیجے گا ۔ تقریباً سب نے اس بات کی مخالفت کی کہ پاکستان کی حکومت سعودی عرب کی درخواست پر جنگی طیارے اور مسلح افواج کے دستے سعودی عرب بھیجے تاکہ ان کو یمن کی جنگ میں یا سعودی عرب کے دفاع کے لئے استعمال کیاجائے ۔ سوائے چند فرقہ پرست عناصر کے باقی لوگوں نے سعودی درخواست کی مخالفت کی ۔ شاید حکومت اس سے ملتا جلتا قرار داد پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں پیش کرے گی جس کو متفقہ طورپر منظور کیاجائے گا۔ ابتداء سے یہ دلائل دئیے جارہے تھے کہ مسلح افواج بھارت اور افغانستان کے ساتھ سرحدوں کی حفاظت کے علاوہ ملک کے اندر وسیع پیمانے پر فوجی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ اوران میں فوجیوں کی تعداد لاکھوں ہے۔ ایران کے ساتھ سرحد بھی حالیہ دور میں کچھ زیادہ دوستانہ نہیں رہی ۔ اسلئے حکومت پاکستان اور مسلح افواج کے لئے یہ ممکن نہیں ہوگا کہ وہ فوج کی ایک بڑی تعداد سعودی عرب روانہ کرے تاکہ ان کو یمن کے فرنٹ پر استعمال کیا جائے ۔چونکہ یہ بات ممکن نہیں تھی اس لئے پاکستان نے زیادہ سفارت کاری پر زور دیا اور ترکی کے ساتھ مل کر ایران پر دباؤ بڑھا دیا کہ وہ اپنے پراکسی کو قابو کر لے اور حوثی باغیوں کو جنگ بندی کے لئے آمادہ کرے۔ پوری دنیا کا یہ تاثر ہے کہ ایران حوثی باغیوں کی سیاسی ‘ فوجی سفارتی مدد کررہاہے ۔ ایک اقلیتی فرقہ پورے یمن پر حکومت نہیں کر سکتا اس لئے ترکی اورپاکستان نے جنگ بندی کا مشترکہ مطالبہ کیا ۔ ایران کے وزیر خارجہ پاکستان کے دورے پر آرہے ہیں پہلے تووہ پاکستان کو جوہری معاہدے پر بریف کریں گے اور بعد میں یمن کی صورت حال پر بحث ہوگی جس میں پاکستان توقع کے مطابق یمن کی جنگ کی نہ صرف مخالفت کرے گا بلکہ فوری طورپر جنگ بندی کا مطالبہ کرے گا۔ ممکن ہے کہ پاکستان کی حکومت ترکی سے ایک قدم آگے بڑھ جائے اور حوثی باغیوں کو ہتھیار ڈالنے کے لیے کہے تاکہ یمن میں قانونی حکومت فوری پر بحال ہو اور ایران حوثی باغیوں کی امداد بند کر دے ۔ مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان کا رویہ ایران کے خلاف زیادہ سخت ہوسکتا ہے بہ نسبت ترکی کے۔ ترکی نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے اور ترک کے صدر نے رہبر اسلامی سے تہران میں صدر روحانی کی موجودگی میں ملاقات کی تھی ۔ انہوں نے جنگ بندی مطالبے کے ساتھ ساتھ ہوائی حملے بند اور دیگر ممالک کو یمن کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے پر زور دیا ۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی رہبر اسلامی کے مطالبات کو تسلیم نہیں کریں گے اور وہ ہوائی حملے اس وقت جاری رکھ سکتے ہیں جب تک حوثی باغیوں کو مکمل شکست نہیں ہوتی یا وہ ہتھیار نہیں ڈالتے۔اس طرح سے ایران اور سعودی مؤقف میں بہت زیادہ فرق ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہو اکہ ترکی اور پاکستان کی ثالثی کی کوششیں ناکام ہوں گی اور یمن میں جنگ جاری رہے گی ۔ یمن کی آسمان پر سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی طیاروں کا راج ہے ۔ امریکا اور دوسرے ناٹو ممالک ان کو جاسوسی طیاروں کے ذریعے مدد کررہے ہیں اور بمباری کے لئے آسانی پیدا کررہے ہیں ۔ ترکی او رپاکستان نے ابتداء میں اس جنگ کا حصہ نہ بن کر ثالثی کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی جو ناکام ہوگئی ۔ اب یہ دونوں بڑے اسلامی ممالک بھی سعودی عرب کے کیمپ میں شامل ہوں گے یا ایران مخالف کیمپ کا حصہ بن جائیں گے ۔ایسی صورت میں ایران پر ہر طرف سے دباؤ بڑھ جائے گا۔ جنوب میں افغانستان اور پاکستان یقیناً امریکی اور سعودی مفادات کا دفاع کریں گے۔ جس طرح سے عرب ممالک خصوصاً خلیج کے ممالک ۔جوہری تنازعہ کے حل کے بعد ایران علاقائی تنازعہ میں پھنس گیا ہے ۔ اس پر رہبر اسلامی کا ترک صدر کے سامنے بیان دنیا کے بیشتر ممالک کو قابل قبول نہیں ہوگا سوائے شام اور روس کے ۔