سوچا کہ بلوچستان اسپورٹس فیسٹیول پر دوران میلہ ہی کچھ لکھوں، پر بوجوہ لکھ نہ سکا۔ چناچہ 31مارچ کے اخبارات میں کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ کا فیسٹیول کی اختتامی تقریب سے خطاب کی خبر پڑھی تو لکھنے کا ارادہ پھر سے تازہ ہوگیا۔ کمانڈر سدرن کمانڈکے خطاب کی سرخیاں یوں تھیں کہ ’’ بلوچستان میں خوشیاں پھوٹنے لگیں، عوام نے خوف کی زنجیریں توڑ ڈالیں، جہالت ، دہشت ،خوف اور وحشت کا آسیب دم توڑ رہا ہے اور بلوچستان کے اندر امن کا سورج طلوع ہوچکا ہے‘‘۔ خطاب طویل ہے میں نے محض چند اہم نکات پر ہی اکتفا کرلیا ۔ بہر حال خوشی ہوئی کہ ذمہ دار شخصیت نے بڑے وثوق اور اعتماد سے امن کی نوید سنادی۔ ہم عوام کا تجزیہ تو بڑا سطحی اور بے وزن سا ہوتا ہے، لیکن ہماری عسکری قیادت کو یقیناًمعلوم ہوتا ہے کہ حالات کی گاڑی کس سمت چلی ہے۔ ان کے پاس انٹیلی جنس کا بڑا مضبوط ، وسیع اور مربوط نظام ہوتا ہے ۔ عسکری ادارے ، پولیس اور لیویز کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرتی رہتی ہے بلکہ ان کے اشتراک سے فورسز مختلف النوع کارروائیاں کررہی ہیں۔ فیسٹیول پر کچھ لکھنے سے پہلے امن کے قیام کو لیتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اگر فی الواقعی بلوچستان امن کا گہوارہ بن چکا ہے تو پھر لازم ہے کہ صوبائی حکومت فورسزکو بیرکوں میں جانے کی تیاریاں شروع کردے تاکہ فورسز جو ایک عشرے سے مسلسل کوئٹہ اور صوبے کے مختلف اضلاع و علاقوں میں شاہراہوں ، قومی تنصیبات اور عوام کے تحفظ پر مامور ہیں ، دوبارہ سے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو نبھانے میں لگ جائیں۔ تاہم اگر معروضی حالات کا تجزیہ کیا جائے تو امن کے قیام ا ور خوشحالی کا دور دورہ ہونے کے لئے ابھی اور بھی جتن کرنے ہوں گے۔ صوبے کے اندر تصادم کی صورتحال ہنوز برقرار ہے۔ ژوب، لورالائی، زیارت، قلعہ سیف اللہ اور اس سے متصل دیگر علاقوں میں مذہبی شدت پسندوں کے خلاف ایکشن ہورہا ہے۔ وہیں بلوچ شوریدہ علاقوں میں علیحدگی پسند تاحال بے قابو ہیں۔ ان کے خلاف آپریشن، ہلاکتوں اور گرفتاریوں کی خبریں ذرائع ابلاغ پر بد ستور نشر اور شائع ہورہی ہیں گویا ہمہ وقت آپریشن کا ماحول بنا دکھائی دیتا ہے۔ یعنی امن کا سورج طلوع ہونے میں ابھی بھی کافی وقت درکار ہے۔ اور پھر یہ کہ صوبے کو فورسز کے ذریعے چلانا بھی تو حل نہیں ہے۔ ڈیرہ بگٹی، کوہلو، آواران، پنجگور اور کئی ایسے علاقے ہیں جہاں پر مسائل اب بھی موجود ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ سول انتظامیہ کی رٹ بحال ہو۔ تعجب ہے کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی حکومت ابھی تک بیرون ملک بیٹھے بلوچ رہنماؤں سے بات چیت نہیں کرسکی ہے۔ اگر بات نہیں ہو گی تو امن بھی قائم نہیں ہوگا اور امن کے قیام کا نسخہ کیمیا ’’طاقت آزمائی‘‘ ہرگز نہیں ہے اور صوبے میں اس قدر طویل مدت سے فورسز کی موجودگی خود ان کی، اور نہ ہی صوبے اور جمہوری حکو متوں کے مفاد میں ہے۔ بلکہ اس سے ایک نیا کلچر جنم لے رہا ہے ۔ لہٰذا صوبائی حکومت اور سول انتظامیہ کا طاقتور ہونا وقت اور حالات کی ضرورت ہے لیکن اس پہلو سے لا پرواہی برتی جارہی ہے۔ عوام کے اندر خوف بدستور موجود ہے۔ بلوچستان کی مثال ایک گھر کی مانند ہے اگر خاندان میں ایک دو افراد بھی نا لاں ہو تو پورا خاندان افسرد گی اور بے اطمینانی میں مبتلا ر ہتا ہے ۔ خوشیاں تو تب پھوٹیں گی جب پورا گھرانہ ایک ہی دستر خوان پر بیٹھے اور جن کو شکایات ہیں ، ان کا ازالہ ہو ، جو اپنا حق اور حصہ مانگتا ہے وہ قانون کے مطابق دیا جائے ۔ اگر ہم 14اگست اور 23مارچ کی تقریبات سنگینوں کے سائے میں منعقد کریں اور اسے عوام کی شرکت کہہ دیں تو میرے خیال میں یہ حقائق سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہوگا۔ یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ حالات اب تک اصل ڈگر پر نہیں آسکے ہیں۔ جب تک سیکورٹی کا حصار نہیں ہٹتا تب تک امن کا دعویٰ درست تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ امن قائم ہوگا ،تو بغیر کسی مشکل و تعطل کے سیکورٹی کا حصار ہٹ جائے گا اور اس کیلئے کسی اعلان اور یقین دہانی کی ضرورت بھی پیش نہیں آئے گی عوام خود بخود تبدیلی محسوس کرلیں گے۔ دہشت ، خوف اور وحشت کا آسیب اگر فی الواقعی دم توڑتا ہے ، تو آن میں فضاء خوشگوار بن جائے گی ۔خوف کی ایک علامت تو دہشتگردی ہے نیز غیر ضروری طور پر عوام کے اعصاب پر سوار ہونا بھی خوف و وحشت کی علامت ہے لہٰذا اس عمل سے بھی گریز کرنا چاہیے ۔میں اس بات کا روز اول سے قائل ہوں کہ 14اگست یا دیگر قومی ایام پر صوبائی حکومت خود سے اہتمام اور تیاریاں کرے ۔ کوئٹہ کے اندر یوم آزادی اور یوم پاکستان کی تقریبات بغیر کسی خوف کے منعقد کرانا یقینی بنائے۔ ایسی تقریبات کا انعقاد فوج اور فورسز کی جانب سے شہری حدود میں کرانا اگر معیوب نہیں ،تو اس کا مجموعی ماحول پر اچھا اثر بھی نہیں پڑتا ۔کم از کم بلوچستان کی حد تک ایسا ہورہا ہے۔ اس 23مارچ کو ’’ کھیلوں کا میلہ‘‘ گویا فوج نے کرایا۔ صوبائی حکومت کی شمولیت تو علامتی اور جزوی دکھائی دے رہی تھی۔ حالانکہ رقم صوبائی حکومت نے فراہم کی۔ 22سے30مارچ تک کی تقریبات پر کوئی بارہ کروڑ روپے کا خرچہ آچکا ہے ۔ شہر کے تمام سائن بورڈ پر بڑے بڑے اشتہارات لگائے گئے۔ جگہ جگہ پوسٹرز آویزاں تھے۔ اخبارات کو متواتر اشتہارات جاری ہوئے ۔ ٹی وی چینلز پر طویل دورانیے کے اشتہارات الگ ۔ اس سب کی مانیٹرنگ آرمی کررہی تھی حتیٰ کہ میڈیا کے پاسز تک آرمی نے جاری کئے تھے۔ عسکری پارک میں عسکری میلہ لگا، ایوب اسٹیڈیم میں مختلف کھیلوں کے مقابلے منعقد ہوئے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ کوئی عوامی میلہ تھا تو اس میں عوام کی شرکت کیوں نہیں ہونے دی گئی۔ا لبتہ اسکولوں کے معصوم بچوں کو پیدل دور دور سے لایا جاتا اور گھنٹو ں دھوپ میں بٹھایا جاتا۔ ایسا افتتاحی اور اختتا می تقریب کے مواقعوں پر بطور خاص دیکھنے کو ملا ۔گھنٹوں یہ بچے بھوکے پیاسے رہتے ۔ اس کے برعکس خاص لوگوں کی خاطر تواضع میں کوئی کسر چھوڑی نہیں گئی۔ اخبارات و ٹی وی پر تو یہ میلہ موجود تھا مگر عوام بچشم خود ایسا کچھ نہیں دیکھ سکی ۔ کمانڈر سدرن کمانڈ نے ہر تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ افتتاحی تقریب کے لئے اسپیشل بگھی سندھ سے منگوائی گئی تھی۔ بگھی کی تیاری غیر معمولی تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ اس بگھی پر لاکھوں رو پیہ خرچہ آیا۔ اس بگھی میں بیٹھ کر کمانڈر سدرن کمانڈ ، گورنر بلوچستان افتتاحی تقریب میں اسٹیڈیم میں داخل ہوئے اور گراؤنڈ کا چکر لگایا۔ آخری تقریب میں مسلم لیگ نواز کے ارکان اسمبلی بھی شریک نہ ہوئے ۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے کھیلوں کی آرگنائزنگ کمیٹیوں میں حصہ نہ ملنے پر فیسٹیول کا بائیکاٹ کیا تھا۔ ان کا بس نیشنل پارٹی پر چلا اور اپنی ناراضگی کا خوب اظہار کیا۔ نیشنل پارٹی پورے اسپورٹس فیسٹیول میں طفل طفیل بنی ہوئی تھی۔ اگر اسپورٹس فیسٹیول صوبائی حکومت کے تحت ہوتا تو سمجھا جاتا کہ واقعی حالات اچھے ہوگئے۔ غرض علیحدگی پسندوں سے اگرچہ بہت ساری زیادتیاں سرزد ہوئی ہیں مگر سچی بات یہ ہے کہ بلوچستان اپنے حق سے اب بھی محروم ہے۔ میری اس تحریر کو بد نیتی یا بے جا تنقید نہ سمجھا جائے بلکہ جو کچھ لکھا وہ صوبے اور افواج کے وسیع تر مفاد کو مد نظر رکھ کر لکھا ہے ۔
کیا خوف کا آسیب دم توڑ رہا ہے ؟
وقتِ اشاعت : April 9 – 2015