|

وقتِ اشاعت :   April 9 – 2015

ہمارے خبروں کے کالم میں ریکوڈک سے متعلق ایک اچھی خبر بڑی تفصیل کے ساتھ عوام النا س کو موجودہ مایوس کن حالات میں حوصلہ افزا اطلاعات پہنچائیں ہیں کہ ریکوڈک بلوچستان کے رہنماؤں کے محفوظ ہاتھوں میں ہے اور وقت آنے پر یہ صرف بلوچستان کی خوشحالی اور عوام کی بہتری کے لئے استعمال میں ہو گا ۔ مخالفین بغیر ثبوت کے الزامات لگا رہے ہیں۔ کسی کے پاس کرپشن سے متعلق کوئی ثبوت نہیں اور مقدمہ ابھی عدالت میں ہے ۔ صوبائی اور وفاقی حکومت دونوں کا موقف یکساں ہے کہ کورٹ سے باہر اس متنازعہ مسئلہ کا حل نکالا جائے اور جتنی جلد ممکن ہو سکے ریکوڈک کے ذخائر کو استعمال میں لایا جائے۔ ملک اور بلوچستان کو موجودہ معاشی بحران سے جلد سے جلد نکالا جائے جیسا کہ خبر میں تذکرہ کیا گیا ہے کہ تانبے اور سونے کے بڑے ذخائر 99مربع کلو میٹر تک پھیلے ہوئے ہیں ۔ اتنے بڑے اور وسیع علاقے پر مکمل اور جامع سروے کرنا کارنہ دارد ‘ سرکاری ذرائع نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ اتنے بڑے علاقے کو ایک سے زیادہ کمپنیوں کو دیا جا سکتا ہے وہ پانچ یا چھ کمپنیوں میں تقسیم ہو سکتا ہے اور ہر کمپنی کیساتھ الگ معاہدہ کیاجائے گاتاکہ کام زیادہ تیزی سے ہو۔ چنانچہ یہ پروپیگنڈا مکمل طورپر غلط ثابت ہوگیا ہے کہ حکومتی عناصر کسی ایک کمپنی سے ساز باز کررہے ہیں ابھی تو معاملات عدالت میں ہیں ۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ معاملہ کئی سالوں تک جا سکتا ہے اگر عدالت سے باہر دونوں فریقوں کا فیصلہ نہ ہوا ۔ہمارے ہی اخبار میں گزشتہ ماہ ایک خبر چھپی تھی کہ متحدہ عرب امارات ریکوڈک کے منصوبہ پر 216 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہے ۔ بعض بین الاقوامی ماہرین نے یہ اندازہ لگایا کہ ریکوڈک میں تانبہ ‘ سونے اور دوسری دھاتوں کی مالیت چھ ہزار ارب ڈالر ہے ۔ جس کو پچاس سال کی مدت میں استعمال میں لا یا جاسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ دنیا کی کئی بڑی بڑی کمپنیاں ریکوڈک منصوبے سے دل چسپی رکھتی ہیں ۔ جب سابق صوبائی حکومت نے ٹی سی سی کو لیز دینے سے انکار کیا تو دنیا بھر میں شور مچا۔ یہ گزشتہ حکومت کی سوچ تھی کہ پنجاب سے ایک ایٹمی سائنسدان ریمورٹ کنٹرول کے ذریعے ریکوڈک کو چلائے گا ۔ گزشتہ حکومت نے ان صاحب کو ایک ارب 60کروڑ روپے دئیے تھے ۔ اس کا حساب کتاب آج دن تک حکومت کو نہیں دیاگیا ، یہ سراسر غبن ہے ۔ بلوچستان کی دولت کو اس ٹھگ نے بغیر کسی کارکردگی کے لوٹ لیا ۔ ریکوڈک میں کچھ بھی نظر نہیں آیا ۔ مگر موصوف کی شان و شوکت اسلام آباد میں نظر آئی ۔ موجودہ حکومت نے یہ بھانپ لیا تھا کہ یہ ایٹمی سائنسدان ایک ٹھگ ہے اور ریٹائر منٹ کے بعد دولت بٹورنے میں لگا ہوا ہے ۔ بہر حال مولانا واسع بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرآئے دن بیانات دیتے رہتے ہیں اور الزامات لگاتے رہتے ہیں مگر ان الزامات کو ثابت کرنے کیلئے آج تک انہوں نے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے ۔ بی ڈی اے کا محکمہ ان کی پارٹی کے پاس گزشتہ پندرہ سالوں سے تھا ۔ بی ڈی اے کا افسر ہی فوکل پرسن تھا جس نے ریکوڈک اور سندھک کے معاملات علمائے کرام کی مرضی اورمنشاء کے مطابق چلائے تھے ۔ وہی تمام خرابیوں کے ذمہ دار تھے ۔ بی ڈی اے وہ محکمہ ہے جہاں پر وزراء اورافسران دن رات چوکے اور چھکے لگاتے رہے اور احتساب سے آج تک محفوظ ہیں ۔ وزیراعلیٰ نے اخبارات کے مدیروں سے ملاقات کے دوران اس بات کی تصدیق کی کہ ان کی انسپکشن ٹیم کے پاس 110مقدمات ہیں ۔ یہ نہیں معلوم کہ اس میں بی ڈی اے سے متعلق خصوصاً بی ڈی اے میں کرپشن سے متعلق کوئی مقدمہ ہے بھی یا نہیں۔ اسی طرح سے منصوبہ بندی اور ترقیات کا محکمہ بھی مولانا واسع کے پاس پندرہ سال یعنی تین حکومتوں کے دوران رہا، کیا اس کے خلاف مقدمات بھی درج ہیں یا نہیں ۔ بہر حال ریکوڈک بہت بڑا منصوبہ ہے اس میں کرپشن کرنے کیلیے اس سے بھی بڑا آدمی چائیے جو کرپشن کرنے کی قوت بھی رکھتا ہو ۔ پہلے تو لوگوں کومعلوم نہیں تھا کہ ریکوڈک اتنا بڑا منصوبہ ہے جو 6ٹریلین ڈالر کا ہے ۔ آج سب کو یہ معلوم ہے اور ہر شخص عام و خاص کی نگاہ اس پر ہے رات کو اندھیرے یا کسی کمرے میں اس کا فیصلہ نہیں ہو سکتا ۔