کوئٹہ : اقوام متحدہ فوری طور پر افغان مہاجرین کو باعزت طریقے سے واپس بھیجنے کیلئے اقدامات کرے تاکہ وہ واپس جا کر افغانستان کی معیشت کو مضبوط کریں شناختی کارڈز کی تصدیق تحقیقاتی اداروں سے ہی کرائی جائے 2016 میں ہونے والی مردم شماری ‘ خانہ شماری 40لاکھ افغان مہاجرین کی موجودگی میں ہونے دیا جائیگا نہ قانونی طور پر مہاجرین کی موجودگی میں اس کا انعقاد ہو سکتا تھا جعلی انتخابات کے ذریعے اقتدار پر براجمان حکمران چالیس لاکھ افغان مہاجرین کی پشت پناہی کر رہے ہیں نادرا پر سیاسی دباؤ ڈال کر کوشش کی جا رہی ہے کہ ساڑھے پانچ لاکھ خاندانوں کے شناختی کارڈ جاری کئے جائیں ان خیالات کا اظہار بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی میڈیا سیل کے سربراہ آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ ‘ بی ایس او کے مرکزی آرگنائزر جاوید بلوچ ‘ بی این پی کوئٹہ کے ضلعی صدر اختر حسین لانگو ‘ جنرل سیکرٹری غلام نبی مری نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کیا اس موقع پر مقررین نے کہا کہ 2013ء کے انتخاب کے ذریعے اقتدار پر براجمان حکمرانوں کو عوام نہیں مینڈیٹ نہیں دیا ایک بار پھر غیر قانونی طریقے سے مردم شماری ‘ خانہ شماری کرائی جا رہی ہے جو چالیس لاکھ افغان مہاجرین کی موجودگی میں کسی صورت قابل قبول نہیں نہ بلوچ قوم ایسےِ مردم شماری کو قبول کرے گی انہوں نے کہا کہ 2011ء میں خانہ شماری میں بھی بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں سامنے ہیں اس وقت کے سیکرٹری شماریات نے بلوچستان میں ہونے والے بے ضابطگیوں کے میڈیا کے سامنے برملا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ چالیس لاکھ افغان مہاجرین کی وجہ سے کوئٹہ و پشتون علاقوں میں مہاجرین کے گھروں کو شمار کر کے 2سو سے 4سو فیصد آبادی میں اضافہ ظاہر کیا گیا تھا جسے کسی صورت درست اقدام نہیں کہا جا سکتا اب ایک بار پھر اسی قسم کی سازشیں کی جا رہی ہیں حکمرانوں میں مہاجرین کے متعلق نرم گوشہ پایا جاتا ہے ہونا تو یہ چاہئے کہ بلوچستان کے آئینی عہدوں پر تعینات حکمران قانون و آئین کے تحت بیانات دیتے لیکن چالیس لاکھ افغان مہاجرین کو بنیاد پر یہ کہنا کہ ان کی وجہ سے بلوچستان کی معیشت مضبوط ہوئی ہے باعث افسوس ہے بلوچستان کے وزراء ‘ ایم پی ایز نادرا حکام کے ارباب واختیار کو دھونس دھمکیاں دے کر بلاک شدہ شناختی کارڈز کو جاری کروانا چاہتے ہیں جب بلوچستان کی صوبائی حکومت کے ارباب و اختیار غیر قانونی اقدامات کے مرتکب بنیں تو کس صورت بلوچستان میں ہونے والی مردم شماری ‘ خانہ شماری صاف شفاف ہو سکتی ہے جبکہ دوسری جانب حکمران جماعت عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے کبھی کبھار مہاجرین کے انخلاء کے بیانات دے رہے ہیں مقررین نے وزیراعلیٰ بلوچستان سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان حکومت افغان مہاجرین کے متعلق کوئی واضح پالیسی دینے سے کیوں قاصر ہے چالیس لاکھ افغان مہاجرین کی باعزت انخلاء کو کس طریقے سے یقینی بنایا جائے مرکزی حکومت سمیت دیگر تین صوبوں نے سخت گیر موقف اپناتے ہوئے افغان کو کیمپوں تک محدود کرنے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں تاکہ افغان مہاجرین کو باعزت طریقے سے اپنے وطن واپس بھیجا جائے لیکن بلوچستان حکومت اب بھی خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے ان کی مجرمانہ خاموشی اس بات کی غمازی ہے کہ وہ ان کی پشت پناہی کررہے ہیں بلوچستان حکومت میں شامل تمام جماعتیں برابر کی شریک ہیں جو انہیں اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کرنے کا ٹھان چکی ہے مقررین نے کہا کہ ہم بلوچستان میں ترقی پسند ‘ روشن خیال افکار کی ترجمانی کرتے ہیں تعصب پر مبنی پالیسی کے کسی صورت قائل نہیں لیکن بلوچستان حکومت و ارباب اختیار پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ مردم شماری ‘ خانہ شماری کسی بھی صورت افغان مہاجرین کے شناختی کارڈز منسوخ کئے جانے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے کیونکہ یہ ہماری موت و زیست کا مسئلہ ہے افغان مہاجرین نہ صرف بلوچ پورے بلوچستانیوں کیلئے مسائل کا سبب بن رہے ہیں انہی کی وجہ سے بلوچستان میں دہشت گردی ‘ کلاشنکوف کلچر ‘ مذہبی جنونیت ‘ طلبانائزیشن ‘ فرقہ واریت ‘ قتل و غارت گری ‘ معصوم بچوں کے سکولوں پر حملوں سمیت تمام مسائل کا سبب مہاجرین کی پائے گئے ہیں مقررین نے کہا کہ آج بلوچستان حکومت اپنی سرکاری مشینری کو مہاجرین کے شناختی کارڈز ‘ ڈومیسائل بنانے کیلئے غیر قانونی طور پر استعمال میں لا رہی ہے کوئٹہ سمیت بلوچستان کے پشتون اضلاع میں سیاسی بنیادوں پر تعینات ڈپٹی کمشنرز مہاجرین کے شناختی کارڈز کے اجراء میں مدد گار ثابت ہو رہے ہیں انصاف کی آڑ میں مہاجرین کو کلیئرنس سرٹیفکیٹ جاری کئے جارہے ہیں مقررین نے کہا کہ نادرا حکام پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دھونس دھمکیوں کی پروا کئے بغیر میرٹ پر کام کریں تحقیقاتی اداروں کی جانب سے تصدیق کے عمل کو مزید موثر بناتے ہوئے انہی اداروں کے ذریعے تصدیق کو یقینی بنانا لازمی قرار دیا جائے آج جو لوگ اس بات کا واویلا کر رہے ہیں کہ تصدیق کا عمل ختم کیا جائے تحقیقاتی کمیٹی کے خلاف آئے روز بیانات دیئے جا رہے ہیں جو قابل افسوس ہے مقررین نے کہا کہ بی این پی ایسے کسی عمل پر خاموش نہیں رہے گی اور حکمران جماعتوں پر واضح کرنا چاہتی ہے کہ فوری طور پر اتحادیوں کی خوشنودی کی خاطر بلوچ قوم کے ساتھ ناانصافیوں کے مرتکب نہ بنیں ورنہ تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی بی این پی یہ واضح کرنا چاہتی ہے کہ بلوچستان میں کلاشنکوف کلچر کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے لازم ہے کہ مہاجرین کو کیمپوں تک محدود کرتے ہوئے باعزت طریقے سے بھیجا جائے اور ان کی موجودگی میں مردم شماری خانہ شماری نہ کرائی جائے ۔ مقررین نے کہا کہ حکمران بلوچ دشمنی پر مبنی پالیسیاں فوری طور پر ترک کریں شناختی کارڈز کی منسوخی پر فوری عملدرآمد یقینی بنایا جائے نیب حکام جعلی شناختی کارڈز کے بارے میں اپنی تحقیقات کو مزید وسیع کرتے ہوئے حقائق کو منظر عام پر لائیں تاکہ بلوچ کے عوام کو یہ علم ہو سکے کہ کس طرح لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کو شناختی کارڈز جاری کئے گئے مرکزی حکومت پر اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے بلوچستان حکومت و ان کے اتحادیوں کو غیر قانونی اقدامات سے روکے کیونکہ ان کی خواہش ہے کہ پورا افغانستان بلوچستان میں آباد کیا جائے جو کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں بلوچستان سیاسی یتیم خانہ نہیں کہ وہ کوئی بھی آ کر ملکی شہریت حاصل کر کے بلوچ وسائل سے استفادہ حاصل کرے اس موقع پر پارٹی کے سینکڑوں کی تعداد میں رہنماء و کارکن موجود ہیں جن میں بی ایس او کے جمیل بلوچ ‘ بی این پی کے یونس بلوچ ‘ میر غلام نبی مری ‘ ملک محی الدین لہڑی ‘ اسد سفیر شاہوانی ‘ ڈاکٹر احمد علی ‘ حاجی یوسف بنگلزئی ‘ ملک ابراہیم شاہوانی ‘ موسیٰ بلوچ ‘ آغا خالد شاہ دلسوز‘ حاجی فاروق شاہوانی ‘ میر بہادر خان مینگل ‘ لقمان کاکڑ ‘ سردار رحمت اللہ قیصرانی ‘ منظور احمد سمیت دیگر ساتھی موجود تھے ۔