|

وقتِ اشاعت :   April 13 – 2015

یہ ایک حقیقت ہے کہ یمن میں علی عبداللہ صالح کے بعد ایک قانونی اور جائز حکومت تھی ۔ مگر گزشتہ سال ستمبر میں ایران کے حمایتی حوثی باغیوں نے حکومت پر قبضہ کر لیا ۔ صدر اور وزیراعظم کو گھروں میں نظر بند کردیا فوجی افسران کو قتل کیا اور ان کے اہل خانہ کی بے حرمتی کی اور گھروں میں توڑ پھوڑ کی ۔ صدر منصور ہادی گھر کی نظر بندی توڑ کر عدن فرار ہوگئے ۔اور وہاں پر انہوں نے اپنے دوبارہ صدر بننے کا اعلان کیا ۔دنیا نے ان کو یمن کا قانونی صدر تسلیم کر لیا جب حوثی باغیوں اور ان کے حمایتیوں نے عدن پر حملے کیے ۔ صدارتی محل پر بمباری کی تو وہ سعودی عرب چلے گئے اور وہاں سے انہوں نے مصر جا کر عرب لیگ کے اجلاس میں شرکت کی ۔ اب بھی وہ یمن کے جائز اور قانونی صدرہیں ایران اور اس کے حمایتی حوثی قبائل اس بات کو تسلیم نہیں کرتے ۔ صورت حال جب زیادہ خطر ناک ہوگئی اور حوثی قبائل نے عدن پر قبضہ کی کوشش کی تو راتوں رات عرب اتحاد بن گیا اور 17عرب ممالک نے اس کی حمایت کی۔ اس کے علاوہ دنیائے اسلام کے تین بڑے ممالک ترکی ‘ پاکستان اور مصر نے بھی عرب اتحاد کی حمایت کی اور ایران پر دباؤ بڑھایا کہ وہ یمن میں قیام امن کے لئے ایک مثبت کردار ادا کرے ۔ اس سلسلے میں مشورے ہوئے جس میں یہ فیصلہ ہوا کہ ترکی کے صدر اردگان کو تہران بھیجا جائے ۔صدر اردگان دو دن تہران میں رہے اور انہوں نے رہبر اسلامی اور ایرانی صدر سے ملاقات کی ۔ رہبر اسلامی نے ترکی کے صدر سے دو ٹوک الفاظ میں یہ کہا کہ یمن پر بمباری بند ہونی چائیے اور غیر ممالک یمن کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں ۔ ان کا موقف انتہائی سخت تھا ۔ لچکدار نہیں تھا دوسرے الفاظ میں ایران حوثی قبائل کے اقتدار پر قبضے کو جائز سمجھتا ہے ۔ البتہ حکومت ایران نے یہ بھی کہا ہے کہ یمن کے فریقوں کے درمیان بات چیت کسی غیر جانبدار ملک میں ہونی چائیے ۔ قطر اس سلسلے میں پہلے ہی یہ پیش کش کر چکا ہے ۔ ریاض میں یمن کے فریقوں کی ملاقات کا انتظام کیا گیا تھا مگر اس مقام پر اتفاق نہ ہو سکا ۔ اس لئے بات چیت شروع نہ ہو سکی اور ملک جنگ کی لپیٹ میں آگیا ۔ دوسری طرف سعودی عرب جو یمن کا دیرینہ اتحادی ہے کا بھی موقف انتہائی سخت اور غیر لچکدار ہے ۔ سعودی عرب نے یہ اعلان کررکھا ہے کہ یمن میں حوثی باغیوں پر اس وقت تک بمباری جاری رہے گی تاوقتیکہ ان کو مکمل طورپر شکست نہ ہوجائے یا وہ ہتھیار نہ ڈال دیں ۔ سعودی عرب اور ان کے اتحادیوں کی گرفت یمن پر خاصی مضبوط نظر آرہی ہے ۔ حوثی قبائل کے ٹھکانوں پر شدید بمباری ہورہی ہے ۔ تباہی کا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔ البتہ یمن کی فضاؤں پر سعودی اور اس کے اتحادی ممالک کے جنگی طیاروں کا راج ہے ۔ ابھی تک ایران کی کوئی کوشش نظر نہیں آرہی ہے کہ وہ حوثی قبائل کی مدد کو کس طرح اور کب آئے گا۔ البتہ ایران نے اپنے دو بحری جنگی جہاز باب المندب کی طرف روانہ کردئیے ہیں ۔ شاید دونوں ایرانی جنگی جہاز سمندر کے راستے حوثی قبائل کو فوجی امداد پہنچانے کی کوشش کریں ۔ تاہم وہاں پر امریکی بحری بیڑا ‘مصر کے دو جنگی جہازوں کے علاوہ اتحادیوں کے جنگی جہاز موجود ہیں ۔ امریکا سیٹلائٹ کے ذریعے ایرانی جہازوں کے رول پر قریبی نظر رکھے گا اور اس صورت میں رسد کے راستوں کو سعودی بمباری سے تباہ کیا جا سکتا ہے ۔ اس کو نا ممکن بنایا جا سکتاہے کہ باب المندب یا گلف آف عدن سے حوثی قبائل کو رسد پہنچائی جائے ۔ اگر ایران حوثی قبائل کو رسد پہنچانے میں کامیاب ہوگیا تو ممکن ہے کہ یہ جنگ طول پکڑے اور خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے ‘ ایران کے خلاف فوجی اور سیاسی اتحاد بہت زیادہ وسیع اور منظم ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ایران کو شکست ہوگی ۔کم سے کم یمن سے ایران کو مکمل طورپر نکلنا پڑے گا۔ یہ سعودی عرب کا بیک یارڈ ہے اور خطے کے ممالک اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ یمن میں سعودی عرب کے مفادات بہت زیادہ ہیں اس کے بغیر سعودی عرب کی سیکورٹی کو خطرات لاحق رہیں گے۔