افغان مہاجرین کی آمد 1980ء کی دہائی میں شروع ہوئی اور غالباً اسی زمانے میں ہی رک گئی یا انتہائی کم ہوگئی، ان میں بعض طاقتور اور با اثر افغانوں کو با قاعدہ اعلیٰ سطحی وفد بھیج کر پاکستان بلایاگیاتاکہ ا س وقت کے افغان حکومت کو دنیابھر میں بدنام کیا جا سکے ۔ ان وفود میں کمشنر اور ڈپٹی کمشنر صاحبان بھی شامل تھے جنہوں نے ان افغان معتبرین کو لالچ بھی دئیے ۔ بعض افغانوں کو دھونس دھمکی خصوصاً قتل کی دھمکی کے بعد پاکستان یا بلوچستان ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا ۔ یہ اس وقت کی فوجی حکومت کی پالیسی تھی جس پر آمناً و صدقناً عمل ہوا ۔ بہر حال مہاجرین کی آمد تو رک گئی مگر غیر قانونی تارکین وطن کی آمد بلوچستان میں تا حال جاری ہے ۔ سرحدی محافظین کو رشوت دے کر افغان سرحد پارکراتے ہیں ۔ انتقال آبادی ابھی تک جاری ہے حکومت اور اعلیٰ حکام نے آنکھیں بند کر لی ہیں اور بعض کے لئے رشوت نا زل ہورہی ہے ۔ یہاں بڑا سوال غیر قانونی تارکین وطن افغانوں کا ہے جو بلوچستان میں غیر قانونی طورپر موجود ہیں ایسے سارے افغان جو غیر قانونی طورپر سرحد پار کرکے بلوچستان میں داخل ہوئے ہیں وہ سب کے سب مجر م ہیں جو کسی بھی سہولت کے حقدار نہیں ۔ حیرانگی ہے کہ حکومت ان مجرموں کے خلاف اس لئے کارروائی نہیں کرتی وہ پریشر گروپ سے خوفزدہ اور پریشر گروپ کے ناجائز مفادات کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا ۔ جہاں تک افغان مہاجرین کا تعلق ہے ان کو بین الاقوامی معاہدے کے تحت پاکستان میں اس سال کے آخر تک رہنے کا حق ہے ۔ مگر ان مہاجرین کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ مقامی لوگوں کے معاشی حقوق پر ڈاکہ ڈالیں ’ تجارت کریں ‘ روزگار حاصل کریں ۔ غیر قانونی سرگرمیوں میں حصہ لیں ۔ منشیات فروشی کریں ‘اسلحہ اور منشیات کی اسمگلنگ کریں ۔ ظاہر ہے کہ ہمارے معاشرے کے طاقتور اوربا اثر مگر مفاد پرست لوگ ان کی پشت پناہی کرتے ہیں ۔ یہی عناصر ہیں جو حکومت اور حکومتی اداروں کو ان مجرموں کے خلاف کارروائی سے باز رہنے کی کوشش کرتے ہیں جو اخلاقاً غلط ہے ۔افغان مہاجرین کے خلاف تو کارروائی 31دسمبر کے بعد ہوگی جب وہ قوانین کی خلاف ورزی کریں گے مگر ان غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں ہے ۔ ان ذمہ داریوں کوپوری نہ کرنے کے لئے چشم پوش کی جاری ہے ۔ معاشی طورپر پاکستان ایک خستہ حال ملک بن گیا ہے یا بنا دیا گیا ہے اب اس کی معیشت میں اتنی سکت نہیں ہے کہ لاکھوں افغانوں وہ بھی غیر قانونی تارکین وطن ‘ کا بوجھ سنبھال سکے ‘ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو ملازمت اور ذرائع روزگار فراہم کرے مگر ان ذرائع روزگار پر افغانوں کا قبضہ ہے ۔حکومت ان سے ذرائع روزگار واگزار نہیں کرارہی ۔ اپنی قانونی اور آئینی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہی، اپنی ذمہ داریوں سے چشم پوشی کررہی ہے ۔ شہری آبادیوں میں موجود تمام غیر قانونی تارکین وطن افغان کو فوری طورپر گرفتار کیا جائے ان کو عدالت میں سزائیں دی جائیں اور ان کو ملک بدر کیا جائے ،ان مجرموں کے ساتھ کوئی رعایت نہ برتی جائے ۔جہاں تک افغانوں مہاجرین کا تعلق ہے ان کا بھی بلوچستان میں روزگار کے ذرائع پر کوئی حق نہیں ہے۔ کوئی بھی افغان مہاجر بر سر روزگار ہو اور کسی مقامی شخص کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتا ہو اس کو بھی گرفتار کیا جائے اور اس کو جیل کے بجائے ان کے مہاجر کیمپ تک محدود کیا جائے۔ تمام افغان مہاجرین کو شہری علاقوں سے نکال کر ان کے مہاجر کیمپوں تک محدود کیا جائے ۔ ان کے خوراک اور دوسری ضروریات کیلئے اقوام متحدہ کا ادارہ موجودہے، اقوام متحدہ ان کے تمام اخراجات برداشت کرے نہ کہ وہ مقامی لوگوں کے ذرائع روزگار پر قبضہ کریں اور گلہ کاٹ مسابقت ’’Cut Thrdat Competition‘‘سے بچیں۔ لہذا ان کو صرف اور صرف مہاجر کیمپوں تک رکھیں تاوقتیکہ ان کو ان کے گھروں کو واپس بھیجا جائے ۔ یہ اقوا م متحدہ کے ادارے کی ذمہ داری ہے کہ وہ افغان مہاجرین کو ان کے مہاجر کیمپوں تک محدود رکھے ۔
افغان‘ پاکستان پر معاشی بوجھ ہیں
وقتِ اشاعت : April 13 – 2015