|

وقتِ اشاعت :   April 14 – 2015

سعودی عرب نے ایران کا یہ مطالبہ مسترد کردیا ہے کہ یمن میں جنگ بندی کی جائے اور سعودی عرب اور اس کے اتحادی یمن پر ہوائی حملے بند کردیں ۔ سعودی عرب کی طرف سے یہ متوقع رد عمل تھا بعض مبصرین کا یہ خیال ہے کہ یمن میں جو کچھ ہورہا ہے اس میں ایران کا ایک اہم کردار ہے ۔ علی عبداللہ صالح کی حکومت کا تختہ الٹنے اور اس کو معزول کرنے کے بعد یمن کے معاملات ٹھیک چل رہے تھے کہ ایران کی حمایت یافتہ حوثی قبائل نے نہ صرف بغاوت کردی بلکہ اقتدار پر قبضہ کر لیا ۔ قانونی حکومت کو جلا وطن کیا ،صدر او روزیراعظم کو گرفتار کرکے نظر بند کردیا گیا ۔ ان تمام کارروائیوں کا پوری دنیانے یہ مطلب لیا کہ یمن ایران کے حمایتی حوثی قبائل کے قبضے میں چلا گیا ۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی عرب ممالک حوثی قبائل کی حکومت کو تسلیم کریں اور ایران کی بالادستی قبول کریں ۔ یمن میں ایک آئینی اور قانونی حکومت تھی جس کو طاقت کے زور پر بر طرف کر دیا گیا۔ جب صدر منصورہادی قید سے فرا رہو کر عدن پہنچے تو وہاں پر انہوں نے اپنی قانونی حاکمیت کا دوبارہ اعلان کردیا ۔ عرب لیگ اور دنیا کے بیشتر ممالک سعودی عرب کے موقف کو تسلیم کرتے ہیں ،ایرانی حکومت کی نہیں۔ اب واضح طورپر ایک کشیدہ صورت حال نظر آرہی ہے ۔ ایران اپنے حمایتی حوثی قبائل کی حمایت اور ان کو مکمل شکست سے بچانے کیلئے کیا اقدامات کرتا ہے یہ وقت ہی بتائے گا البتہ منصور ہادی کی حکومت کے حامی قبائل نے دو ایرانی فوجی افسران کو گرفتار کر لیا ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ایران نے حوثی قبائل کی رہنمائی کیلئے فوجی مشیر بھیجے تھے ۔ دونوں فوجی مشیروں کو الگ الگ مقامات سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ دوسری جانب ایران نے اپنے دو بحری جنگی جہاز آبنائے باب المندب کی طرف روانہ کیے ہیں غالباً وہ اپنی منزل پر پہنچ چکے ہیں اور اپنا کردار ادا کررہے ہوں گے۔ ایران کے مخالفین کا خیال ہے کہ ایرانی بحریہ بحری جہازوں کی گزر گاہ کی حفاطت کیلئے نہیں بلکہ حوثی قبائل کو سمندر کے راستے ایرانی فوجی امداد پہنچانے کی کوشش ہے ۔ باب المندب اور پورے خلیج عدن میں عربوں اور امریکی بحریہ کی زبردست موجودگی میں ایران کی یہ کوشش شاید کامیاب نہ ہو کہ حوثی قبائل جو یمن کے اندر محصور ہیں ان کو فوجی اور دوسری امداد پہنچائی جائے ۔ یمن کی فضاؤں پر سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک کے جیٹ اور بمبار طیاروں کا قبضہ ہے ۔ ان کو امریکی سیٹلائٹ اور جاسوسی نظام کی مدد حاصل ہے جس سے یہ نا ممکن ہوگیا ہے کہ ایران طیاروں کے ذریعے حوثی قبائل کو امداد پہنچائے ۔اگر ایران سمندری اور فضائی ناکہ بندی کو توڑنے کی کوشش کی تو خدشہ ہے کہ خطے میں جنگ کا دائرہ بڑھ جائے اور اس میں یہ امکانات بھی ہوں کہ امریکا اور ناٹو ممالک اس جنگ میں شریک ہو جائیں ۔ امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع نے ایران کو وارننگ دی ہے کہ امریکہ خاموش نہیں بیٹھے گا اگر ایران اپنے ہمسایہ ممالک کے لئے خطرہ بنے گا یا ان کے خلاف کسی قسم کی فوجی کارروائی کرے گا۔ ایسی صورت میں جنگ کے اثرات پورے ساحل مکران پر پڑیں گے کیونکہ نصف کے قریب ساحل مکران ایران اور دوسرا نصف پاکستان کا حصہ ہے چونکہ پاکستان نے یہ اعلان کررکھا ہے کہ وہ سعودی عرب کی اتحاد اور سلامتی چاہتا ہے تو ایسی صورت میں ترکی ‘ پاکستان اور مصر ‘ دنیائے اسلام کے تین بڑے ممالک ایران کی فوجی قوت کا مقابلہ کریں گے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ایران ایسے خطرات مول لینے کو تیار ہے جس سے خطے کے تمام ممالک امریکا کی سربراہی میں ایران کے خلاف جنگ میں حصہ لیں ۔یقیناً ایران کی قیادت ایسی غلطی نہیں کرے گی کہ حوثی قبائل کی خاطر ایران کو تباہ و برباد کرنے دے۔ مسلسل بمباری سے حوثی قبائل کے حوصلے پست نظر آرہے ہیں اور ان کو ایران کی طرف سے زیادہ فوجی امداد کی فراہمی بھی نظر نہیں آرہی ۔ اس طرح سے ان کو شکست کا سامنا ہے ۔