|

وقتِ اشاعت :   August 21 – 2021

ان دنوں افغانستان کی صورتحال بالخصوص اور ملک کی سیاسی صورتحال بالعموم ایسی ہے کہ ٹیلی فون کی ڈائل لسٹ پر ایک نمبر نکال کر دیکھتا ہوں پھر سوچتا ہوں کہ کسی شاعر نے ایسی ہی شخصیات کیلئے کہا ہوگا

کچھ ایسے نقش زندگی کے چھوڑ جائوںگا
لوگ یاد کیا کرینگے مجھے رو کر برسوں

صحافت میں قدم رکھنے کے بعد جن چند شخصیات سے بات کرکے چیزوں کو سمجھنے میں مدد ملتی تھی ان میں ایک ایسی سیاسی شخصیت تھی جس نے ہمیشہ میرے استادوں کی طرح چھوٹی خبر کو بڑے پردے پر دیکھنے کی نہ صرف تاکید کی بلکہ بہت سے معاملات میں میری سمت کو بھی درست کیا ۔آج اس شخصیت کو ہم سے بچھڑے ایک برس ہونے کو آرہا ہے آج سے ایک سال قبل بیس اگست کو میں نے جان محمد بلیدی کو فون کیا اور بلوچی میں پوچھا حال دو اس سے زیادہ کچھ پوچھنے کی ہمت یا سکت مجھ میں نہیں تھی۔ بھرائی ہوئی آواز میں جان محمد بلیدی صرف اتنا کہہ سکے میر ہمیں چھوڑ کر چلا گیا اور پھر لائن کٹ گئی۔

اسکے بعد مجھے لگا کہ نیشنل پارٹی یا بزنجو خاندان اور بلوچستان ایک شخصیت یا سیاسی رہنماء سے نہیں بلکہ ایک وژنری شخص سے محروم ہوگئے ہیں ۔حاصل خان بزنجو کے والد میر غوث بخش بزنجو نے ایوبی آمریت کیخلاف جدوجہد کی تو میر حاصل خان نے مشرف کی آمریت کو للکارا۔ میر غوث بخش بزنجو نے ون یونٹ توڑ دو کی کامیاب تحریک چلا کر بلوچستان کو صوبے کا درجہ دلوایا تو میر حاصل خان بزنجو نے اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے بلوچستان کے حقوق کو تحفظ دیا، وہ اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بلوچ اور بلوچستان اور آئین اور جمہوریت کی جنگ لڑتے ہوئے کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہوئے اور اس دنیا سے چلے گئے۔

مجھے یاد ہے جب انہیں کینسر کی تشخیص ہوئی تو اسکے بعد ایک روز ملاقات پر میرے چہرے پر مایوسی دیکھ کر اپنے پرانے انداز میں مسکرائے اور کہا کہ ایسے لگتا ہے کینسر مجھے نہیں تمہیں ہوا ہے۔ میں نے کہا میر صاحب میرے جانے سے چند لوگوں کو فرق پڑے گا آپ کے جانے کا نقصان بلوچ اور بلوچستان اور پاکستان کو ہوگا جس پر انہوں نے کہا دیکھو پاکستان میں انسان کی اوسط عمر ساٹھ سال کی ہوتی ہے وہ میں گزار چکا ہوں اسکے بعد جو ملا بونس سمجھ لونگا ،پریشان نہ ہو، اس کینسر کو بھی شکست دونگا ۔شاید وہ ایسا کہہ کر ہماری امید زندہ رکھنا چاہتے تھے اسٹیج تھری اور فور پر جب کینسر کی تشخیص ہوئی تو وہ حقیقت کو بھانپ چکے تھے انکے علاج کے دوران انکے صاحبزادے شاہ وس سے مزاج پرسی کیلئے رابطہ رہتا تھا ۔ایک مرتبہ کافی دن بات نہ ہوئی تو میں نے شاہ وس کو کہا میری بات کل ضرور کروانا۔ شاہ وس نے کہا صبح گیارہ بجے فون کریں میں آپکی بات کروائونگا کیونکہ اسی دن وہ ہمارے سینیئر صحافی دوست عامر ضیاء کے پروگرام میں نظر آئے تھے تو سوچا میں بھی حال احوال کرلوں ۔جیسے ہی صبح فون کیا تو مسکرا کر بولے مجھے پتہ ہے تم کیا شیطانی سوچ رہے ہو کوئی بکواس کرنے سے پہلے یہ بتائو پروگرام کیسا تھا۔

میں نے کہا آپکے پرانے دوستوںکو کل شدت سے احساس ہوا کہ آپ کو اتنا دور نہ کرتے تو بہتر تھا ۔پھر مسکرائے اورکہا پیغام آرہے ہیں بار بار کہ کوئی راستہ نکالیں تو میں نے کہا پھر کیا ارادہ ہے؟ آگے سے جواب دیا ابھی یہ بات قبل از وقت ہے تم سنائو کیسے ہو ،کبھی کبھار حال احوال کرلیا کرو اور اگر کوئی خاص بات ہو تو شاہ وس کو بتادیا کرو۔پھر اسکے بعد قسمت نے موقع نہ دیا اور پھر ان سے ملاقات نال کے قبرستان میں ہی ہوئی۔ میر حاصل خان بزنجو کی رحلت نہ صرف انکی جماعت نیشنل پارٹی اور بلوچستان بلکہ پاکستان کی جمہوری اور آئینی جدوجہد کرنے والی جماعتوں کا نقصان ہے میر حاصل خان بزنجو پر کوئی جتنی بھی تنقید کرے لیکن ایک بات واضح ہے کہ ہمیشہ وہ جمہوریت اور آئین کی جدوجہد کرنے والوں کی صف میں کھڑے رہے ۔دو ہزار چھ کے بعد جب بلوچستان کے حالات بدلے تو بلوچستان کے بہت سے رہنمائوں نے اپنا موقف مبہم رکھا لیکن میر حاصل خان بزنجو اپنے نظریئے میں واضح لائن لے کر چلے۔

بلوچستان کی بدلتی صورتحال نے انہیں نہیں جھکایا پاکستان میں آمریت کیخلاف جاری جدوجہد میں وہ نہیں جھکے۔ دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن سے چند ماہ قبل انہیں واضح پیغام اور اشارے ملے کے میاں نواز شریف کا ساتھ چھوڑ دیں وہ نہیں مانے میاں نواز شریف جب جی ٹی روڈ یا موٹر وے پر جانے کے معاملے میں پریشان تھے تو میر حاصل خان بزنجو اور محمود خان اچکزئی سے مشورہ مانگا ۔میر حاصل خان نے کہا کہ اپنی پچ پر جاکر کھیلیں جی ٹی روڈ آپکا ہوم گرائونڈ ہے اور پھر جب میاں نواز شریف ووٹ کو عزت دو کے بیانیئے کیساتھ جی ٹی روڈ پر آئے تو ایک دن ان کے شعلہ بیاں تقریر کے بعد میں نے میر حاصل خان کو ایک لطیفہ سنایا تو قہقہہ مار کر ہنسے اور کہا کہ لگتا ہے نظریاتی میڈیسن کی یا تو ڈوز ڈبل ہوگئی ہے یا تو دو دوائوں کے ٹکرائوں نے معاملے کوگھمبیر بنا دیا ہے۔ میر حاصل خان بزنجو کے متعلق لکھنے کیلئے بہت کچھ ہے کئی مضمون ،کئی صفحات لکھے جاسکتے ہیں لیکن میرے لئے وہ کتاب بہت اہم ہوگی جسے میر حاصل خان بزنجو خود لکھ رہے تھے اور ایک مرتبہ مجھ سے اسکا تذکرہ کیا تھا کہ ہمیں تاریخ کو بنانے کیلئے سچ لکھنا بولنا اور بتانا ہوگا ۔

نہیں معلوم وہ کتاب کہاں تک پہنچی، وہ کتاب اگر اپنا کوئی وجود رکھتی ہے تو میر شاہ وس کی بحیثیت فرزند اور نیشنل پارٹی کی بحیثیت جماعت یہ ذمے داری ہے کہ اسے ضرور چھاپیں۔ آج ایک سال بعد مجھے لگتا تھا کہ میر حاصل خان بزنجو کی برسی پر انکی جماعت نال یا تربت میں کوئی جلسہ رکھ کر اپنی ذمے داری ادا کردیگی لیکن ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ،جان محمد بلیدی اور انکی جماعت نیشنل پارٹی نے مجھے حیران کردیا ۔انہوں نے میر حاصل خان بزنجو کی برسی کا جلسہ کوئٹہ سریاب روڈ پر بائیس اگست کو رکھا ہے یہ جان کر مجھے خوشی ہوئی کیونکہ میر حاصل خان صرف نال یا تربت کا نہیں بلکہ بلوچستان کا لیڈر تھا اور بلوچستان کا دل کوئٹہ ہے ۔نیشنل پارٹی کے اس فیصلے میر حاصل خان کی ایک سوچ ہے جس پر مجھے وہ بات یاد آتی ہے جب کینسر کی تشخیص کے بعد ایک ملاقات میں انکی ایک پرانی بات یاد دلائی کہ میر صاحب آپ کہا کرتے تھے کہ میری ذمے داری اسلام آباد اور بلوچ کے درمیان فاصلوں کو کم کرنا ہے مجھے فنڈز اور نوکریوں سے زیادہ بڑا کام کرنا ہوتا ہے اس لئے ایسی چھوٹی باتیں اس نشست میں نہ کیا کرو کہ آپ اسلام آباد میں بلوچستان کیلئے کیا کرتے ہیں۔

پھر اٹھارویں ترمیم کے بعد انہوں نے فون پر کہا بلوچستان کو آئین پاکستان کے تحت جو کچھ چاہئے تھا وہ ہم نے اٹھارویں آئینی ترمیم میں لے لیا ہے، اس بات کو یادد لانے پر انہوں نے کہا اپنا سوال پوچھو سیدھا سیدھا میں نے کہا ہمت نہیں ہو رہی مسکرائے اور کہا پھر ڈانٹ کھائوگے ۔میں نے کہا اپنی جماعت میں اپنے بعد ایسا قد کاٹھ کس کا دیکھتے ہیں جو اسلام آباد میں بیٹھ کر بلوچستان اور اسلام آباد کے فاصلے کم کرسکے؟ مجھے لگا وہ یا تو اپنے خاندان سے میر طاہر بزنجو کا نام لینگے یا پھر اپنے فرزند میر شاہ وس کا یا پھر ولید کا اگر نہیں تو ڈاکٹر مالک بلوچ کا لیکن میر حاصل خان بزنجو کے جواب نے مجھے حیران کردیا ،وہ جواب یہاں لکھنا مناسب نہیں لیکن وہ نام میرے ذہن اور دل میں نقش ہے ۔میرے دوسرے سوال پر مسکرائے اور کہا کہ ضروری نہیں کہ شاہ وس سیاست کرے وہ جو کرنا چاہے یہ اسکی مرضی ہوگی ،میری ایسی کوئی خواہش نہیں کہ وہ میرے یا اپنے دادا کے نقش قدم پر چلے یا سیاست کرے ۔

لیکن میر حاصل خان کی وفات کے بعد میر شاہوس بزنجو نے ایک سیاسی کارکن کی طرح نیشنل پارٹی میں جس طرح شمولیت کی ہے مجھے لگتا ہے کہ وہ اپنے والد کے راستے پر چلے گا جیسے میر حاصل خان نے میر غوث بخش بزنجو کا فرزند ہوتے ہوئے اپنی جدوجہد کا آغاز نچلی سطح بی ایس او سے کیا تھا ،شاہ وس بھی اسی انداز سے آگے بڑھے گا۔ میر حاصل خان بزنجو نے ٹویٹر ٹائم لائن پر جو ٹویٹ پن کر رکھا تھا وہ انہوںنے گیارہ اگست دو ہزار اٹھارہ کو میر غوث بخش بزنجو کی برسی پر لکھا تھا۔ اسکا متن کچھ یوں ہے ــ’’میر صاحب ( میر غوث بزنجو) نے ساری زندگی عوام کی بے لوث خدمت کی اور ہمیں بھی یہی درس دیا مجھے یاد ہے جب وہ سالوں جیل میں رہتے تو ہمیں کہا کرتے تھے کہ یہ ان پر عوام کا قرض ہے جو وہ اتار رہے ہیں۔انہوں نے سیاست کو عبادت سمجھا ،مرتے دم تک عبادت میں مصروف رہے ،مجھے انکی سیاست پر فخر ہے‘‘

میر حاصل خان بزنجو کے کاندھوں پر صرف میر غوث بزنجو کی شخصیت کا وزن تھا شاہ وس کے کاندھوں پر دادا اور والد کی شخصیت کا دہرا وزن ہے اب وہ اس بار گراں کو کیسے اٹھاتے ہیں اسکا فیصلہ ابھی ممکن نہیں ہے۔ میرے پاس میر حاصل خان کیساتھ کھینچی گئی کوئی تصویر تو نہیں لیکن انکی یادیں ضرور ہیں جو میرے لئے ایک اثاثہ ہیں۔ میرجمہوریت میر حاصل خان بزنجو کی پہلی برسی پر انکا جملہ انکی جماعت اور انکے کارکنوں کی نظر’’
ایک ہی تو جان ہے تو لے یا خدا لے‘‘

اور ایک شعر میر حاصل خان بزنجو کی نظر
کررہاتھا غم جہاں کا حساب
آج آپ یاد بے حساب آئے (فیض احمد فیض)