موجودہ صوبائی مخلوط حکومت نے وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی کی قیادت میں صوبے کی ہمہ جہت ترقی کے لیے مختلف شعبوں میں مربوط اقدامات کے ذریعے عوام کو بہتر سہولتوں کی فراہمی، معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے مختلف شعبوں میں پائیدار ترقی کو وسعت دینے کا آغاز کردیا ہے۔ ان اقدامات کے ثمرات بہت جلد عوام کو خوشگوار تبدیلی کی صورت میں نظر آئیں گے۔بہتر منصوبہ بندی، سرکاری ترقیاتی فنڈز کے مئوثر استعمال کے ذریعے مثبت نتائج کا حصول موجودہ حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ ایسے شعبے جن کی اہمیت مسلّم ہے اور ماضی میں ان کو بوجوہ نظر انداز کیا گیا ان پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ان میں ثقافت، سیاحت، کھیل اور امورِ نوجوانان کے شعبے شامل ہیں۔
بلوچستان اپنے محل وقوع ، جغرافیائی ساخت ، قدیم تہذیبی ورثے کی وجہ سے دنیا بھر کے لئے پر کشش خطہ ہے ۔ ایک طرف وہ معدنی اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے ۔ تو دوسری جانب اپنے جغرافیائی محل وقوع کے پیش نظر دنیا کی تین بڑی تہذیبوں وسطی ایشیاء ، میسوپوٹیمیا اور انڈس ویلی کے سنگم پر واقع ہے ۔ اگر ہم اس خطے کی تاریخی و تہذیبی پس منظر پر نظر ڈالیں تو ہمیں محسوس ہوگا کہ یہ خطہ اپنی موزوں قدرتی موسمی خصوصیات کی وجہ سے انسانی آبادی کے لئے ہمیشہ پرکشش رہا ہے جہاں پانی کے وسائل موجود رہے ہیں وہاں آبادی کے آثار ملتے ہیں ۔ سلیمان رینج میں22ہزار قبل مسیح سے 12ہزار قبل مسیح تک ڈھکے ہوئے غاروں اور پتھروں پر پینٹنگزکی دریافت ہو یا وادی بولان کے دھانے پر ہزاروں سال قبل مسیح کی مہر گڑھ تہذیب ۔ بلوچستان اپنی منفرد تہذیبی رنگا رنگی اور ثقافت کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور ہے ۔ ان تہذیبی نشانیوں کے ساتھ ساتھ صوبے میں سینکڑوں ایسے نا دریافت کر دہ گوشے ہیں جن کو تلاش کرنے اور ان کی حفاظت کا انتظام کرنے کی ضرورت ہے ۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مہر گڑھ تہذیب نہ صرف وسطی ایشیاء بلکہ دنیا کی اس وقت کی تہذیبوں سے زیادہ ترقی یافتہ اور انڈس ویلی سولائزیشن کے ماتھے کا جھومر تھاجہاں لوگ جانوروں کو پالتو بنانے کا ہنر جانتے تھے اور کھیتی باڑی سے واقفیت رکھتے تھے ۔ انسانی ارتقاء کی تاریخ اور تہذیبوں کے سفر میں بلوچستان ایک منفرد او رجداگانہ حیثیت کا حامل ہے ۔ یہاں ابتدائی پتھر کے زمانے کے آثار کے ساتھ ساتھ اپنے وجود کو برقرار رکھنے اور ترقی کے لئے انسانی کوششوں کے نشانات بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں ۔ یہاں کا ثقافتی ورثہ اتنا قدیم ہے جتنا کہ خود انسان کے اپنے ارتقائی منازل … صوبہ بلوچستان میں جابہ جا ما قبل از تاریخ،نیم تاریخی دور اور بعدازتاریخ دور کی آبادیوں کا سراغ ملتا ہے ۔ اب تک جتنے بھی آثار دریافت کئے گئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ انسان یہاں ہر دو رمیں اپنی سر گرمیوں کے ذریعے اپنے وجود کو تراشنے میں محو رہاہے ۔
ڈاکٹر عبدالرزاق صابرؔ’’ بلوچستان کا تہذیبی سفر ایک تاثر‘‘کے عنوان سے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ بلوچستان کو قدرت نے جہاں اور بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے ۔ وہاں اس صوبے کے قدیم آثار خاص طور پر مہر گڑھ کے آثار جو سبی سے تقریباً 30 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہیں ۔ تاریخی اہمیت کے حامل ہیں ۔ان نو ہزار سال قدیم آثار پر پہلے 1975ء میں فرانس کے ماہرین آثار قدیمہ جے ایف جیرج اور کھیترین جیرج نے تحقیقاتی کام شروع کیا اور اب تک مہر گڑھ تہذیب کے سات مدارج دریافت کئے گئے ہیں ۔ مہر گڑھ تہذیب جنوبی ایشیاء میں واحد خطہ ہے جہاں جانوروں کو پالتو بنانے کا سلسلہ شروع ہوا اور جہاں انسان نے تہذیبی تاریخ میں پہلی دفعہ کاشت کاری کو رواج دیا اور گندم، جو اور کپاس کی کاشت کی اس کے علاوہ جنگلوں اور غاروںمیں الگ تھلگ رہنے کی بجائے بستی بسانے کی ابتدا ہوئی او ر مہر گڑھ میں انسان نے مٹی کے برتنوں کی تیاری کو باقاعدہ صنعت کی شکل دی اور آج بھی مہر گڑھ کے قدیم آثار کو کھودے بغیر کئی مقامات پر ایسے آثار ملیں گے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اناج رکھنے والے برتنوں کی تیاری کو باقاعدہ صنعت کی شکل حاصل رہی ہے ۔
کئی مقامات پر اناج کے گوداموں او رمٹی کے بڑے بڑے برتن اور برتن سازی کے لئے قائم کارخانوں کے آثار واضع طو رپر اوپری سطح(Surface)پر دیکھے جاسکتے ہیں ‘‘ ّ۔کیچ مکران کی سر زمین ہزاروں سال سے ثقافت کا گہوارہ رہی ہے ۔ مکران کے دریافت شدہ تہذیبی آثار میں ستکگیں دور، شاہی تمپ ، میری قلات ، نودز قلات ، نذر آباد ، ناصر آباد ، تھل دمب(ہوشاب دمب I )تھل دمب ( ہوشاب دمب II)سُہریں دمب، کہن قلات، بشام دمب ، دمب ئِ دمبی ۔ چری دمب ، سری دمب ، زیک ، جنگل ، شکر خان دمب ، اندر دمب، گہرام ، کپوتو او کپوتوراک شیلٹر شامل ہیں ۔
گنُد ریانی ،دور 6 ہزار قبل مسیح ضلع لسبیلہ ۔ انسان کے بنائے ہوئے دو سو کے قریب پتھر / مٹی کو کاٹ کر بنائے گئے ایسے غار نما گھر ۔ جس کا ایک کمرہ اور اس کے سامنے برآمدہ ہوتا ہے ۔
18ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو منتقل کئے گئے شعبوں میں آثار قدیمہ بھی شامل ہے ۔ وفاقی حکومت کی جانب سے بلوچستان کو28آرکیالوجیکل سائٹ عمارتیں مقبرے اور قلعے منتقل کئے گئے ہیں ۔
ان میں ضلع بولان میں کولاچی گائوں کے قریب پیرک کے آثار، ضلع بولان ہی میں مہر گڑھ او نوشہرہ کے آثار ، تحصیل وڈھ خضدار اور ناچ وادی میں نندو دمب ، خاران میں جھالاوار قلعہ ، خاران شہر میں آزاد خان کا قلعہ، خاران وشبوھی میں پالی قلات ، نوروز قلات میں نوروز قلعہ ، خاران جھالاوار میں پرانا مقبرہ ۔گرّک خاران میں حروگوک ، لسبیلہ میں جام لسبیلہ کا قدیم قبرستان ، بیلہ ٹائون کے قریب جنرل محمد بن ہارون کا مقبرہ ۔ لسبیلہ پیر مبارک میں ہنی وان کا مقبرہ ۔ حب کے قریب گریک ( رومی ) کا مقبرہ ، لورالائی میں طور ڈیری سائٹ ، دابرکوٹ ( لورالائی )کا دمب ،کیچی بیگ ، پیر بلو سریاب روڈ میں شاہی خان دمب، کوتوال،کلی گل محمد ، سملی ،سمنگلی اور دمب مہتر زئی ، شیخ ماندہ اور نوحصار کے آثار شامل ہیں ۔
عمومی حوالے سے اگر ہم بلوچستان کے سیاحتی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو ہمیں دلکش اور قدرتی حسن سے مالا مال وادیاں اور مناظر ، سنہرے ساحل ،سمندرکا نیلگوں پانی ،خوبصورت ہل اسٹیشن ، سرسبز باغات اور لہلہاتی فصلیں ، بے آب و گیاہ صحرا ، سخت پتھریلے سلسلہ ہائے کوہ ، بارشوں اور برف باری سے وقتاً فوقتاً پیدا ہونے والے آبی ذخائر ، سمندری حیات ، مختلف پھول، بوٹے ، جڑی بوٹیاں،قدرت کی تراشیدہ ارضیاتی ساخت ۔انسانی زندگی کے ہر دور سے متعلق آثار قدیمہ ، اہم تعمیراتیStructure ، تاریخی قلعے ، ماقبل از تاریخ کے انسان کے رہائشی غاراور آثار بلوچستان کے طول و عرض میں بکھرے نظر آئیں گے ۔ یہ سب قدرتی وسائل ، گھومنے پھرنے ، مناظر سے لطف اندوز ہونے ،ہائیکنگ ، ٹریکنگ اور غاروں میں موجود حسن میں دلچسپی لینے والوں کے لئے ایک فطری منزل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
سیاحت کے حوالے سے مواقع اور امکانات کو مد نظر رکھتے ہوئے صوبے میں سیاحت اور اس سے متعلق معیشت اور سر گرمیوں میں اضافہ کیا جارہا ہے ۔ دیگر صوبوں میں اپنی اپنی سیاحتی پالیسیاں موجود ہیں مگر بڑے پیمانے پر انویسٹرز کو راغب کرنے ، صوبے میں سیاحت سے متعلق سہولتوں مثلاً ٹرانسپورٹ ،بکنگ ، رہائش ، گائڈز کی بہتر تربیت کے لئے مربوط پالیسی کی اشد ضرورت ہے ۔
بلوچستان کی معیشت اس وقت روایتی شعبوں پر انحصار کرتی ہے ۔ جن میںمحدود پیمانے پر زراعت، گلہ بانی ، ماہی گیری ، ٹرانسپورٹ ، تجارت بعض مخصوص علاقوں میںمعدنیات اور قدرتی وسائل شامل ہیں ۔ سیاحت کو فروغ دے کر ہم بلوچستان کی پولیٹیکل معیشت کو جدید خطوط پر استوار کر سکتے ہیں ۔
بلوچستان کی موجودہ مخلوط حکومت نے ثقافت اور سیاحت کے شعبے میں اہم اقدامات کیے ہیں۔ بلوچستان کے مشہور سیاحتی مقامات مُولہ، چُٹّوک، پیر غیب اور زنگی ناوڑ کو ترقی دینے اور وہاں سیاحوں کو سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ وہاں پہنچنے کے لیے سڑکوں کی تعمیر کو یقینی بنایا ہے۔
زیارت، تفتان میں بہتر سہولیات کے لیے رہسٹ ہائوسس کی تعمیر کا کام جاری ہے۔اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان ٹریول ایجنسیز رولز 2020ء کی منظوری دیکر انہیں نافذ کیا گیا ہے۔پرانے نوادرات اور مخطوطات کو محفوظ بنانے اور انہیں عوام کے ملاحظہ کے لیے موجود رکھنے کے لیے بلوچستان یونیورسٹی میں قائم کردہ میوزیم کے حوالے سے کام آخری مراحل میں ہے۔ بلوچستان کے موجودہ پانچ آرکیالوجیکل سائیٹس کی بحالی اور حفاظت کے حوالے سے لاریب ادارے کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے ہیں۔آرٹ او فنون سے وابستہ افراد کے بہبود فنڈ کو بیس کروڑ روپے سے بڑھا کر چالیس کروڑ روپے کیا گیا ہے۔بلوچستان آرٹس کونسل ایکٹ 2018ء میں ترمیم کی گئی ہے۔پہلی بار شارٹ فلم اور فوٹوگرافی کے مقابلے منعقد کیے گئے۔ بلوچستان آرکائیوز ایکٹ 2014ء اور ٹوریسٹ گائیڈ رولز 2020ء کے حوالے سے قانون سازی کی گئی ہے۔
نوجوانوں کو کھیلوں کی جانب راغب کرنے اور مختلف کھیلوں میں نوجوانوں کے ٹیلنٹ کو ابھارنے کے لیے وزیر اعلیٰ بلوچستان کی ہدایت پر صوبائی محکمہ کھیل نے کئی ٹورنامنٹس اور ایونٹس کا انعقاد کیا ہے۔اس کے علاوہ ملکی سطح پر مختلف کھیلوں میں بلوچستان کے کھلاڑیوں کی شرکت کے ذریعے بلوچستان کے نوجوانوں کو اپنے جوہر دکھانے کا موقع فراہم کیاگیا۔اس سال 26جولائی سے تین اگست تک کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے باہم اشتراک سے محکمہ کھیل حکومت بلوچستان نے کوئٹہ کے بگٹی اسٹیڈیم میں وومین ٹی ٹوینٹی کرکٹ ٹورنامنٹ کا کامیاب انعقاد کیا ۔
پانچ ٹیموں پر مشتمل اس ٹورنامنٹ میں بلوچستان سمیت ملک بھر سے خواتین کرکٹرز نے شرکت کی۔ ایونٹ میں شریک خواتین کھلاڑی PCBکے انڈر 18ایمرجنگ اور قومی ٹورنامنٹس میں شرکت کرچکی ہیں۔ اس سلسلے میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان، صوبائی وزیر کھیل و ثقافت عبدالخالق ہزارہ اور صوبائی سیکریٹری اسپورٹس عمران گچکی کی کاوشیں اور ذاتی دلچسپی قابل تعریف ہے۔آخری دن صدر مملکت عارف علوی نے کھلاڑیوں اور منتظمین میں انعامات تقسیم کیے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی ہدایت پر سیکریٹری کھیل عمران گچکی اور PCBکے ڈائریکٹر آپریشنز ندیم خان کے مابین ملاقات ہوئی جس میں کرکٹ کے فروغ کے لیے دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں PSLطرز پر ٹورنامنٹ کے انعقاد پر اتفاق کیا گیا۔جلد ہی اس سلسلے میں عملی اقدامات کا آغاز ہوگا۔اس کے علاوہ حکومت بلوچستان نے 17سال کے بعد کوئٹہ چیف منسٹر بلوچستان گولڈ کپ ہاکی اور فٹبال ٹورنامنٹ جیسے بڑے ایونٹس کا انعقاد کیا گیا۔بلوچستان کے 425آفیشل اور کھلاڑیوں نے پشاور میں منعقدہ 33ویں قومی کھیلوں میں حصہ لیا۔
علاوہ ازیں بلوچستان انٹر نیشنل اسکواش لیگ کا انعقاد کیا گیا۔ مسٹر پاکستان باڈی بلڈنگ مقابلے منعقد کیے گئے جس میں پاکستان بھر سے کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔گڈانی میں بیچ گیمز منعقد کیے گئے۔بلوچستان بھر میں کھیلوں کی سہولتوں میں اضافے کے لیے بلوچستان کے 33اضلاع میں اسپورٹس کمپلیکس کی تعمیر کو یقینی بنایا گیا۔علاوہ ازیں زیادہ آبادی والے اضلاع میں منی اسپورٹس کمپلیکس کی تعمیر کا کام جاری ہے۔بلوچستان کی 61میونسپل کمیٹیز میں فوٹسال گرائونڈز کی تعمیر مکمل کی گئی ہے،
اُمورِ نوجوانان کے شعبے میں زیارت اور گوادر میں یوتھ ڈیولپمنٹ سینٹرز کی تعمیر کا کام 60فیصد مکمل ہوچکا ہے۔قانون سازی کے شعبے میں بلوچستان یوتھ پالیسی 2021ء کا اجراء کیا جاچکا ہے۔
ان تمام شعبوں میں ترقی کے وسیع امکانات کو مدِنظر رکھتے ہوئے موجودہ صوبائی حکومت نے جو اقدامات کیے ہیں، اس سے امید ہے کہ صوبے میں ثقافتی و سیاحتی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوگا، کھیلوں اور اُمورِ نوجوانان کے شعبوں کی فعالیت سے نوجوان نسل کو اپنے ٹیلنٹ کے اظہار اور صوبے جا نام روشن کرنے کا موقع ملے گا۔