|

وقتِ اشاعت :   September 18 – 2021

کچھ لوگ اپنے کئے ہوئے جہدوجہد سے تاریخ کورنگ دیتے ہیں۔کٹھن راستوں کو پار کرکے اپنے آنے والی نسل کے خوبصورت مستقبل کیلئے وہ اپنی جان و مال کی قربانی دیتے ہیں۔ انہی جہد کار اور انقلابی کامریڈوں میں سے ایک ماؤزے تنگ تھا۔ ماؤزے تنگ دنیا کے سب سے کثیر آبادی والے ملک چین کے انقلاب کے بانی اور اکیسویں صدی کے بااثر ترین سیاسی رہنماؤں میں سے ایک تھا۔چیرمین ماؤ 26 دسمبر 1893 میں چین کے صوبے ہونان کے ایک گاؤں شاؤشان میں پیداہوئے۔

چیرمین ماؤ شان میں کوہ چلتن سے بھی بلند تھا ۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے پرائمری اسکول سے حاصل کی۔ ثانوی تعلیم حاصل کرنے کیلئے وہ ہونان کے دارالخلافہ شنگشا چلاگیا۔ ماؤ تعلیم حاصل کررہا تھاتو اسی دوران 1911 کو مانچو خاندان کی بادشاہت کے خلاف سن یات سین کی قیادت میں انقلابی تحریک شروع ہوگئی تو چیرمین اپنا تعلیمی سفر ادھورا چھوڑ کر اس کاروان میں شامل ہوگیا۔1912 کو جب سن یات سین کی قیادت میں چین ری پبلک قائم ہوئی تو ماؤ واپس اپنی سفرپر گامزن ہوئی اور گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔

1920میں اپنے استاد فلاسفر یانگ چانجی کی بیٹی ” یانگ کائی ہوئی”سے اس کی شادی ہوئی۔چیرمین ماؤ کمیونسٹوں کے حامی تھے اور وہ فارغ اوقات میں زور و شور سے کمیونزم پھیلاتے تھے۔ مئی1920 کو جب کمیونسٹ پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تو چیرمین ماؤ اور اس کے ساتھی اس پارٹی کا باقاعدہ حصہ تھے۔ جاپانی سامراج سے آزادی اور جاگیرداری کا خاتمہ اس پارٹی کا منشور تھا۔ سن یات سین جب 1925 میں وفات پاگئے تو اس کی جگہ جرنیل چیانگ کائی شیک چین کا صدر بن گیا ۔ جرنیل چیانگ کائی شیک ایک نیشنلسٹ اور وہ کٹر کمیونسٹ دشمن تھا جس کی وجہ سے کومنتانگ کے اندر کمیونسٹوں اور نیشنلسٹوں کے درمیان اختلافات واضح شکل میں سامنے آگئے۔

1927 کو چیانگ کائی ہوئی شیک نے شہروں میں کمیونسٹوں کے فعال ورکروں کے سفاکانہ قتل عام کا حکم دیاتو چیرمین ماؤ شنگھائی شہر سے فرار ہوکر کر دیہات میں چلاگیا اور اپنی تحریک کو پروان چڑھانے کیلئے کسانوں کو منظم کرنا شروع کردیا۔1927 سے لیکر 1934 تک ماؤ کمیونسٹ گوریلا جنگجو یونٹوں کو منظم کرتا رہا جن میں اکثریت کسانوں کی تھی ۔ کیانگسی شہر انقلابیوں کے قبضے میں رہا جہاں ساری زمین جاگیرداروں سے لے کر کسانوں کے حوالے کئے گئے۔ٹیکس گٹھا،افیون،بردہ فروشی،غلامی اور بیروزگاری کا خاتمہ کیا اور زبردستی کی شادی پر پابندی لگادی گئی۔ چھ برسوں کے اندر اندر شرح خواندگی 80 فیصد تک جاپہنچی۔

چیرمین ماؤ کی اس تحریک سے اس کی بیوی متاثر ہوئی تو وہ بھی اس کاروان میں شامل ہوگئی ۔ 1930 کو چیرمین ماؤ کی بیوی اور محبوبہ یانگ کائی ھوئی کو انقلابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی پاداش میں گولی ماردی گئی ۔ دشمن کا یہی خیال تھا بیوی کے قتل سے چیرمین ماؤ ٹوٹ جائے گا اور وہ پیچھے ہٹ جائے گا لیکن دشمن مکمل طور پر غلط تھا۔ پختہ نظریہ اور بڑے مقصد کے مالک شخص ماؤ ہار مانے کو تیار نہیں تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ کمیونسٹوں کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ نقصان انہی قوم پرست اتحادیوں سے پہنچتا رہا۔ جب جرنیل چیانگ کائی شیک کے ان حربوں سے کمیونسٹ باز نہ آئے تو اس نے کمیونسٹوں پر اپناپانچواں حملہ شروع کیا ۔

ماؤ کے پاس کل ملاکر ایک لاکھ اسی (180) ہزار نفری اور دو لاکھ رضاکاروں کے سرخ دستے تھے جبکہ دوسری طرف 90 لاکھ دشمن فوجی تھے۔ دشمن اس حملہ میں کامیاب ہوا اور کمیونسٹوں کو اپنامرکز چھوڑ کر چین کے دوسرے حصّے شمالی مغربی حصّے میں منتقل ہونا پڑا تاکہ دشمن کی فوج سے بچا جاسکے اور جاپان کے خلاف وطن کی آزادی کیلئے لڑا جاسکے۔

تاریخ میں یہ سفر لانگ مارچ کے نام سے مشہور ہے جو1934-35 کو کیا گیا ۔اس قافلے میں 90 ہزار انقلابی ساتھی جن میں 50 خواتین بھی شامل تھے۔ اس قافلے نے چھ ہزار میل کا سفرطے کیا۔ اس قافلے نے 24 دریا پارکئے اور 12 صوبے اس کے راستے میں آئے اور اسے دس جنگجو سرداروں کی افواج کا گھیراؤ تھوڑنا پڑا۔شدت موسم کی انتہاؤں میں ،بے خوراکی،کم کپڑوں اور بغیر بستروں کی یہ فوج ہزار ساتھیوں کو بھوک کے ہاتھوں موت کی آغوش میں دے دے کر آگے بڑھتی رہی۔لانگ مارچ میں شامل بے شمار لوگ ان پڑھ تھے جن کو ریڈ آرمی نے پڑھنا لکھناسکھایا۔ اس سفر میں خواتین نے بے سر و سانی کے عالم میں بچوں کو جنم دیا۔ ان بچوں میں کوئی بھی زندہ نہ بچ سکا جن میں چیرمین ماؤ کی اپنی بچی بھی شامل تھی ۔چیرمین ماؤ کی فوج جہاں سے بھی گزرتی، وہاں کے لوگوں میں آگاہی پیدا کرتی رہی اور وہاں کی زمین کو جاگیرداروں سے چھین کر کسانوں کو نوازتا گیا۔یہ لانگ مارچ تخم ریزی کا مشین تھا ۔اس نے گیارہ صوبوں میں بہت سے بیج بوئے جو پھوٹیں گے ۔ ان سے پتے نکلیں گے پھول کھلیں گے اور آئندہ فصل دیں گے۔ یانان تک پہنچتے ان سے صرف دسواں حصّہ زندہ بچا۔

1937 میں جاپان نے چین پہ جارحانہ جنگ چھیڑ دی جس سے سوویت فوجیوں نے ہٹلر کی افواج کو شکست دے کر برلن پر قبضہ کرلیا، ہٹلر کو شکست برداشت نہ ہوئی تو اس نے خودکشی کرلی جس سے کمیونسٹوں کو بہت فائدہ ہوا کیونکہ ان کی لڑائی دو فریقوں سے تھی ایک جاپان اور دوسرا نیشنلسٹ جرنیل چیانگ کھائی شیک کی فوج سے۔ 1945 کو چیانگ کھائی شیک نے کمیونسٹوں پر ایک مرتبہ پھر حملہ کردیا ،یہ جنگ دو سال تک چلتی رہی اور آخرکار کمیونسٹوں نے دشمن کو ہرادیا کیونکہ اس مرتبہ کمیونسٹوں کی ریڈ آرمی پہلے سے زیادہ مضبوط تھی۔

آخر کار 1949 کو چین کے تمام بڑے شہر آزاد کرالئے گئے اور چین میں کمیونسٹوں کی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا۔کمیونسٹ دو دہائیوں تک دیہات میں رہنے کے بعد شہروں میں لوٹ آئے۔ کمیونسٹ حکومت کو عوامی فوج ،محب وطن طبقہ ،کسانوں اور دانشوروں کی حمایت حاصل تھی۔انہوں نے بھاگنے کے بجائے کمیونسٹوں کی حکومت کو تسلیم کرلیا۔

یکم اکتوبر 1949 کو چیرمین ماؤ نے عوامی جمہوریہ چین کے قیام کا اعلان کردیا۔ بقول چیرمین ماؤ “وہ کروڑوں لوگ جو سچے دل سے انقلاب کی حمایت کرتے ہیں ۔یہ صحیح معنوں میں آہنی فصیل ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں توڑ سکتی ۔ بالکل نہیں توڑ سکتی” ۔

شاہ محمد مری اپنے کتاب ” ماؤ زے تنگ” میں لکھتے ہیں کہ “ماؤزے تنگ عالمی تاریخ کا درخشاں ستارہ ہے۔ کوتاہیاں اور مظالم سرزد ہونے کے باوجود چین کی نجات دہندہ پارٹی کا بانی اور سوشلزم کا معمار ہے ۔یہ واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ ثقافتی انقلاب ماؤ کی زندگی کا پورٹریٹ نہیں ہے۔ اس کی زندگی کی اصل اور مستقل تصویر انقلاب ہے۔ وہ انسانی برادری کو ایک ایسا چین بخش گیا جہاں نہ بادشاہ ہیں نہ درباری ، نہ کاہن ہیں نہ فیوڈل لارڈز۔۔ بس خلق خدا ہے اور ان کا راج “۔
پبلو نرودا نے اپنی یادداشتوں میں لکھا کہ “ماؤ کی سیاسی شخصیت سے کون انکار کر سکتا ہے جو ایک آرگنائزر ہے عوام کو آزاد کرنے والی عظیم انسان ہے۔میں اس کی رزمیہ تقدیس سے کیسے متاثر نہ ہوتا ، اس کی سادگی سے کیسے متاثر نہ ہوتا جو کہ اس قدرشاعرانہ ہے، اس قدر درویشانہ ہے اور اس قدرقدیم ہے۔”
ماؤزے تنگ کی زندگی اور تعلیمات بنی نوع انسان کے لیے عظیم اہمیت رکھتے ہیں۔ فاشزم کو شکست دینے ،نو آبادیانیت کی زنجیریں توڑ نے اور غلامانہ زندگی گزارنے والے فاقہ کش چینیوں کے اندر سوشلزم تعمیر کرنے والے اس عظیم انسان کو تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔

آخری عمر میں چیرمین ماؤ کی صحت گرتی گئی اور وہ اپنے حکومت کے قیام کے 27 سال بعد 83 برس کی عمر میں 1976 کو پیکنگ میں انتقال کرگئے ۔ وہ 41 سال تک دنیا کی سب سے بڑی انقلابی پارٹی کے چیرمین رہے۔ چیرمین ماؤ کی زندگی بہادری اور شجاعت کے کارناموں سے بھری پڑی ہے۔