|

وقتِ اشاعت :   May 3 – 2015

حکومتی مشینری اس بات پر مصر نظر آتی ہے کہ ہر قیمت پر بس اڈے کو شہر سے باہر نکالیں گے بلکہ منصوبے کے مطابق اس کو ہزار گنجی منتقل کریں گے۔ وجوہات سب کو معلوم ہیں کہ ایک طاقتور اور مفاد پرست ٹولہ یہی چاہتا ہے اور سرکاری ملازمین عوامی نمائندوں کو غلط اطلاعات دے کر ہر قیمت پر بس اڈہ شہر سے منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ ان مفاد پرستوں کا ہیڈ کوارٹر کیو ڈی اے ہے۔ لینڈ مافیا کو آج کل اتنی کمائی نہیں ہورہی ہے، اگر بس اڈہ منتقل ہوجائے تو ان کی چاندی ہوجائے گی۔ وہ کروڑوں کے بجائے اربوں روپے کمالیں گے۔ اس کا ایک چھوٹا اور مختصر حصہ سرکاری افسران کے بھی ہاتھ لگ جائے گا۔ اگر حکومت اور سرکاری ملازمین کو اتنا شوق ہے وہ اس وقت کا انتظار کریں کہ جب ہزار گنجی کا بس کا اڈہ لوگوں اور عوام الناس کی ضرورت کے مطابق بن جائے۔ فی الوقت یہ عوام الناس کے لئے درد سر کا باعث ہے اور لوگوں یا عوام الناس کو اذیتیں پہنچانے کا ذریعہ بن جائے گا۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ دوسرے شہر جانے کے لیے کوئٹہ کے لوگ 10سے 15میل کا سفر شہر کے اندر ضرور کریں بلکہ دگنا کرایہ بھی دیں۔ حکومت نے یہ نہیں بتایا کہ شٹل سروس کا کرایہ کون دے گا۔ لوگوں کے بار برداری کا کرایہ کون دے گا۔ کیو ڈی اے یہ سب کرایہ برداشت نہیں کرسکتا۔ وہ پلاٹ بیچ کر اپنے ملازموں کی تنخواہیں جمع کرتا ہے۔ حکومت سے سستے داموں زمین خرید کر لوگوں کے ہاتھ مہنگے دام پلاٹ فروخت کرتا ہے۔ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں اچھا میٹریل بھی استعمال نہیں ہوتا۔ سب سے بڑا مسئلہ، بقول سرکاری افسران کے ٹریفک کی صورت حال ہے آج تک ان مفاد پرستوں اور سرکاری ملازمین نے شہر کے وسط سے ٹرک اڈہ کو ہزار گنجی منتقل نہیں کیا جو ٹریفک کی روانی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ آئے دن ٹرک سڑک بند کردیتے ہیں اور ٹریفک پولیس کے اہلکار حیران اور پریشان ہوکر صرف تماشا دیکھتے ہیں کیونکہ ٹریلر کے گزرنے اور ٹرک اڈے کے اندر گھسنے کے لیے کم سے کم 30منٹ لگتے ہیں۔ کوئی ان ٹریلروں کو ہزار گنجی نہیں روکتا۔ جہاں تک بس مالکان کی بات ہے کہ وہ اپنے ٹرمینل تمام سہولیات کے ساتھ شہر کے اندر بنائے ہیں۔ گزشتہ سالوں سبزل روڈ پر تمام مالکان نے اپنے اپنے چھوٹے چھوٹے ٹرمینل بنالیے تھے اور بسیں سبزل روڈ سے دوسرے شہروں کو روانہ ہونے لگیں تھیں اور عوام الناس کو ٹریفک کی پریشانی نہیں تھی۔ وہ کیوں واپس سریاب روڈ پر آئے۔ حکومت نے ان کو کیوں واپس آنے دیا۔ یہ کس کی سازش تھی کہ سبزل روڈ پر بس اڈے کو ناکام بنایا جائے۔ ظاہر ہے کہ لینڈ مافیا کا مفاد اس میں نہیں تھا کہ سبزل روڈ پر بس اڈہ کامیاب ہو۔ وہ ہر قیمت پر بس اڈہ ہزار گنجی منتقل کرنا چاہتا ہے۔ حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ عوامی حکومت کو صرف اور صرف عوامی مفادات کی نگرانی کرنی چاہئے نہ کہ لینڈ مافیا یا چند مفاد پرست سرکاری ملازمین کا۔ ہم اس موقع پر بس مالکان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنی ہڑتال جو دراصل عوام کے مفاد کے خلاف ہے ختم کریں۔ لوگوں کو سفری سہولیات کو بہتر بنائیں۔ اگر حکومت سدا بہار ٹرمینل کو بند نہیں کرتی تو اگر دوسرے بھی اسی قسم کے ٹرمینل تمام سہولیات کے ساتھ رکھتے ہیں تو حکومت ان کو کیوں اجازت نہیں دے گی۔ بس مالکان گروپوں کی صورت میں اپنے سبزل روڈ کے ٹرمینل کو دوبارہ فعال بنائیں اور عوام کی خدمت کریں اور ان کو اذیتوں سے نجات دلائیں۔