بلوچستان علم اور ترقی کی دوڑ میں دوسرے صوبوں سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ چاروں صوبوں میں تمام حکومتیں یکساں طور پر کرپٹ اور نالائق ہیں۔ کہیں فرق ہے تو معمولی مگر دوسرے صوبوں میں نجی شعبے نے کمال کارکردگی دکھائی۔ وہ تعلیم کا میدان ہو یا روزگار فراہم کرنے کا ذریعہ دونوں شعبوں میں نجی شعبہ نے سرکاری شعبہ کو بہت پیچھے چھوڑدیا۔ ہمارے وزیرعلیٰ نے تعلیم کے شعبے میں دل چسپی دکھائی۔ خصوصاً بھوت اسکول اور بھوت اساتذہ جنہوں نے مل کر طلباء کو بھی بھوت بنایا۔ بنیادی طور پر یہ شعبہ انتظامی افسروں کا ہے۔ یہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اعلیٰ ترین انتظامی افسران بھوت اساتذہ اور ان کے رہنماؤں کے سامنے بھیگی بلی بنے بیٹھے ہیں۔ان کی چاپلوسی کرتے رہتے ہیں اور مکمل طور پر بھوت اساتذہ اور ان کے نمائندوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ہیں تاکہ ان کے خلاف کوئی جلوس نہ نکالیں کسی بہانے کوئی جلسہ نہ کر بیٹھیں۔ اگر یہ انتظامی افسران اپنی ڈیوٹی اور سرکاری ذمہ داریاں پوری کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ بلوچستان میں کوئی بھوت استاد ہو اورنہ بھوت اسکول۔ زیارت میں سیکریٹری اعلیٰ تعلیم نے بھوت کالج پر چھاپہ مارا ڈپٹی کمشنر کی ہمراہی میں اور کالج پر تالہ لگا ہوا تھا۔ چپڑاسی، چوکیدار سے لے کر کالج کا پرنسپل تک موجود نہیں تھا۔ سب سے پہلے کالج کے پرنسپل صاحب کو فوری طور پر ملازمت سے برطرف کرنا چاہئے اور بعد میں دوسرے لوگوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے۔ اسی طرح سیکریٹری سیکنڈری تعلیم اسکولوں پر اطلاعات جمع کرنے کے بعد بھوت سکولوں اور بھوت اساتذہ کا پتہ چلائیں تو کوئی وجہ نہیں بھوت اساتذہ اپنی نوکریاں نہ بچائیں ،نوکری کریں یا نوکری سے فارغ ہولیں۔ بلوچستان میں ذرائع زیست کے متبادل نہیں ہیں۔ایک نوکری مشکل سے مل گئی ہے اگر وہ بھی چلی گئی تو وہ استاد بھوکا مرے گا۔ وزیراعلیٰ صاحب کو یہ بخوبی معلوم ہے کہ اس کے منصوبہ کی کامیابی کی کنجی سیکریٹری تعلیم کے پاس ہے اس کے تعاون کے بغیر کسی بھی منصوبہ پر عملدرآمد نہیں ہوسکتا ۔تعلیم کے شعبے میں 25فیصد اضافی رقم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گٹر میں ڈال دی گئی۔ اسی لئے بھوت اساتذہ اور ان کے محبوب ترین رہنماء سیکریٹری صاحبان کے دفاتر میں پائے جاتے ہیں۔وہ اس بات پرنگاہ رکھے ہوئے ہیں کہ کہیں ان کے اور ان کے حواریوں کے خلاف کوئی کارروائی تو نہیں ہورہی ۔ ہمارا وزیراعلیٰ صاحب کو یہ مخلصانہ مشورہ ہے کہ سب سے پہلے اساتذہ کی تمام تنظیموں پر فوری طور پر پابندی لگائی جائے ان کے دفاتر سیل کردیئے جائیں۔ سیکریٹری تعلیم کو یہ حکم دیا جائے کہ ہر بھوت استاد کی تنخواہ روک دی جائے۔ اگر وہ ڈیوٹی پر واپس نہ آیا تو اس کو نوکری سے برطرف کردیا جائے۔ سیکریٹری تعلیم تمام اعلیٰ افسران کو حکم دیں کہ وہ کوئٹہ کے آس پاس تمام اسکولوں کا معائنہ کریں اور اسکولوں کی رپورٹ اخبارات کو جاری کریں تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ کتنے بھوت اساتذہ ہیں اور کتنے ایسے اسکول ہیں ۔یہ اعلیٰ ترین افسران کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھوت اساتذہ کے خلاف کارروائی کریں۔ اس کے بعد ہی تعلیم کے معیار کو بلند کیا جاسکتا ہے۔ نہ اسکول موجود، نہ اساتذہ موجود اور نہ طالب علم موجود۔ بلوچستان میں تعلیم کا معیار کیونکر بلند ہوگا۔ بین الاقوامی امداد کے حقدار افسران نہیں ہیں کہ وہ گاڑیاں خریدیں اور اپنی ذاتی سہولیات میں اضافہ کریں۔ اگر یہی صورت حال رہی تو بین الاقوامی ادارے بلوچستان کی امداد بند کرنے میں حق بجانب ہوں گے۔ 1990ء کی دہائی میں ورلڈ بینک نے بلوچستان کی امداد صرف کرپشن کی بنیاد پر بند کردی تھی جاہل لوگوں کو استاد بھرتی کیا گیا تھا اور گھی اور کھانے کی اشیاء کرپٹ وزیر کے گودام سے برآمد ہوئے تھے۔
بلوچستان میں معیاری تعلیم
وقتِ اشاعت : May 3 – 2015