سندھ اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے الطاف حسین کے بیان پر قرارداد پیش نہ ہوسکی۔ اسپیکر نے رولز معطل کرنے کا مطالبہ مسترد کردیا۔ جس پر حزب اختلاف کے اراکین نے ہنگامہ کھڑا کردیا اور اسمبلی کے اجلاس میں نہ صرف خلل ڈالا بلکہ احتجاجاً اجلاس سے واک آؤٹ کرگئے۔ بلوچستان اسمبلی میں مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی بلکہ اس میں بعض ترامیم کرکے قرارداد کو مزید سخت بنادیا گیااور ایم کیو ایم کو ایک فسطائی قوت قراردیا گیا جو اپنے ہم وطنوں سے ہمیشہ کسی نہ کسی بہانے برسرپیکار رہی اور ان کا قتل عام کیا۔ یہ ترمیم پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رکن کی جانب سے آئی جس کو منظور کرلیا گیا۔ برسراقتدار نیشنل پارٹی کی جانب سے وزیر صحت رحمت بلوچ نے اسمبلی سے خطاب کیا حالانکہ وزیراعلیٰ اجلاس میں موجود تھے اور خاموشی سے کارروائی دیکھتے رہے۔ جے یو آئی کے اراکین اسمبلی نے بھی اس قرارداد کی حمایت کی اور اس کے حق میں تقاریر کیں۔ اسی طرح کے پی کے اسمبلی میں بھی قراردادمتفقہ طور پر منظور کی گئی۔ ان قراردادوں میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ وفاقی حکومت اس کا نوٹس لے کہ الطاف حسین نے دفاعی اداروں کے خلاف نفرت پھیلائی اور لوگوں کو اکسایا کہ وہ بھارت جاکر بھارتی جاسوسی ادارے سے فوجی تربیت حاصل کریں اور پاکستان کے دفاعی افواج کا مقابلہ کریں۔ دونوں صوبائی اسمبلیوں میں یہ قراردادیں تو پاس ہوگئیں اور اب پنجاب کی باری ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب پہلے ہی الطاف حسین کے بیان کی مذمت کرچکے ہیں۔ لہٰذا حکمران پارٹی، پی ٹی آئی کی قرارداد مذمت کی حمایت کرے گا اور امید ہے کہ یہ قرارداد پنجاب اسمبلی میں بھی متفقہ طور پر منظور ہوجائے گی۔ یہ سب کچھ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ متحدہ اور اس کے رہنما ملک بھر میں اب تنہا ہوگئے ہیں۔ اس کے سابق اتحادی پی پی پی بھی اس کی مدد کو آنے کو تیار نہیں ہے۔ اکثر مبصرین اس وقت کا انتظار کررہے ہیں کہ کب وفاقی حکومت متحدہ کے خلاف کارروائی کرے گی۔ ممکنہ طور پر اس پارٹی پر پابندی لگ سکتی ہے کہ وہ ملک کی سیکورٹی کے لئے شدید خطرہ ہے اور اپنے اہداف حاصل کرنے کے لئے وہ بھارتی جاسوسی ادارے’’ را‘‘ سے امداد بھی طلب کررہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی الطاف حسین کے اکثر ساتھیوں کو گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ بعض مقدمات میں متحدہ کے اہم ترین رہنماؤں کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ کراچی میں رہیں اور کراچی سے باہر جانے کی کوشش نہ کریں۔ یہ ایک اشارہ ہے کہ کسی وقت بھی ان اہم ترین رہنماؤں کو پولیس اور رینجرز گرفتار کرسکتی ہیں اور ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چل سکتا ہے۔ گو کہ الطاف حسین نے اپنے بیان میں صفائی پیش کی تھی کہ انہوں نے طنزاً یہ سب کچھ کہا تھا مگر لوگ اور خا ص کر حکمران طبقات اس کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ ان میں شدید غصہ پایا جاتا ہے کہ ایک پاکستانی شہری ہوتے ہوئے بھی وہ دشمن بھارت سے مدد کے طلبگار ہیں کہ وہ پاکستانی فوج سے لڑائی میں ان کی مدد کریں۔ بہر حال سیاسی طور پر یہ واضح ہوگیا ہے کہ حکومت اور متحدہ کے مابین تصادم ناگزیر ہے۔ حکومت نے قانونی جنگ لڑنے کی تیاری شاید مکمل کر لی ہے اور متحدہ کے خلاف بہت زیادہ مواد جمع ہوگیا ہے جو متحدہ پر پابندی لگانے اور ان کے رہنماؤں کو گرفتار کرنے کے لئے کافی ہوگا۔ تاہم وقت کا تعین حکمران خود کریں گے کہ کب متحدہ کے خلاف بھرپور کارروائی شروع کریں۔ اغلب گمان یہی ہے کہ اس میں اب زیادہ دیر نہیں ہوگی، یہ عنقریب ہونے والی ہے۔ متحدہ اس ممکنہ کارروائی کے پیش نظر کیا پیش بندی کرتی ہے، یہ کسی کو نہیں معلوم۔ غالباً یہ کارروائی کاعمل صرف چند لوگوں تک محدود ہوگی جو الطاف حسین کے قریب ہیں۔ باقی تمام لوگوں کا یقینی شکار اچانک ہوگا اور ان کو معلوم بھی نہیں ہوگا کہ یہ کیا ہوا۔ خدشہ ہے کہ اس سے ایک زیادہ بڑا تنازع کھڑا ہوسکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت کا سرکاری ردعمل تو معتدل ہوسکتا ہے مگر اس کا غیر سرکاری عمل تند اور تیز ہوسکتا ہے کہ وہ پاکستان میں بحران کی نوعیت کو زیادہ سے زیادہ شدید بنائے اور اس میں مزید شدت لائے۔
متحدہ اور الطاف حسین کے خلاف قراردادیں
وقتِ اشاعت : May 6 – 2015